کھربوں ڈالر کا غم لیکن لاکھوں عراقی معصوم مسلمانوں کی ہلاکت کوئی معنی نہیں۰۰۰

سابقہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے جس طرح اپنی انٹیلی جنس کی رپورٹ کو صداقت پر مبنی مان کر عراق کے مردآہن صدر صدام حسین کو اقتدار سے بے دخل اور عراق کو تباہ و برباد کرنے کیلئے خطرناک فضائی حملے کئے اور اتحادی فوجیوں کو عراق میں اتارا ،یہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔آج 15 سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے بعدبھی عراق کے حالات سنبھل نہ پائے، معیشت بُری طرح متاثر ہوچکی اور لاکھوں انسانوں کا قتلِ عام ہوا۔ دشمنانِ اسلام کو انکے ناپاک عزائم میں کامیابی حاصل ہوئی یا نہیں یہ الگ بحث ہے ۔ اسلام دشمن موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی یہ تسلیم کیا کہ امریکہ نے عراق میں فوجی مداخلت کرکے سخت غلطی کی تھی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر امریکہ ٹرمپ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ امریکی انٹیلی جنس نے اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش کو عراقی صدر صدام حسین کے بارے میں غلط انٹیلی جنس رپورٹ فراہم کی کہ ان کے پاس ایٹم بم اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ تھا جو تمام کا تمام غلط ثابت ہوا۔ روزنامہ پاکستان کے مطابق صدر ٹرمپ نے سی پی ایس ٹیلی ویژن کو دیئے گئے ایک انٹرویو کے دوران یہ سنسنی خیز انکشافات کئے ۔ انہوں نے امریکی انٹیلی جنس عہدیداروں پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کو ذرا فکر اور پرواہ نہیں ہے کہ ان کی غیر معتبر اطلاعات کے ذریعہ امریکہ کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے، انکا کہنا تھا کہ غلط اطلاعات پر انحصار کرکے امریکہ نے اس خطے میں فوجی مداخلت کی جس کی وجہ سے امریکہ کو اب تک 70کھرب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے اور ہزاروں امریکی فوجی اور سویلین جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے کھربوں ڈالر کا نقصان اور امریکی سپاہیوں کی ہلاکت کا غم توہے لیکن انہیں ان معصوم اور بے قصور عراقی شہریوں کی ہلاکت اور عراق کے تباہ و برباد کئے جانے پر کسی قسم کا رنج و ملال نہیں۔ درندہ صفت امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور برطانوی درندہ صفت وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے دیگر اتحادی ممالک کے ساتھ ملکر جس طرح خطرناک فضائی حملے کرکے چندلمحوں اور گھنٹوں میں عراق کو تباہ و برباد کردیااسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ مردآہن کہلانے والے عراقی صدر صدام حسین جس نے دشمنانِ اسلام کے سامنے سرنگوں ہونے کو ترجیح نہیں دی اور اسلامی پرچم کو سربلندی عطا کرنے کیلئے آخری وقت تک بھی اپنی جبیں پر شکن آنے نہیں دیا ۔ جس وقت انہیں سزائے موت دی جارہی تھی وہ کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنی جانِ آفریں کو خدائے بزرگ و برتر کے سپرد کردی۔ صدام حسین کے چاہنے والوں نے تو اس عظیم مردِ مجاہدکی موت پر سبحان اﷲ ،الحمد ﷲ ،ماشاء اﷲ کی صدائیں اور اناﷲ و انا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے اپنے غمزدہ دلوں کو سہارا دیا وہیں دشمنانِ اسلام کی خوشیاں اُس وقت ماند پڑگئیں جب 30 ؍ڈسمبر عید الاضحی کو صدام حسین نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے پھانسی کا پھندا پہنا اور کلمہ طیبہ پڑھ کر موت کو گلے لگایا ۔ صدام حسین کے اس آخری عمل سے انکے چاہنے والوں میں مزید اسلامی جذبہ پیدا ہوااور اس سے صدام حسین کی حقیقت واضح ہوئی۔ امریکی انٹیلی جنس کی غلط رپورٹ نے جہاں عراق کو تباہ و تاراج کیا اور لاکھوں عراقی عوام کی جان لی وہیں عراق کی تاریخ کو ملیامیٹ کرنے کی کوشش کی ۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ صدام حسین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے دشمنانِ اسلام کی آنکھوں میں کانٹے بن کر چبنے لگے ، انہیں محسوس ہونے لگا کہ اگر صدام حسین کی طاقت میں مزید اضافہ ہوگا تو وہ مشرقِ وسطی میں ایک طاقتور حکمراں کی حیثیت حاصل کرلینگے اور ان دشمنانِ اسلام کو عرب ممالک سے ملنے والاتیل بند ہوجائے گا۔ 2003میں امریکہ اور اتحادی ممالک نے عراق میں جملہ 177,194فوجیوں کو بھیجا جس میں امریکی ریاستوں کے 130,000، برطانیہ کے 45,000، آسٹریلیا کے 2000اور پولش کے 194سپاہیوں کے علاوہ 36دیگر اتحادی ممالک کے فوجی شامل تھے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس جنگ کے ابتدائی تین چار سال کے درمیان 600,000افراد امریکہ اور اتحادی ممالک کی کارروائیوں میں ہلاک ہوئے اور زخمیوں کا اندازہ کرنا محال ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے عراق میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا آغاز ، سنیوں اور شیعہ کے درمیان قتل و غارت گیری میں اضافہ ہوااور لاکھوں عراقی شہری بے گھر ہوگئے۔ صدام حسین نے اپنے دور اقتدار میں تعلیم کو عام کرنے کے علاوہ صحت و تندرستی پر خصوصی توجہ دی تھی ۔ ایک اچھے حکمراں کی پہچان یہی ہے کہ ملک میں تعلیم کو عام کیا جائے اور صحت و تندرستی پر خصوصی توجہ دی جائے، جو صدام حسین کے دورِ اقتدار میں قائم تھا۔ آج بھی عراق کے حالات خراب ہیں ، امریکہ اپنی اس ناکام جنگ کے ان انٹیلی جنس عہدیداروں کو سزا دینے کا اعلان کرے جنہوں نے عراقی صدرصدام حسین اور عراق پر الزامات عائد کرکے امریکہ کے کھربو ں ڈالر کا نقصان کیا، عراق کی معیشت کو تباہ و برباد ہی نہیں بلکہ لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنے۔ شاید ہم امریکہ سے ایسی امید نہیں کرسکتے کیونکہ عراق اور افغانستان کی جنگ نے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی معیشت کو مستحکم کیا ہے اور مستقبل میں بھی یہ سلسلہ شاید جاری رہے گا اور مسلمان دشمنانِ اسلام کی سازشوں کا شکار ہوتے رہینگے۔۔؟

پوپ فرانسس متحدہ عرب امارات میں
غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کے اخلاق و کردار اور دیگر مذاہب کے حکمرانوں کے ساتھ مسلم حکمرانوں کا رویہ ابتداء اسلام سے مثالی رہا ہے ۔گذشتہ دنوں اسی طرح کی ایک مثال متحدہ عرب امارات میں قائم کی گئی۔ابو ظہبی کے ولیعہد شہزادہ محمد بن زید النیہان کی دعوت پر مسیحی فرقہ رومن کیتھولک کے پیشوا پوپ فرانسس نے متحدہ عرب امارات کا سہ روزہ دورہ کیا۔ اس دورہ کے موقع پر انہوں نے ایک بین المذاہب کانفرنس میں شرکت کی اور اپنے دورہ کے آخری دن مسیحوں اور مسلمانوں کی ایک مشترکہ دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔ یہ دعائیہ تقریب ابو ظہبی کے زید اسپورٹس سٹی اسٹیڈیم میں منعقد کی گئی تھی جس میں پوپ فرانسس کو دیکھنے کیلئے زائد از سوا لاکھ مسیحوں نے شرکت کی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق جزیرہ نما عرب میں رومن کیتھولک فرقے کے کسی بھی روحانی پیشوا کا یہ پہلا دورہ تھا ۔پوپ فرانسس نے دعائیہ اجتماع میں یمن میں جاری جنگ سمیت دیگر تشدد آمیز سرگرمیوں کو ختم کرنے کی دعا کی ۔ انہوں نے مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں سے کہا کہ وہ مقامی مسیحوق کو اپنے برابر کے شہری کے طور پر قبول کریں۔انہوں نے متحدہ عرب امارات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ سرزمین بھائی چارے اور مختلف تہذیبوں اور شہریتوں کے لوگوں کے ملاپ کی جگہ ہے جو مثالی حیثیت رکھتی ہے۔ یمن کی خانہ جنگی سے متعلق پوپ فرانسس نے کہا کہ یمن میں لوگ طویل لڑائی سے تھک چکے ہیں اور بچے بھوک کا شکار ہیں انہیں خوراک تک رسائی نہیں ہے ان کا کہنا تھا کہ ان بچوں اور انکے والدین کی آہیں خدا تک پہنچ رہی ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یمن کی خانہ جنگی میں یمنی صدر عبدربہ منصور ہادی کی حمایت میں سعودی عرب کی قیادت میں متحدہ عرب امارات بھی شامل ہے ۔ پوپ فرانسس اپنے دورہ متحدہ عرب امارات کے موقع پر جامعہ الازہر ،قاہرہ کے عالم دین شیخ احمد الطیب سے ملاقات کی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق متحدہ عرب امارات میں تقریباً 13فیصد مسیحی فرقہ کے افراد رہتے ہیں ، ابو ظہبی میں منعقد ہونے والے اس بین المذاہبی کانفرنس میں مسلم ممالک سے چار ہزار وفود سمیت تقریباً سو مسیحی وفود نے بھی شرکت کی۔ عرب امارات میں جس طرح پوپ فرانسس کا استقبال کیا گیا اور انہیں جس طرح خراج تحسین پیش کیا گیا اس سے مسلمانوں کا مسیحی فرقہ کے ساتھ بہتر روابط ظاہر ہوتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ اس کا اثر دیگر مسیحی اور یہودیوں پر کس طرح پڑتے ہیں۔

سعودی خواتین پر سرپرستی کے اثرات
سعودی عرب میں جہاں ویژن 2030کے تحت خواتین کو کئی ایک شعبہ ہائے حیات میں خدمات انجام دینے کیلئے مواقع فراہم کئے جارہے ہیں وہیں خواتین پر بعض گھروں میں انکے والد، بھائی یا شوہر کی جانب سے سرپرستی کے نام پر تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ ماہ ایک 18 سالہ خاتون رہف محمد القنون کی تھائی لینڈ کی پرواز سے روانگی عمل میں آئی اور اب وہ کینیڈا میں پناہ حاصل کرلی ہیں۔ واضح رہے کہ سعودی عرب میں خواتین کو شناختی کارڈ، شادی کرنے، پاسپورٹ حاصل کرنے اور بیرون ملک سفر کرنے کیلئے ایک مرد یعنی والد، بھائی ، شوہر یا بیٹا ہونا ضروری ہے۔ سعودی عرب میں کئی خواتین ان دنوں سعودی عرب اور بیرون سعودی عرب مختلف یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ انہیں گھریلوسختیوں سے نجات دی جائے ان میں سے چند ایک خواتین و لڑکیاں مغربی ویوروپی ماحول کوپسند کرتی ہیں اور وہ اسی طرح کی آزادی بھی چاہتی ہیں۔اس سلسلہ میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ماحول سے سعودی خواتین اپنے آپ کو دوسرے درجہ کے شہری سمجھتے ہیں اورساتھ ہی سماجی اور اقتصادی آزادیوں سے محروم رکھنا انہیں تشدد سے زیادہ کمزور بناتا ہے۔ سعودی عرب سے شائع ہونے والا انگریزی روزنانہ سعودی گزٹ کے مطابق سعودی پبلک پراسیکیوٹر سعود الموجب کا کہنا ہے کہ ان کا دفتر 'ان افراد، آیا خواتین، بچے یا والدین ہوں، ان کے تحفظ میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا جن کے ساتھ سرپرستی اختیار کا غلط استعمال کرتے ہوئے غیر منصفانہ سلوک کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کا دفتر بہت کم تعداد میں سرپرستی سے متعلق شکایات موصول کرتا ہے اور یہ بغیر تفصیلات کے ہوتی ہیں۔بعض سرگرم کارکنان کا کہنا ہے کہ متعدد سعودی خواتین ڈرتی ہیں کہ بدسلوکی کے بارے میں پولیس کو رپورٹ کرنا ان کی زندگی کو مزید خطرے میں ڈال دے گا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ سرپرستی کو ختم ہونا چاہیے۔ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی جانب سے کچھ آزادیاں دی گئی ہیں جو مشروط ہیں کیونکہ بعض گوشوں سے اختلاف ہوا ہے۔محمد بن سلمان نے گزشتہ برس اس بات کا اشارہ کیا تھا کہ وہ سرپرستی نظام کے خاتمے کی حامی ہیں لیکن وہ اس کی منسوخی سے رک گئے تھے۔اب دیکھنا ہے کہ جو خواتین دھوکہ دے کر سعودی عرب سے باہر گئیں ہیں انکے ساتھ کس قسم کا معاملہ کیا جاتا ہے اور عالمی سطح پر اس کے اثرات کیا پڑتے ہیں۔

سعودی عرب نے اپنا پہلا مواصلاتی سیارہ خلا میں بھیجا
سعودی ولیعہد شہزادہ محمد سلمان اپنے ویژن 2030کے تحت مملکت کو مختلف جہت سے ترقی دینا چاہتے ہیں جہاں انہوں نے خواتین کے لئے کئی ایک مواقع فراہم کئے ہیں وہیں دیگر شعبہ حیات میں بھی مرد و خواتین کی صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے ملک کی ترقی کیلئے پہل کررہے ہیں۔ اسی سلسلہ میں سعودی عرب نے اپنا پہلا مواصلاتی مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی مصنوعی سیارے کے آخری پرزے میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دستخط ثبت ہیں۔ تفصیلات کے مطابق کنگ عبد العزیز سٹی برائے سائنس وٹیکنالوجی نے کہا ہے کہ منگل اورچہارشنبہ کی درمیانی شب پہلا مواصلاتی مصنوعی سیارہSGA-1 خلا میں کامیابی کے ساتھ بھیجا گیا۔ یہ جوایانا ایئر بیس سے خلامیں چھوڑا گیا۔یاد رہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دورہ امریکہ کے دوران سعودی مصنوعی سیارے کے آخری پرزے پر دستخط ثبت کرتے ہوئے لکھاتھا’’بادلوں سے اونچی اڑان‘‘۔سعودی مصنوعی سیارہ آئندہ 20سال تک کام کرے گا۔ اس سے کمیونیکشن میں بڑی تبدیلی واقع ہوگی۔
***

Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 208707 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.