کہا جاتا ہے کہ انصاف نہ صرف ہو بلکہ ہوتا ہوا نظر آے مگر
یہ کہاں لکھا ہے کہ جرم ہوتا ہوا نظر آے جو کہ روز میڈیا پر ہوتا نظر آتا
ہے بلکہ دلفریب رنگوں میں ہوتا نظر آتا ہے جس کی سختی سے معانمت ہے مگر کوی
پوچھنے والا نہیں اور پوچھنے والے بھی دلچسپی لیتے نظر نہیں آتے
مجھے بڑی خوشی ہوی کہ ان کو پوچھا گیا اور جو روز ہر جرم کے عینی شاہد بن
کر آتے تھے انہیں بھی کسی نے پوچھا کہ جو دوسروں کو پوچھتے تھے اور شائد
سارے جرم ان سے پوچھ کر ہوتے تھے اور وہ کسی کو بھی زلیل کر دیں انہیں کوی
نہیں پوچھ سکتا اور وہ لوگ ایسا تاثر دیتے ہیں کہ ان کے پیچھے نادیدہ قوتیں
ہیں اور وہ کسی کو بھی ذلیل کرنے کا حق اور اس میں پی ایچ ڈی کیے ہوے ہیں
اور کسی کے عیب پر پردہ ڈالنے کو عیب سمجھتے ہیں اور جب چاہیں کسی میں بھی
پانچوں شرعی عیب گنوا کر اس کے لیے قیامت برپا کر دیں اور قیامت خیز خبریں
دے کر قیامت آنے سےپہلے ہی قیامت لانا اور کسی کی شامت لانا ان کا پرانا
مشغلہ ہے اور جس پر ندامت بھی نہ ہو اور کسی ثبوت کی علامت بھی نہ ہو اور
اصول صحافت بھی نہ ہو
عادل نے نہ صرف ایسے لوگوں سے پوچھا بلکہ کمیٹی کے سامنے جواب دہ بھی
ٹھیرایا
چند لوگ ایسے ضرور ہیں جن کو شوق ہوتا ہے ایسے رویہ کا یا ان کی پیٹھ
ٹھونکی جاتی ہے اور شائد جیب بھی پھونکی جاتی ہے یا ان کو معاوضہ ہی اسی
کام کا ملتا ہو اور ریٹنگ کے ساتھ آمدنی بھی بڑھتی ہو جس پر ہمیں کوی
اعتراض نہیں مگر ذمہ دار اور معتدل لوگوں کی بھی کمی نہیں
خبر دینا اور لوگوں کو آگاہ رکھنا کہ ان کے اطراف میں کیا ہو رہا ہے اس پر
کوی اعتراض نہیں مگر اس میں بارہ کی جگہ سولہ مصالحہ اور نمک مرچ لگا کر
بلکہ ہری مرچیں ڈال کر پیش کرنا اور اس کے پیچھے ہی پڑ جانا کسی صورت اور
کسی سیرت پسندیدہ نہیں بلکہ الٹا نقصاندہ ہے
اس پر ایک واقعہ یاد آیا کسی کا سُنایا ہوا کہ ایک صاحب رپورٹنگ کرتے تھے
اور انہوں نے ایک واقعہ رپورٹ کیا تھا کہ کس طرح ایک ادمی روزانہ سڑک پر
صفای سے دھوکہ دے کر پیسے بناتا تھا اور جب وہ واقعہ اخبار میں آیا تو وہ
ادمی غایب ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ میں اپنے اس کام پر خوش تھا کہ میں
نے کتنا اچھا کام کیا مگر ایک دن دیکھا تو کوی دوسرا ادمی اسی سڑک پر وہی
کام کرتا نظر ایا تو انہوں نے اس سے دوستی کر کے پوچھا کہ یہ تمہیں کس نے
سکھایا تو اس نے کہا کہ میں نے اخبار میں پڑھا تھا وہاں سے سیکھ کر میں نے
بھی شروع کر دیا
اور سوشل میڈیا پر روزانہ کیا کیا قیامتیں برپا ہوتی رہتی ہیں اور کس طرح
عزتیں اُچھالی جاتی ہیں جیسے فُٹ بال کو سب کی باری باری ٹھوکر لگتی ہے اور
ایک غزل منی بیگم کی گای ہوی
ابھی کھا کے ٹھوکر سنبھل ہی نہ پاے
کہ پھر کھای ٹھوکر سمبھلتے سنبھلتے
|