وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اقتدارسنبھالنے کے بعدسب
سے پہلے ریاست مدینہ کی خواہش کااظہارکیا، اس گئے گزرے دورمیں کسی حکمران
کی طرف سے ریاست ِ مدینہ کی خواہش کااظہار بذات خودبہت بڑی سعادت ،خوش
نصیبی،قابل تعریف وتحسین اوراعزازکی بات ہے ۔مگرکسی بھی ملک کا نظام حکومت
چلانے کے لئے حکمران (سربراہ مملکت )کے نیک نیت اورمخلص ہونے کے علاوہ
انتظامی معاملات میں اُس کے معاونین (وزیروں)کی قابلیت واہلیت اورکردارسب
سے اہم اوربنیادی حیثیت رکھتاہے۔ریاست ِمدینہ کاہرمعاون قابل ِ تقلیداور
ایسا روشن ستارہ کہ رہتی دُنیا تک ان میں سے ہرایک سے راہنمائی حاصل کی
جاسکے۔ خلیفہ دوئم حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے عہدخلافت میں حضرت
عمیربن سعدرضی اﷲ تعالیٰ عنہ حمص کے گورنریعنی معاونین ِریاست مدینہ میں سے
ایک تھے۔ذیل میں ان کاواقعہ اس لئے نقل کیا جارہا ہے،کہ ریاست مدینہ کے
خواہشمندحکمران اپنے معاونین کے باب میں اس سے راہنمائی حاصل کرسکیں۔
حضرت عمیربن سعدرضی اﷲ عنہ کو،خلیفہ دوئم حضرت عمرفاروقؓ کے زمانہ خلافت
میں،حمص کے علاقہ میں ایک سال کاعرصہ گزرگیا مگر انہوں نے امیرالمومنین
حضرت عمررضی اﷲ عنہ کونہ کوئی خط لکھا اورنہ مسلمانوں کے بیت المال میں
کوئی درہم دیناربھیجا۔حضرت عمر ؓ کے دل میں خیال آیااوران کے متعلق شک گزرا
چناچہ آپ ؓ نے حضرت عمیربن سعدرضی اﷲ عنہ کولکھ بھیجاکہ"جب میرا یہ مکتوب
تمہارے پاس پہنچے توفوراََ میرے پاس چلے آنا اورمسلمانوں کامال فئی(بغیرجنگ
کے حاصل ہونے والامال ِ غنیمت)بھی ساتھ لیتے آنا۔" حضرت عمیربن سعدرضی اﷲ
عنہ نے خط لپیٹااورایک تھیلا لیا،اس میں اپنا زاد ِ راہ ڈالا،ایک پیالہ
لیا،وضوکا برتن ساتھ لیا اوراپنے ہاتھ میں اپنا نیزہ پکڑااورپیدل چلتے ہوئے
مدینہ طیبہ پہنچے۔حضرت عمرفاروق ؓ کی خدمت میں پہنچے تو یہ حال تھا کہ رنگ
بدلا ہوا، جسم لاغراورکمزور،سرکے بال پراگندہ اورسفرکی مشقت کے
آثارنمایاں۔حضرت عمرؓ نے دیکھاتوپوچھایہ تیری کیا حالت بنی ہوئی ہے؟حضرت
عمیرؓ نے جواب دیاآپ میری کیا حالت دیکھتے ہیں؟کیا آپ ؓ مجھے تندرست بدن
اورصاف ستھرانہیں دیکھ رہے؟ میرے پاس دُنیا کی دولت ہے جس کی گرانباری تلے
دبا جارہاہوں۔
حضرت عمرؓ نے پوچھا اپنے ساتھ کیا لائے ہو؟حضرت عمرؓ نے سمجھاکہ حضرت عمیرؓ
اپنے ساتھ مال لائے ہوں گے۔حضرت عمیرؓ نے جواب دیاکہ میرے پاس ایک تھیلا ہے
جس میں اپنا زاد ِ راہ ڈالتاہوں اوروضوکرنے اورپینے کے لئے ایک مشکیزہ ہے
اوریہ میرانیزہ ہے اوراس پرٹیک لگاتاہوں اوراگردُشمن کے ساتھ مقابلہ ہوجائے
تواس کے ذریعہ لڑتاہوں۔خداکی قسم!دنیامیرے سامان کے تابع ہے(یعنی میرے پاس
بس یہی کچھ ہے)۔
حضرت عمرؓ نے پوچھا ،کیاتم پیدل چل کرآئے ہو؟انہوں نے کہاکہ ہاں۔حضرت عمرؓ
نے پوچھاکیاوہاں کوئی ایسا آدمی نہیں تھاجوتجھے سواری کے لئے کوئی جانوردے
دیتا؟ انہوں نے کہاکہ ان لوگوں نے ایساکیااورنہ میں نے ان سے سواری کے لیے
کوئی جانورمانگا۔حضرت عمرؓ نے کہاکہ جن لوگوں کے پاس سے تم آئے ہووہ برے
مسلمان ہیں؟حضرت عمیرؓ نے کہاکہ اے عمرؓ اﷲ سے ڈرو!اﷲ تعالیٰ نے غیبت سے
منع کیا ہے۔حضرت عمرؓ نے پوچھابیت المال کے لیے جومال لائے ہووہ کہاں
ہے؟حضرت عمیرؓ نے کہامیں توکچھ بھی نہیں لایا۔حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ
کیوں؟حضرت عمیرؓ نے کہاکہ جب آپؓ نے مجھے وہاں بھیجا تومیں نے اس شہرمیں
پہنچ کروہاں کے نیک لوگوں کو جمع کیا اوران کومال فئی جمع کرنے کاذمہ
داربنا دیا،یہاں تک کہ جب انہوں نے مال جمع کرلیاتومیں نے وہ مال اس کی جگہ
پررکھ دیا(یعنی ضرورت مندوں میں صرف کردیا)اگرآپ ؓ اس سلسلہ میں سے لیتے
ہیں تومیں آپ کولا دوں گا۔حضرت عمرؓ نے اپنے کاتب (سیکڑی ) سے کہاکہ عمیرؓ
کے لیے عہدہ کی تجدیدکرو(یعنی ان کودوبارہ عہدہ سنبھالنے کوکہا)حضرت عمیرؓ
کہنے لگے،نہیں نہیں،میں اس چیزکاطالب نہیں ہوں۔ اے امیرالمومنین نہ آپ ؓ کے
لیے کام کروں گا اورنہ آپ ؓ کے بعدکسی کا کام کروں گا۔اس کے بعد حضرت عمیر
ؓ نے گھرجانے کی اجازت چاہی،آپ کاگھرمدینہ کے آس پاس ہی تھا۔
حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے عمیررضی اﷲ عنہ کاامتحان لینا چاہا۔چناچہ حضرت عمرؓ
نے ان کی طرف ایک آدمی"حارث"بھیجا۔ حارث کوفرمایاکہ تم عمیرؓ کے
گھربطورمہمان قیام کرو۔اگرعمیررضی اﷲ عنہ کوناز ونعمت میں دیکھوتوواپس چلے
آنا(اورمجھے بتانا)اوراگراس کوتنگ حالی میں پاؤتویہ سودینااس کودے دینا۔
حضرت عمرؓنے حارث کوسودینارکی ایک تھیلی دے دی۔حارث نے حضرت عمیر ؓ کے
گھرتین روزتک بطور مہمان قیام کیا،اس دوران حضرت عمیرؓ ہرروزجوکاایک
ٹکڑانکالتے تھے۔جب تیسرادن ہوا توحارث سے کہنے لگے تم نے توہمیں
بھوکاماردیا۔اگرتم یہاں سے جاسکتے ہوتوچلے جاؤ۔اس وقت حارث نے دینارنکالے
اوران کے سامنے رکھ دیئے۔حضرت عمیرؓ نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟حارث نے کہا کہ
امیرالمومنین نے آپ ؓ کے لیے بھیجے ہیں۔حضرت عمیر ؓ نے کہا کہ یہ دینار ان
کوواپس کردو ان کومیرا سلام کہنااورعرض کرناکہ عمیرکواس کی ضرورت نہیں۔
حضرت عمیر ؓ کی بیوی ان دونوں کی گفتگوسن رہی تھی۔ اس نے پکار کرکہااے عمیر
ؓ یہ دینارلے لو۔اگرآپ کو ان کی ضرورت ہوئی توخودخرچ کرلینا وگرنہ ان
دیناروں کوان کی جگہ میں رکھ دینا۔یہاں ضرورت مندوں کی کثیرتعداد
موجودہے۔جب حارث نے عمیرؓ کی بیوی کی بات سنی تووہ دینارحضرت عمیر ؓ کے
سامنے پھینکے اورخودچلے آئے۔
حضرت عمیر ؓ نے وہ دینار لیے اور ان کو چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں ڈال
دیااوراس وقت تک نہ سوئے جب تک وہ تھلیاں ضرورت مندوں میں تقسیم نہ کردیں
اورشہداء کی اولاد کواس میں خصوصی طورپردیا۔حارث واپس مدینہ آئے توحضرت عمرؓ
نے ان سے پوچھا۔ اے حارث!تونے کیا دیکھا؟حارث نے بتایاکہ اے
امیرالمومنین!میں نے ان کو بڑی تنگ حالی میں دیکھا۔ آپ ؓ نے پوچھاتوپھرکیا
ان کودینار دے دیئے؟ حارث نے کہا جی ہاں اے امیرالمومنین!حضرت عمرؓ نے
پوچھا،اس نے ان دیناروں کا کیا کیا؟یہ تومجھے معلوم نہیں،باقی میرانہیں
خیال کہ وہ اپنے لیے ایک درہم بھی رکھیں گے۔ حضرت عمرؓ نے عمیربن سعدرضی اﷲ
عنہ کوخط لکھاکہ جونہی میرایہ خط پہنچے توفوراََمیرے پاس چلے آنا۔ جب مکتوب
گرامی پہنچا توحضرت عمیرؓنے مدینہ کے لیے رخت سفرباندھا۔مدینہ پہنچ
کرامیرالمومنین ؓ کی خدمت میں حاضرہوئے۔
حضرت عمر ؓ نے ان کاپرتپاک استقبال کیا۔ان کومرحبا کہا اوراپنے ساتھ
بٹھایا۔پھرپوچھا اے عمیرؓ ان دیناروں کا آپ نے کیا کیا؟ عمیرؓنے جواب دیا
میں نے جوکرنا تھا کیا،آپ ؓ کیوں سوال کرتے ہیں؟حضرت عمرؓ نے کہامیں تجھے
قسم دے کرپوچھتا ہوں،بتاؤ تونے ان دیناروں کا کیا کیا؟ حضرت عمیرؓ نے جواب
دیاکہ میں نے ان کواپنے لیے ذخیرہ کرلیاتاکہ میں ان سے اس دن انتفاع کروں
جس دن نہ مال نفع دے گا نہ اولاد۔(یہ سنتے ہی)حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں
آنسوبھرآئے۔آپ ؓ نے فرمایا،اﷲ تجھ پررحم کرے،پھرحضرت عمیرؓ کے لیے غلے اور
دوکپڑوں کاحکم دیا۔حضرت عمیرؓ نے کہااے امیرالمومنین!غلہ کی تومجھے ضرورت
نہیں،کیونکہ میں اپنے گھرمیں دوصاع جوکے چھوڑآیا ہوں، فراخی رزق تک ہم اس
کوکھاتے رہیں گے ۔ہاں البتہ یہ کپڑے لے لیتا ہوں،کیونکہ فلاں کی ماں(مرادان
کی بیوی)کے کپڑے کافی پرانے اور بوسیدہ ہوگئے ہیں کہ اس کے برہنہ ہونے کا
خطرہ ہے۔
کچھ عرصہ کے بعدجب حضرت عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوگیاتوحضرت عمر
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کوان کی وفات پربے حدرنج وغم ہوا۔اظہار ِ حسرت کرتے ہوئے
فرمایا:کاش!میرے پاس عمیر بن سعدؓ جیسے آدمی ہوتے میں ان سے مسلمانوں کے
انتظامی معاملات میں معاونت لیتا۔ کالم کے آخرمیں ایک بارپھرسے صرف اتنا
عرض کرنا ہے کہ اس گئے گزرے دورمیں کسی حکمران کی طرف سے ریاست ِ مدینہ کی
خواہش کااظہار بذات خودبہت بڑی سعادت ،خوش نصیبی،قابل تعریف وتحسین
اوراعزازکی بات ہے ۔مگرکسی بھی ملک کا نظام حکومت چلانے کے لئے حکمران (سربراہ
مملکت )کے نیک نیت اورمخلص ہونے کے علاوہ انتظامی معاملات میں اُس کے
معاونین (وزیروں)کی قابلیت واہلیت اورکردارسب سے اہم اوربنیادی حیثیت
رکھتاہے۔
خواہش ِ ریاست ِ مدینہ اپنی جگہ معتبر
مگر وہ حسرت ِ عمرؓ کا کیا کیجئے ! |