انم زکریا ایک نوجوان پاکستانی خاتون ہیں جنہوں نے 285
صفات پر مشتمل آزاد کشمیر پر ایک بہترین تحقیقی کتاب لکھی ہے۔ کتاب انگلش
میں ہے اور سورس پرائمری ہے۔ یعنی محقق نے براہ راست لوگوں کے پاس جا کر
انکے جذبات و احساسات قلمبند کیے اور ایسا کرنے میں مصنف نے انتہائی نیک
نیتی سے کام لیا ہے۔ انہوں نے اپنے خاوند ہارون اور دوست شرجیل کے ساتھ
آزاد کشمیر کے متعدد دورے کیے اس دوران انہوں نے مختلف مرد و خواتین عام
اور خواص کے ساتھ ملاقاتیں کیں ۔ انم زکریا نے سچائی کو سامنے لانے کی کوشش
کی ہے اور بے باکانہ انداز میں لکھا ہے کہ یہ خطہ جو پوری ریاست جموں کشمیر
کی نمائندگی کا دعویدار ہے اسکا اپنا کوئی بیانیہ اور اپنی کوئی آواز نہیں۔
یہاں کے حکمران طبقہ سے جب اس بارے سوال کیا جائے تو وہ ہیجان کا شکار ہو
کر الٹا پوچھتے ہیں آپ بھارتی مقبوضہ کشمیر پر سوال کیوں نہیں کرتی؟ یہی
وجہ ہے کہ یہ خطہ جسے رول ماڈل بننا تھا وہ بے نام ، بے سہارا ، بے آبرو
اوربے آواز بنکر رہ گیا۔ مصنف کا طرز تحریر دلچسپ انتہائی قابل فہم اور
جامع ہے۔ قاری کسی بھی جگہ کنفیوز نہیں ہوتا۔۔ کتاب کا عنوان بیٹوین دی
گریٹ ڈیوائڈ ہے اس سے قبل انم زکریا نے ایک کتاب بعنوان فٹ پرنٹس آف
پارٹیشن لکھی تھی۔
تین سال قبل گرمیوں کی ایک شام کو مجھے ایک فون آیا۔ میں سونے کی تیاری کر
رہا تھا کہ فون پر صاف اور پر اعتماد لہجے میں بولتی ایک خاتون کی آواز سنی
جس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے مجھے فون کرنے کی وجہ بتائی لیکن انہوں نے
اپنی اس کتاب میں میرے بارے صرف ایک ایسی کتاب کے حوالے سے زکر کیا جسکا
نصف ترجمہ میں اور نصف تنویر احمد نے کیا تھا۔ اس کے بعد بھی آزاد کشمیر پر
معلومات کے لیے انہوں نے مجھے متعدد بار فون کیا لیکن میں نے انہیں اپنے
بارے کبھی ایسی بات نہیں بتائی جو انہوں نے پوچھی نہیں اور شاید اسی وجہ سے
مجھ سمیت اس خطے سے تعلق رکھنے والے موجودہ تحریک آزادی کے بنیادی اور
مرکزی کرداروں کا زکر کتاب میں نہیں ملتا البتہ انم زکریا نے جو اور جتنا
آزاد کشمیر پر لکھا وہ حقیقت پر مبنی ہے جو آج اور کل کے کشمیری بچوں کے
لیے رہنمائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کتاب میں آزاد کشمیر کی سیاسی اقتصادی حالت
کے ساتھ ساتھ اس پر مسلہ کشمیر کے گہرے اثرات کا زکر کرتے ہوئے لکھا گیا کہ
یہاں کے لوگ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے مستقبل کی فکر میں اپنا آپ بھی بھول گے
لیکن انکے اس کردار اور اس سوچ کو کوئی پزیرائی نہیں ملی بلکہ بھارتی
مقبوضہ کشمیر کے کچھ حلقے آزاد کشمیر کو پنجاب کا حصہ تصورکرتے ہیں اور
پنجابی انہیں کشمیری کہتے ہیں اس طرح انکی حیثیت بے معنی ہو کر رہ گئی۔
کتاب میں ان واقعات اور ان پاکستانی کرداروں کا بھی حوالہ ہے جو اب پاکستان
کی غلط ، کمزور ناقص کشمیر پالیسی کو تسلیم کرتے ہیں لیکن خدا جانے اسکی
تلافی بھی ہو گئی یا نہیں۔
میری طرح کئی لوگوں کے زہن میں یہ سوال گردش کرتا تھا کہ آیا انم زکریا
آزاد کشمیر پرکیوں تحقیق کر رہی ہیں؟ کتاب کے مطالعہ سے جواب ملا کہ یہ انم
زکریا کے سچے انسانی جذبوں کا نتیجہ ہے جنکی آبیاری کا آغاز انکی تین سال
کی عمر سے اس وقت ہوا جب انکی والدہ نے ایک رات ہیجانی حالت میں کہا جنگ ہو
گی؟ ان جذبوں کی پرورش میں انم کے اس فیملی خانسامہ کے بچوں کا بھی عمل دخل
ہے جنکے ساتھ وہ بچپن میں کھیلا کرتی تھی اور جنکی زبانی خطہ آزاد کشمیر کی
جو کہانیا ں سنا کرتی تھی انہوں نے انم کے زہن میں کشمیر کا نقشہ ایک ایسے
قدرتی خوبصورتی کے مالک خطہ کا نقشہ کھینچا جہاں موت رقص کرتی ہے۔ اگر یہ
کہا جائے کہ یہ کتاب انم نے اپنے بچپن کی یادوں کو جلا بخشنے کے لیے لکھی
ہے تو غلط نہ ہو گا۔ انہی یادوں نے عملی زندگی میں انم کو ایک محقق ،
ایجوکیشنسٹ اور سائیکوٹھیراپسٹ بنایا۔ ایسے شعبوں سے وہی لوگ منسلک ہوتے
ہیں جنکو انسان اور انسانیت سے دلچسپی ہوتی ہے اور اسی وجہ سے میں اپنے
قارئین کو اس کتا ب کے مطالعہ کی دعوت دیتا ہوں۔ |