ریاست میں پاک فوج پر اعتماد ویقین کی کوئی ایک جہت
نہیں۔ شہری علاقے ہوں یا کنٹرول لائن کیساتھ بسنے والے کشمیری ،ہر جگہ پاک
فوج کا جذبہ ایثار و قربانی خود بولتا ہے۔ اگلے علاقوں میں بسنے والے لوگ
پاک فوج کے شانہ بشانہ رہتے ہیں ۔کسی بھی سیکٹر کو لیں وہاں پاک فوج اور
عوام میں میل جول نظر آتا ہے۔اعتماد و یقین کی فضا محسوس ہوئے بغیرمہیں رہا
جاسکتا۔یہ بات لائق تحسین ہے کہ ملکی نظریاتی سرحدوں کی محافظ ’’مسلح افواج
پاکستان‘‘ایسی ہر سرگرمی کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ،جنکا مقصد قومی سوچ و
فکر اور نظریہ کو اُجاگر کر نا ،رحجان دینے کی راہیں کھولنا ہو ۔آزادکشمیر
میں باشندگان ریاست کی سبز ہلالی پرچم سے عقیدت و محبت کی انتہاؤں کا قومی
سطع پر ادراک کیا جاتا ہے ،جو کہ ’’پاکستان کیلئے پلس پوائنٹ‘‘ ہے ۔ مُحب
وطن اور سنجیدہ حلقوں کا دعوی ٰ ہے ۔جب تک ریاست کی سیاسی قیادت حقیقی قومی
قیادت کی شکل میں سرگرم نہیں ہوگی۔پاکستان اور پاک فوج کے حوالے سے خوش کن
جذبات کا اظہار ہوتا تو رہیگا۔فوج سے توقعات بھی رہیں گی۔مگرویسی کیفیت
نہیں پیدا ہوگی ۔جس سے مقبوضہ کشمیرکی تحریک مزاحمت سے سچی وابستگی ظاہر
ہو۔اورنظریہ الحا ق پاکستان کوتقویت مل سکے۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ اِس بے
حسی کی وجہ آزادکشمیر میں مفاد پرستی کی سیاست کا پروان چڑھنا ہے ۔جس نے
خطہ کے باشندوں کو تحریک مزاحمت سے عملی طور پر لاتعلق سا بنا کررکھ دیا ۔قومی
،ریاستی اہمیت کے تہواروں اور کسی ہنگامی یوم احتجاج کے اعلان کے بعد
سرکاری ملازمین کو صرف چھٹیوں میں اضافہ کی خوشخبری ضرور ملتی رہی ۔مگر
ایسا نہیں ہوا ،کہ سرکاری ملازمین کسی قومی ،ریاستی تہوار کی ’’چھٹی‘‘سے
آگے سوچ سمجھ پائے ہوں ۔سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ آزادکشمیر ،تحریک آزادی
کا بیس کیمپ ہے ۔اس لئے آزادحکومت کے سرپر ’’تحریک مزاحمت‘‘کے حوالے سے
بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔اگر آزادحکومت صرف ریاست کے 81000ملازمین
ریاست سے اپنی خدمات کا معاوضہ لیتے ہیں۔اُنھیں بیس کیمپ سے مقبوضہ جموں و
کشمیر کی تحریک مزاحمت کی تقویت کیلئے سرگرمیوں کا حصہ بنانے سے گریز ’’نہ
خدا ملا نہ وصال صنم ‘‘کے مصداق صورتحال سے دوچار نہ کردے۔اس لئے پاکستان
کی جانب سے نا صرف گڈ گورننس کی بہترین شکل ظاہر کی جانی ہوگی۔بلکہ وزارت
اُمور کشمیر /کشمیر کونسل کو سیاستدانوں کی پیدا ئش و پرورش اور انتخابی
سیاست کے فیوض و برکات سے قطعی نظر ’’قومی غیرت‘‘کے ناقابل تردید ثبوت پیش
کرنے ہونگے۔تاکہ بہترین اور دُورس اثرات کے حامل کردار کیساتھ ’’قومی ،ریاستی
اہمیت کے تہواروں ‘‘پر حکومت مقبوضہ کشمیر کے غیور بھائیوں ،بہنوں ،بیٹیوں
تک ایک اثر دار اور سنجیدہ پیغام یک جہتی پہنچ سکے۔ابھی تک تو صورتحال یہ
ہے کہ پاک فوج کی فارمیشنز،مختلف سیکٹرزمیں دفاع کا فریضہ انجام دینے والی
انفنٹری ،میڈیکل بٹالینزاور مقامی لوگوں کے اشتراک و تعاون سے متعدد
سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے۔پاک آرمی کے سگنلز کور سے تخلیق کئے
گئے ’’سپیشل کیمونیکشن آرگنائزیشنSCO‘‘اور آرمی میڈیکل کور عسکری قیادت کی
خواہش و ہدایات پرریاست میں شہریوں کو مختلف جہت سے ’’آسانیاں‘‘مہیا کرنے
کی سرتوڑ کوششیں جاری رکھی ہیں۔ کمبائنڈ ملٹری ہاسپٹل مظفرآباد کی مثال
موجود ہے۔جس کی کمان نے قومی /ریاستی دنوں پر چھٹی انجوائے کرنے کے بجائے
بامقصد سرگرمیوں کو رواج دیدیا ہے۔
شیخ زید ہسپتال سی ایم ایچ مظفرآبادکے حوالے سے باور کیا جاتا ہے کہ یہ
ادارہ ’’پاک فوج‘‘کا چہرہ ہے۔جہاں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں مرد و زن اپنے
علاوج و معالجہ کے سلسلے میں آتے ہیں۔اور جنہیں ہرممکن طبی سروسز فراہم
کرنے کی کوشش کیجاتی ہے۔بہتری کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے ،اور سی ایم
ایچ میں اُمور میں بہتر سے بہترین کی خاطر اقدامات کا سلسلہ جاری رکھا جاتا
ہے۔چیک اینڈ بیلنس ،پاک فوج کا طرہ امتیاز ہے۔چنانچہ برگیڈئیرعہدہ کے اعلیٰ
افسر کمانڈنٹ متعین کئے جاتے ہیں ۔جنہیں ہمہ وقت پاک فوج پر شہریوں کے
اعتمادویقین کو ملحوظ کاطر رکھتے ہوئے ’’انتھک‘‘کوششوں و کاوشوں کا سلسلہ
جاری رکھنا ہوتا ہے۔اور پیشہ وارانہ خدمات میں کمی کوتاہی نظر انداز نہ
کرنے کی روایت ہے۔جبکہ شہریوں کی بہتر طبی خدمات یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ
اہم ریاستی و قومی’’دنوں‘‘پر سرگرمیوں میں بھی پُرجوش شرکت کی روایت قائم
کی گئی ہے۔اس سلسلے میں تین سال سے اہم قومی دنوں کے موقع پریوم آزادی ،یوم
یکجہتی سمیت دیگر دنوں کی مناسبت سے سرگرمیاں کی جارہی ہیں ۔جن میں یوم
آزادی پر کیک کاٹنا،ریلی کا شہر کا چکر لگانا اور ان ڈور’’ تجدید عزم وفا‘‘
وطن عزیزکا اظہار شامل ہے۔اپنے کشمیری بھائیوں ،بہنوں ،بزرگوں ،بچوں کے
جذبوں ،قربانیوں اور مقصد سے ’’اظہار یکجہتی‘‘کرتے ہوئے پاک فوج کے آرمی
میڈیکل کور کے جوان ،افسران خون کے عطیات دے رہے ہیں۔ شیخ زیدہسپتال سی ایم
ایچ کی’’قومی سرگرمیوں‘‘میں شمولیت کا آغاز تین سال پہلے (اُسوقت
کے)کمانڈنٹ برگیڈئیر چوہدری فیاض محمود (ستارہ امتیاز ملٹری)اوراُسوقت کے
ڈپٹی کمانڈنٹ کرنل عابدحسین (بعد ازاں برگیڈئیر)نے کیا۔ اُنھوں نے شیخ زید
ہسپتال سی ایم ایچ میں خدمات انجام دینے والے سینکڑوں ملازمین محکمہ صحت کی
قومی سرگرمیوں میں شمولیت کی ترغیب دی ، حوصلہ افزائی کی ،اور اپنے ہمراہ
ادارہ میں سول ملازمین کو لیڈ کرنیوالے ڈپٹی میڈیکل سپرٹنڈنٹ ڈاکٹر نعمان
منظور بٹ کی قیادت میں شیخ زید ہسپتال سی ایم ایچ مظفرآباد سے ’’عزم الحاق
پاکستان ریلی‘‘ نکالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جبکہ ریلی کے آغازسے پہلے ادارہ
کے کمانڈنٹ( اعلیٰ عسکری شخصیت)کی طرف سے حوصلہ افزائی کیلئے دعائیہ کلمات
کیساتھ کیک کاٹاجانے لگا ہے۔پھرکمانڈنٹ سول ملازمین کی ریلی کو رخصت کرتے
ہیں۔ موجودہ کمانڈنٹ برگیڈئیرحسن اقبال /ڈپٹی کماندنٹ کرنل ذوالفقار علی
خان نے بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کی ہے ۔اس بار’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘پر
حسب سابق بلڈ ڈونیشن کیمپ لگایا گیا۔جسکا آغاز کمانڈنٹ برگیڈئیرحسن اقبال
کی موجودگی میں کرنل ذوالفقار علی خان ، کیپٹن مزمل حسین ،کیپٹن حارث نے
خون دیکر کیا۔جسکے بعددیگر فوجی افسران کیپٹن سعد ،کیپٹن آصف ،لیفٹیننٹ
کرنل تیمور،لیفٹیننٹ کرنل رشید سمیت بیسیوں فوجی جوانوں نے کشمیریوں سے
اظہار یکجہتی کرتے ہوئے خون کے عطیات دئیے۔تین سال قبل قائم ہونیوالے بلڈ
ڈونیشن کیمپ میں یہ پہلا موقع نہیں ۔جب پاک فوج کے افسران نے روایات
کیمطابق سب سے پہلے آگے بڑھتے ہوئے خون کے عطیات دئیے ۔جسکے بعد جوانوں نے
بھی خون دیا۔البتہ ڈپٹی کمانڈنٹ ڈاکٹر نعمان منظور بٹ اور ڈاکٹرسید سہیل
کاظمی نے سینکڑوں سرکاری ڈاکٹرز/ پیرا میڈیکل سٹاف کی نمائندگی کی۔یہاں یہ
بات مدنظر رہنی چاہیے۔کہ فوج میں قابل تقلید نمونے دینے میں سینئرزآگے ہوتے
ہیں۔جنکی تقلید میں انڈرکمان فوجی بھی پیچھے نہیں رہتے ۔جبکہ سویلین لائف
سٹائل ذرا مختلف ہے۔یہی وجہ ہے کشمیریوں سے یکجہتی کیلئے اپنی رگوں سے خون
نکالنے سے گریز کیا جاتا ہے۔اگر ریاست کے سول ملازمین ،بیوروکریسی کے
سیکرٹریز،اگر یہ حقیقت دل سے تسلیم کرلیں کہ وہ ’’بیس کیمپ‘‘میں بیٹھے
سرکاری ملازمتوں کی صورت میں بھاری تنخواہوں /مراعات سے استفادہ کررہے ہیں
۔اور یہ سب کچھ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کیلئے بیس کیمپ کے کردار سے مشروط
ہے۔تو کوئی وجہ ہی نہیں۔کہ نچلی سطع پر ملازمین ’’کشمیرکاز‘‘کیساتھ سنجیدہ
وابستگی کے اظہار سے طاقتور پیغام ’’اُس پار‘‘نہ پہنچ سکے۔لیکن بدقسمتی
سے’’بیس کیمپ‘‘میں تحریک مزاحمت اور نظریہ الحاق پاکستان کے حوالے سے نظام
کے اندر موجودبادشاہوں میں ’’عملی سردمُہری‘‘پائی جاتی ہے۔
بے شک آزادکشمیر کے باشندے فطری و نظریاتی طور پر پاکستان سے قریب تر ہیں
۔مگر آزادخطہ میں’’ نظریات بیزار سیاست‘‘کے فروغ سے پیدا ہونیوالے منفی
اثرات نے بھارت کی سرجیکل سٹرائیک کی شکل دھار لی ہے۔اور دشمن للکارکرفائدہ
اُٹھانے میں مصروف ہے ۔یہ جو سرجیکل سٹرائیک کا ڈھنڈورہ پیٹ رہا ہے ۔اُس سے
مُراد فوجی سطع پر کوئی ایکشن نہیں ،بلکہ ریاستی باشندوں کے بیس میں ریاست
میں نظریاتی تخریب کاری بڑھانا ہے ۔تاکہ پاکستان بیزار ماحول کو تشکیل دیکر
مقصد حاصل کرسکے۔یہ الگ بات ہے کہ آزادخطہ کے باشندے کسی چکر ،کسی جھانسے
میں آنے پر تیار نہیں ہیں ۔لیکن ’ہمیں یہ حقیقت کبھی نہیں فراموش کرنی
چاہیے ۔کہ پانی کا ایک قطرہ بھی پتھر پر جس جگہ مسلسل ٹپکتا رہے ،وہاں گڑا
بن جاتا ہے۔اس لئے روازنہ کی بنیاد پر پاکستان پاکستان کرنا،پاک فوج پاک
فوج کے نعرے لگانے سے ایسی انقلابی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی جو ہمارے
اجتماعی مقصد’’آزادی‘‘کی تقویت کا سبب بن سکے۔یہ بھی سرجیکل سٹرائیک ہے کہ
بھارت کشمیرسے بہنے والے پانی کی ایک ایک بوند بھی ہائیڈرل پاور پراجیکٹس
کیلئے ذخیرہ کرنے کی حکمت عملی پر چل رہا ہے۔جبکہ آزادکشمیر میں توانائی کے
ہر منصوبے کو اعتراضات و اختلافات کی نذر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ بھی
سرجیکل سٹرائیک ہے۔جس میں ہمارے ذرائع ابلاغ بھی استعمال ہوسکتے ہیں۔جبکہ
اپنے تئیں بہت سے’مرکزی رہنما‘‘بھی حصہ بقدر جثہ بھارتی سرجیکل سٹرائیک میں
شریک دکھائی دیتے ہیں۔اگر بھارتی سرجیکل سٹرائیک ناکام بنانی ہے تو بیاناتی
حکمت عملی کو بدلنا ہوگا ۔اور بیس کیمپ کی رائے عامہ کو پاکستان اور
کشمیرکاز سے اس انداز میں منسلک کرنا ہوگا ۔کہ دکھائی بھی
دے۔’’مثلاََسرکاری محکمہ جات کے نائب قاصد سے لیکر سیکرٹری تک ساے لوگ
سرگرمیوں کیلئے تیار کرلئے جائیں گے ۔تو یقینی طور پر عوامی حلقوں میں بھی
کشمیرکاز سے دلچسپی اور ترغیب بڑھے گی ۔جسکا نتیجہ صرف دو تین سال میں
سامنے آئیگاہوگا ۔جب ریاست کا وزیراعظم اگر’’کال دیگا ‘‘ریاست کے شہری لبیک
کہتے ہوئے سڑکوں پر آئیں گے۔اور اگر ضرورت پڑے تویہی لوگ کنٹرول لائن
روندنے کیلئے بھی تیار ملیں گے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آزادحکومت
قومی/ریاستی تہواروں کے موقع پر سرکاری محکمہ جات کی مکمل شرکت یقینی بنانے
کیلئے حکمت عملی طے کرپائے ۔اور ان تہواروں پر چھٹی کے بجائے سرگرمیوں کو
رواج دیا جانے لگا ۔تو اس کے فوائد بہت زیادہ ہونگے ۔اور بھارت کی سرجیکل
سٹرائیک بھی ناکام بنا ئی جاسکے گی ۔سنجیدہ اور مُحب وطن حلقے ریاست میں
پاک فوج اور بیس کیمپ کے شہریوں کی مختلف اشتراکی سرگرمیاں یقینی بنانے سے
دشمن کی سرجیکل سٹرائیک ناکام بنے گی۔ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے
کہ قوموں کی جنگیں ’’پیالی میں طوفان اُٹھانے سے مقاصد تک نہیں
پہنچاتیں۔حقیقت تک پہنچنے کیلئے کشمیریوں کے کندھوں پر اُٹھتی لاشیں ،لاشوں
پر لپٹے پاکستانی جھنڈے ،لاکھوں کے مجمع میں کہراتے سبز ہلالی جھنڈے دیکھنے
کیساتھ دل سے محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔اگر ایسا نہ ہوا تو شہ رگ ؟؟؟ پھر بیس
کیمپ کی بیاناتی قیادت کہاں ہوگی؟؟ تاریخ میں دفن ہونے سے بہتر زندہ رہنا
ہے۔جسکے لئے ’’قومی غیرت کے عملی مظاہرے کی ضرورت ہے۔ |