سوشل میڈیا پر ایک بات چل رہی ھے کہ : حمزہ شہباز کو ایک
دفعہ جہاز سے اتارا گیا اور ای سی ایل میں نام کی موجودگی کیوجہ سے لندن
نہیں جانے دیاگیا مگر اب انہیں جانے دیاگیا اور بتایاجارھاھے کہ پیدا
ھونیوالی بچی کس بیوی سے ھے؟ اس بارے ابھی تک کسی کو معلوم نہیں کہ حمزہ
شہباز کی ایک بانجھ بیوی ڈاکٹر رابعہ جو نیو جرسی امریکہ کی ھے اس کو طلاق
دیکر مہرالنساء سےشادی کی اور اس سے بھی جب کوئی اولاد نہیں ھوئی تو پتہ
چلا کہ حمزہ شہباز مرد بانجھ ھے ۔۔ یوں حمزہ شہباز کے دوبارہ ڈاکٹر رابعہ
سےتعلقات استوار ھوئے اور جب میں 2012ءمیں حمزہ شہباز کا سیکرٹری تھا تو
حمزہ شہباز نے والدین کی مرضی سے ڈاکٹر رابعہ سے دوبارہ نکاح کرلیا ۔۔ اب
بچی کی خبر بارے بحث جاری کہ کس بیوی کے بطن سے یہ پیدا ھوئی؟ اور یہ بھی
کہاجارھاھے کہ مبینہ طور پر یہ سٹوری بنائی گئی ھے تاکہ پیدا ھونیوالی بچی
کے علاج کے بہانے حمزہ شہباز وطن واپس نہ آئیں کہ ان پر صاف پانی کمپنی کیس
سمیت دیگر کیسز ہیں اور قبل انکی روانگی کے۔۔ انکے چھوٹے بھائی دلمان شہباز
پہلے ہی لندن میں ہیں اور ترکی کی ڈمی صفائی کمپنی "اوز پاک اور البراک "
جوکہ شہبازشریف کے چھوٹے داماد علی عمران کی ہیں اور وہ آؤٹ فال روڈ پر ان
کمپنی کے مرکزی دفتر میں بیٹھتے رھے ہیں وہ اس کیس میں مطلوب تھے وہ بھی
لندن میں بیٹی کی بیماری کے بہانے موجود ہیں علاوہ اسحاق ڈار بھی بیماری کے
بہانے وھاں موجود ہیں جبکہ کلثوم نواز وفات پا چکی ہیں۔۔ یہ کہ اب آئندہ
نوازشریف جلد علاج کےبہانے لندن چلےجائیں گے اور این آر او سے انکاری کرتے
ھوئے علاج کا جواز بنایا جائیگا کہ انکی میڈیکل ھسٹری لندن کے ڈاکٹرز کے
پاس ھے وہی انکے علاج میں بہترین معاون ثابت ھوسکتے ہیں اسکے بعد (بقول شیخ
رشید) اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بننے
کیخلاف حکومت قومی اسمبلی میں بل پاس کرائے گی اور اسکے بعد شہبازشریف بھی
طبی بنیاد پر ایک ھفتے کیلئے کینسر ٹسٹ کیلئے لندن جا پہنچیں گے اور وھاں
سے شریفس ترکی آکر سکونت اختیار 2023ء تک کریں گے۔۔ اس دوران مریم نواز کی
سیاسی انٹری کیلئے نوازشریف جبکہ حمزہ شہباز کیلئے شہباز شریف زور لگائیں
گے۔۔ اسطرح کے مختلف تبصرے سوشل میڈیا پر گردش میں ہیں اور ایک بحث یہ بھی
جاری ھے کہ عمران خان پنجاب میں اپنی مقبولیت تیزی سے کھو رھے ہیں کہ سانحہ
ساہیوال پر وارثان سے ملاقات اور افسوس ابھی تک نہیں کیا اور ساری قوم
عمران خان کیطرف دیکھ رہی ھے اور عمران خان نے پنجاب کے دارالخلافہ لاھور
کو فوکس نہیں رکھا کہ جو پاکستانی سیاست کا مرکزی گڑھ ھے۔۔ عمران خان کا
عثمان بزدار کےحق میں آئے دن وکالت کرنا کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔۔ انکا
اقتدار میں آتے ہی ناجائز تجاوزات کیخلاف آپریشن کی بھی کسی کوسمجھ نہ آسکی
کہ روایتی طریقہ استعمال کیاگیا حالانکہ اگر پلنٹی ڈال کرریکوری حاصل کی
جاتی تو 5 لاکھ افراد جن میں غریب زیادہ ہیں وہ بیروزگار نہ ھوتے۔۔ دو عدد
منی بجٹ کی آمد نے بھی عمران خان کی مقبولیت کے گراف کو گرایا اور ڈالر
قابو نہ آنے سے مہنگائی کےریلے نے بدظن الگ سے کیا جبکہ فائلر اور نان
فائلر کے چکر نے سب کو پریشان کردیا کہ نان فائلر حضرات یوٹیلٹی بلز سے
لیکر ایک پنسل کی خرید تک ہرشے پر جنرل سیل ٹیکس ادا کرتے ہیں۔۔ پری پیڈ
موبائلز کارڈ پر بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں ان ٹیکسوں کی ادائیگی کو شمار نہ
کرنا زیادتی ھے اور فائلر حضرات کو ترجیح دیکر امتیاز پیدا کرنا بھی قابل
بحث بن گیا۔۔ نان فائلرز گاڑی کی خرید پر زائد ٹیکس دیں گے اور موبائیل
فونز کی قیمتوں میں اضافے نے عام شہریوں بالخصوص طالب علموں کو خاصا پریشان
کردیاھے۔۔ یوں مجموعی تاثر پیدا ھورھاھے کہ عمران خان حقیقت میں سیاستدان
نہیں ھے کیونکہ جس تبدیلی کے نعرے پر وہ اقتدار میں آئے انکے تمام اقدامات
پاکستانی شہریوں کی امنگوں کیخلاف ہیں۔۔ عرب ممالک سعودی عرب، امارات و چین
سے ملنے والی امداد سے بھی عوام کو فی الحال کوئی ریلیف نہیں ملا ۔۔ اب
کراچی سمندر میں تیل کی تلاش کیلئے ڈریلنگ کی جارہی ھے اور خبریں ہیں کہ
کویت سے زائد پیداوار حاصل ھونے کے امکانات ہیں مگر عوام کو کوئی خوشی نہیں
انکے خیال میں سونے کی کانوں سے بھی اگر خزانے بھرجائیں تب بھی عمران خان
عوام کیلئے کچھ نہیں کریں گے کہ یہ بہت جلد پریشان اور پریشر میں آجاتے ہیں۔۔
ق لیگ کی بلیک میلنگ کامیاب قرار دی جارہی ھے اور علیم خان کو کھڈے لائن
دانستہ لگانے پر بحث جاری ھے اور یہ بھی کہ علیم خان ہی وہ شخص تھا جو
لاھور سمیت پنجاب میں تحریک انصاف کو بلدیاتی انتخابات میں برتری دلانے
کیلئے بہترین گراؤنڈ بنا سکتاتھا۔۔ اب اسکو کھڈے لائن لگانے سے تحریک انصاف
کھڈے لائن لگ سکتی ھے اور لاھور میں تحریک انصاف کے تمام پرانے نظریاتی
سرگرم کارکنان گھروں میں بٹھا دیئے گئے ہیں۔۔ گورنر پنجاب، پرویز الہیٰ،
عثمان بزدار، علیم خان کی گروپنگ سے تحریک انصاف کی پنجاب سطح کی تنظیمیں
عملا ڈیڈ لاک کا شکار ھو چکی ہیں۔۔ کارکنان مایوس ھو چکے ہیں۔۔ گروپنگ نے
انکو مایوس کردیاھے اور عمران خان بھی دلچسپی نہیں لے رھے اس وجہ سے سارا
سیاسی فائدہ شریفس بالخصوص شہبازشریف اٹھا سکتے ہیں۔۔۔ تحریک انصاف کو اپنی
پارٹی تنظیم کو فعال کرنے کی اشد ضرورت ھے اور انکے پارٹی دفاتر میں رونق
پیدا کرنیکی ضرورت ھے اسکے بعد ہی یہ بلدیاتی معرکہ جیت سکتے ہیں اور معرکہ
جیتنے کیلئے پارٹی میں گروپنگ کے خاتمے کیساتھ ساتھ عمران خان کو بنی گالہ
سے لاھور آکر خصوصی توجہ دینا ھوگی ورنہ یہ ن لیگ کا دوبارہ قلعہ بن سکتاھے۔۔
سالانہ بجٹ کےبعد تاجران دمادم مست قلندر لاھور سے شٹر ڈاؤن کے ذریعے شروع
کر سکتے ہیں۔۔ عمران خان ابھی تک کامیاب سیاسی میکانزم اور ڈپلومیسی میں
مکمل ناکام نظر آتے ہیں جبکہ میڈیا کے مختلف چینلز میں بیٹھے لفافے اور ن
لیگ کی سوشل میڈیا ٹیمیں تسلسل سے اپنے کام میں مگن ہیں جبکہ پیمرا سویا
ھوا ھے۔۔ اگر یہی حالات رھے اور عمران خان نے توجہ نہ دی اور بنی گالہ
بیٹھے میٹنگز و وزیراعظم ھاؤس میں کیبنٹ اجلاسوں تک محدود رھے تو انہیں جلد
احساس ھو جائیگا کہ پبلک میں تحریک انصاف اپنی ساکھ بہت کمزور کر چکی کہ
عوام کو کچھ ریلیف نہیں مل سکا بلکہ تابڑ توڑ مہنگائی کے حملے ہی مسلسل ملے۔۔
عمران خان کی ٹیم میں چوھدری غلام حسین اور قاضی سعید جیسے عوامی نبض جاننے
والے افراد موجود نہیں ورنہ چھ ماہ میں ہی حکومتی گراف اسقدر نہ گرتا جس
نتیجے میں پبلک " شریفس بارے دوبارہ یہ کہنا شروع ھوچکے ہیں کہ وہ کھاتے
تھے مگر لگاتے بھی تھے کہ اب جب سے عمران خان آیاھے غریوں کیلئے زمین تنگ
ہی کرتا جارھاھے اور پارٹی کارکنان الگ سے ذلیل و خوار ھورھے ہیں
|