سیّد حبدار قائم ؔ آف اٹک
محبتوں کے دھنک رنگ لے کر، مہکتے شگوفوں سے غزلیہ آہنگ لے کر اور گل رنگ
برساتوں سے پھوٹنے والے ریشمی تبسم کے سنگ لے کر طاہر اسیر کی ’’لاج ونتی‘‘
جب منصہ شہود پر جلوہ افروز ہوئی تو میرے جذب و شوق کو ایک نئی جلا ملی
کیونکہ اس کا لفظ لفظ کرن تھا، مہک تھا، گلرنگ سویراتھا، جن میں مصرعوں کی
برجستگی، روانی اور اُردو کلاسیکی روایات کا گلریزاظہار قاری کے سینے میں
خوشبوبن کراُترتا جاتاہے اوراُس کی سماعتوں اور بصارتوں کونکھارتا جاتا ہے۔
اٹک کے اس نامور شاعر نے ’’حوزہ علمیہ المنتظر‘‘سے تاریخ، فلسفہ، فقہ،
منطق،اور خطابت کے اسرار ورموز سے جلاپاکر مبداءِ کائنات ،مخزنِ کائنات،
منشائے کائنات اور مقصودِ کائنات حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی
آفتابِ نوبہار،انجمنِ لیل و نہار اہلِ بیت عظام سے عشق ووارفتگی دوام پایا۔
حصولِ علم وآگہی کے بعد ایک ادبی مجلہ ’’جمالیات‘‘ ،سید حبدارحسین کی سوانح
حیات’’نقشِ دوام‘‘ اور ’’کیمبل پوری لہجے‘‘ کی لغت رقم کرکے ادبی حلقوں سے
پذیرائی حاصل کی۔
’’لاج ونتی‘‘ نہ صرف طاہر اسیر کے عشق ووجدان کامظہر بلکہ حسین جذبات کی
بھی عکاس ہے بلکہ ان کے فنی،تکنیکی جہتوں اور فکری نزاکتوں کاآئینہ دار بھی
ہے۔
’’لاج ونتی‘‘ کا مقدمہ سید شاکر القادری کے پروئے ہوئے موتیوں کی مالا ہے۔
طاہر اسیرنعت کو قرارِ بے قراراں اور غم گسارِ دل فگاراں جان کر ہرکام کی
ابتدا نعت سے کرنے کی ترغیب کچھ یوں دیتے ہیں:
تھکے تھکے ہوئے لہجے میں التجا توکر
حروفِ اسمِ محمدؐ سے ابتدا توکر
تری نظر میں بصیرت کا نور اُترے گا
حریمِ دل میں کبھی ذکرِ مصطفےٰؐ وکر
ہجروفراق عشق کے دوایسے پہلو ہیں۔ جن کے رنگ ہرعاشق میں پائے جاتے ہیں۔ وہ
فراق کے لیے ہجر میں تڑپتا ہے، سسکتا ہے، وہ محبوب کے رنگ میں اپنے آپ کو
رنگناچاہتا ہے اور خاص طورپرعاشقانِ نبیؐ کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیتا ہے
اور اپنے آپ کو موجِ صبا کے سپرد کرکے کہتا ہے:
ہم ایسے ہجر نصیبوں کو مثلِ موجِ صبا
کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسولؐ
تمام رنگ مری دسترس میں آجائیں
بس ایک بار لپٹ جائے مجھ سے بوئے رسولؐ
طاہر اسیر جانتا ہے کہ نگاہِ بے نگاہاں ہمارے آقا کریم کی آمد سے کائنات
کفروشرک کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکلی اور مظلوموں کو جبرِ سلطانی سے نجات
ملی۔ آپ کے جمال کو ایسی طاقت قرار دیتا ہے جو زمین کی خاک میں نوربھردیتی
ہے:
اگر نہ خاک پہ پڑتی ترے جمال کی لو
تو پھر زمیں کا سفر ظلمتوں میں گم رہتا
طاہر اسیر، وقت کے مرحب کو للکارکرمولاعلیؑ کے دامن سے وابستگی کو نجات
مانتا ہے اوراپنے جینے کا ڈھنگ بدلتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دونوں جہاں
کی سرفرازی ایک ہی گھر سے ملتی ہے اور وہ گھر آنحضورؐ کا بے مثل گھرانہ ہے
۔اسی لیے کہتے ہیں:
کبھی جو وقت کے مرحب نے میرا نام لیا
تو میں نے دامنِ حیدر کو تھام تھام لیا
علیؑ کے ذکر سے دونوں جہاں کیے روشن
اس ایک نام سے میں نے بہت سا کام لیا
طاہر اسیر، نعت، سلام، نظم اور غزل جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کرتا
نظر آتا ہے۔ کلام میں برجستگی اُس کی پہچان ہے۔ الفاظ کی گیرائی اور گہرائی
سے کماحقہٗ واقفیت نے اُسے چارچاند لگادیے ہیں۔ حضرت امام حسینؑ کا عشق اور
اعجاز وعرفان زندہ وتابندہ گردانتا ہے ۔وہ جانتا ہے کہ جہاں یزیدِ وقت کی
عیاریاں ہوں۔ وہاں اپنا دامن حسینیت کے دامن سے جوڑ کر نجات حاصل کی جاسکتی
ہے۔ اِسی لیے رقم طراز ہے:
کو بہ کو بکھرا ہوا تیرا یزید
جا بہ جا کھلتا ہوا میرا حسینؑ
کربلا کی بانجھ مٹی کو اسیرؔ
ایک گلشن کر گیا میرا حسینؑ
نظم میں طاہر اسیر کارنگ سب سے جدا ہے۔ قاری اُس کے الفاظ اپنے سینے میں
اُترتے ہوئے دیکھتا ہے۔ نظم ’’جدائی‘‘ کا ایک شعر دکھ رنگ یوں بکھیرتا ہے:
ہم جدائی کی شام سے پہلے
اتنا روئیں کہ ساتھ مر جائیں
جہاں باقی اصنافِ سخن میں طاہر اسیر قوسِ قزح کے رنگ بکھیرتا ہے۔ مجھے یوں
لگتا ہے کہ عشقِ رسولؐ کی وجہ سے غزل طاہر اسیر کی اسیر لگتی ہے۔ غزل میں
بھی اُس کی دنیا دل فریب لگتی ہے اورایک ایسا نعتیہ رنگ نظر آتا ہے جو اُس
کو کئی شعرا سے ممتاز کردیتا ہے کیونکہ وہ اپنے محبوب کی زلفوں سے بھی رب
کے رازوں سے آشنائی حاصل کرتا ہے۔ وہ خوشبوئے زلفِ احمدؐ پاکر دنیا کی
رعنائی سے بے نیازی کااعلان کرتا ہے:
تمھاری زلف کا جب سلسلہ دراز ہوا
میں دو جہاں کے مسائل سے بے نیاز ہوا
اس آگہی نے کیا ہے بہت زیاں دل کا
یہ اور بات کہ میں آشنائے راز ہوا
ایک اورغزل میں’’زلفِ مشکبو‘‘ سے اپنے آپ کاآراستہ کرتا ہے اور جاں جانِ
آفریں کے سپرد کرنے کی ساعتوں میں بھی ’’تذکرۂ یار‘‘کرنے کی خواہش کرتا ہے:
کسی چمن کی زمانے میں آبرو نہ رہے
اگر جہاں میں تری زلفِ مشکبو نہ رہے
دعا ہے جب کہ اکھڑنے لگے یہ خیمۂ جاں
ترے بغیر کوئی لب پہ گفتگو نہ رہے
طاہر اسیر قاری کی ادراکیٔ پرواز کو بلندکرنے کا وصف رکھتا ہے۔ وہ آدم علیہ
السلام کے جنت سے نکلنے اور نورِ وحدانیت سے جدا ہونے کا منظر بڑے عجیب
انداز سے کشید کرتا ہے۔ طرزِ تحریر ایسا دل موہ لینے والا ہے کہ قاری کو
اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ نورِ احدیت سے نورِبشریت کے سفر پر فرشتوں کا
استفسار یوں عیاں کرتا ہے:
پرندے اب بھی ہواؤں سے اتنا پوچھتے ہیں
شجر سے ٹوٹ کے پتہ کدھر گیا ہوگا
آخر میں دعا ہے کہ اس شاعرِ بے مثال کو میرارب راحت قلوب عاشقاں، صورتِ صبح
درخشاں حضرت محمدؐ کے اسوۂ حسنہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ادب کے
افق پر سدا کامرانیوں سے سرفراز فرمائے۔ آمین |