دریا دل ۔۔۔۔۔ یوسف حسن

۱۹۸۱؁ءکی بات ہے‘میں گورنمنٹ کالج اصغر مال روڈ راولپنڈی میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا اور ہمارا کالج میں پہلا دن تھا۔تمام اساتذہ باری باری آتے‘ اپنے مضامین پڑھاتے اورچلے جاتے مگر مجھے اردو کے استادکا بے چینی سے انتظارتھا۔اس کی وجہ اردو زبان سے میری غیر معمولی دلچسپی تھی۔اس وقت گورنمنٹ کالج اصغر مال میں اردوزبان کے ماجد صدیقی اوررفیق بیگ صاحب جیسے نامور اساتذہ موجودتھے اور ہمیں یہ توقع تھی کی ان دو حضرات میں سے کوئی ایک ہمارا اردو کا استاد ہو گا۔مگر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہم نے ایک دُبلے پتلے نوجوان کو کلاس روم میں داخل ہوکر یہ سنتے پایا کہ میں آپ کو اردو پڑھاؤں گا۔یہ سن کر ہم سب کے منہ لٹک گئے کیونکہ ہم تو اردوکے کسی سینئراستاد کے منتظر تھے۔اس نوجوان نے اپنے لیکچر کا آغازاپنے تعارف سے کیا اور بتایا کہ اس کا نام یوسف حسن ہے ۔ہم نے بے دلی سے اس کا لیکچر سننا شروع کیا مگر ہر گزرتے لمحے کلاس پر اس کی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی اور مجھ سمیت تما م طالب علم اس کے سحر میں گرفتار ہوتے چلے گئے۔لیکچر ختم ہوا تو تمام کلاس کو وہ اپنا گرویدہ بنا چکا تھا۔اب ہم یوسف حسن کی کلاس کا بے تابی سے انتظار کرتے کیونکہ اس میں اردو کے اسباق کی روائتی تدریس کے ساتھ ساتھ فلسفہ،منطق،صرف ونحو،عروض غرضیکہ سب کچھ ہی زیر بحث آتا۔مجھے شاعری سے خاص طور پر لگاؤ تھا اس لئے کلاس میں کبھی کبھار اس حوالے سے اپنا مدعا بیان کرتا رہتا تھا۔یوسف حسن کلاس کے بعد اکثر اوقات لائبریری میں بیٹھتے تھے اور میں وہاں بھی ان کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔کالج میں علمی وادبی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے ہفتہ تقریات شروع ہوا جس میں مشاعرہ بھی ہونا تھا۔مشاعرے میں شرکت کے لئے میں نے اپنے ادبی سفرکی پہلی غزل لکھی اور اصلاح کے لئے پروفیسر یوسف حسن کے پاس پہنچ گیا۔انہوں نے پوچھا کب سے لکھ رہے ہو تو میں نے بتایا کہ یہ میری پہلی کاوش ہے۔انھوں نے اس کی نوک پلک درست کی اور فرمایا اگر پہلی ہے تو بہت اچھی ہے۔اب میرا ان سے ایک نیا رشتہ استوار ہو چکا تھا۔ان کی حوصلہ افزائی سے میں نے باقاعدہ لکھنا شروع کیا اور گاہے گاہے ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہتا۔وہ کالج میگزین’’کوہسار‘‘ کے اردو ایڈیٹر بھی تھے۔ان کی سرپرستی میں ‘میں نے کالج میگزین کے لئے بھی لکھنا شروع کیا اور ہرسال کالج میگزین میں میری تخلیقات شائع ہونے لگیں۔میں آج سوچتا ہوں کہ اگر میری یوسف حسن جیسے ماہرِ فن سے ملاقات نہ ہوتی تومیرا فنی سفر ادھورا رہتا۔کالج سے فراغت کے بعد میں نے پاکستان آرمی میں بحیثیت کمیشنڈ افسر عملی زندگی کا آغاز کیا ان سے ملاقاتیں کم ہوتی چلی گئیں لیکن رابطہ مسلسل رہا۔جب بھی مجھے فرصت ملتی میں محلہ عید گاہ میں واقع ان کے گھر حاضر ہو جاتا۔ایک دفعہ حاضر ہوا تو انھوں نے سبطِ علی صبا کے شعری مجموعے کا مسودہ مجھے دیتے ہوئے کہا ‘اسے پڑھو کیا عمدہ شاعری ہے ۔(یہ مجموعہ جب بعدازاں طشت مراد کے نام سے شائع ہوا)۔اسی روز انہوں نے مجھے تنویر سپرا کی کتاب’لفظ کھردرے‘ پڑھنے کو دی۔یوسف حسن چونکہ بنیادی طور پر ترقی پسند تحریک اور مارکسزم سے متاثر تھے اس لئے وہ ان دونوں مزودر شاعروں سے مجھے متعارف کروانا چاہتے تھے۔یوسف حسن نے زندگی بھر لوگوں میں محبتیں بانٹی ہیں۔انہوں نے کبھی کسی سے کچھ نہیں لیا۔ایک دفعہ میں ان کے پاس بیٹھا تھا تو ایک دوست کو انھوں نے کہا ذرا باہر دکان سے میرے لئے سگریٹ پکڑ لاؤ۔دوست نے حکم کی تعمیل کی مگر سگریٹ کے پیسے لینے میں پس وپیش سے کا م لینے لگا تو انھوں نے فرمایا‘ یار مجھے اس کام پہ مت لگاؤ،اگر پیسے نہیں لو گے تو میں سگریٹ قبول نہیں کرتا۔بعد از ریٹائرمنٹ ان کو پینشن ملنے میں کچھ تاخیر ہوئی مگر ان نا مساعد حالات میں بھی انھوں نے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا۔وہ ایک خوددار انسان تھے۔انھوں نے اپنی ذات کے بارے میں کبھی نہیں سوچا اور دوستوں کے ساتھ ہمیشہ دریا دلی سے پیش آئے۔حتی کہ اپنے شعری مجموعے کی اشاعت کے سلسلے میں بھی ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے اور تاحال یوسف حسن کا شعری مجموعہ منتظرِ اشاعت ہے۔۲۵ اور ۲۶ جون کی درمیانی رات کو یوسف حسن اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئے۔
 

Khalid Mustafa
About the Author: Khalid Mustafa Read More Articles by Khalid Mustafa: 6 Articles with 16707 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.