بابا رکھو یہ فلسفے اپنے پاس جی، حج پر سبسڈی جائز نہیں ۔ہو
سکتا ہے جائز نہ ہو مگر کھاد کیڑے مار دوائیاں اور ان گنت اشیاء پر جائز
ہے۔ایک یہ فلسفہ بھی ہے کہ بینکوں کا قرضہ چونکہ سود سے جڑا ہوتا ہے تو اس
لئے ناجائز ہے حاجیوں سے حاصل کیا گیا اربوں روپیہ بنک میں رکھ کر سود لینا
جائز ہے اور ہزار قسم کی گماشت گردیاں جائز ہیں ایک حاجیوں کو رو رعائت
جائز نہیں ۔میں نے اپنی آنکھوں سے حاجیوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنے والوں کو
دی جانے والی بد دعائیں حرم پاک میں سنی ہیں اور پھر ان لوگوں کو زلیل و
خوار ہوتے دیکھا ہے جنہوں نے اﷲ کے راستے میں عمر بھر کی کمائی خرچ کرنے
والوں کو پریشان کیا میرے سامنے ہیں ڈائریکٹر حج قونصل جنرل ، ڈی جی حج اس
کے مربی ابنائے وزیر اعظمسب رسوا ہوئے۔ایک ڈی جی حج نے میرے سامنے کہا کروڑ
دے کر آیا ہوں دو کمانا تو میرا حق بنتا ہے۔خدا را نورالحق قادری صاحب اور
وزارت خزانہ کے جناب اسد عمر ہزار بچت کیجئے لیکن اس بچت سے دور رہیں ۔پاکستان
معاشی مسائل میں گھرا ہے کسی اور کی منت کر لیجئے لیکن اﷲ کے ان مہمانوں کے
کہ جن کے پاس چند لاکھ ہیں جو برسوں سے وہ جوڑ رہے ہیں اور وہ جو پہلی بار
جا رہے ہیں انہیں زائر حرمین بننے سے محروم نہ کریں۔دیکھ لیجئے گا اﷲ غیب
سے آپ کی مدد کرے گا اور آپ مشکلات سے نکل جائیں گے
حج بہت مہنگا ہو گیا ہے۔ہمارا روپیہ بہت ہلکا ہو گیا ہے ہم ہلکے نہ ہوں اﷲ
ہمیں کبھی نہیں پریشان ہونے دے گا۔کہاں گئے وہ لوگ جب مصیبت میں ہوتے تھے
تو اﷲ کے پاک طینت لوگوں سے مشورہ کرتے تھے ان کی دعائیں لیتے تھے۔کیا ہم
کہیں دعاؤں کے خزانوں سے منہ تو نہیں موڑ رہے۔ سعودی عرب نے ہر چیز مہنگی
کر دی ہے۔بلڈنگیں،بسیں،خیمے،ٹرین سب کچھ مہنگا ہو گیا۔ان مکاوی لوگوں کا
کیا کہنے اﷲ کے مہمان ان کے شہر میں ہوتے ہیں اور یہ جنیوا سوئٹرز لینڈ
میں۔بہت سے لوگ اس فلسفے کی آڑ میں کہے جا رہے ہیں بلکہ تواتر سے کہے جا
رہے ہیں کہ حج استطاعت والوں پر فرض ہے۔مانا کہ اﷲ کے حضور جن کے پاس مناسب
رقم نہیں تھی اور وہ حج نہ کر سکے تھے ان سے باز پرس نہ ہو گی لیکن اس
چاہنے والی کی چاہت بھی دیکھئے جس نے پڑھا ہے حج گناہوں کو اس طرح دھو دیتا
ہے جیسے پانی میل کو(حدیث مبارک)۔ بھلے سے استطاعت سہی لیکن کیا ضروری ہے
کہ استطاعت کے معیار بڑھا دئے جائیں اس سال اگر چار لاکھ ہے تو اگلے سال
اسے آٹھ کر دیا جائے۔حضور خدا کے لئے جس طرح ریمینڈ ڈیوس کو رہا کرنے کے
لئے ایک اسلامی شق نکال لی تھی اسی طرح اس کا بھی کوئی حل نکال لیں ۔میں اﷲ
کے دین کو ایک
ایک کم تر بندہ ء خدا کی طرح سوچتا ہوں کہ وہ لوگ جو حج بدل کرنے جاتے ہیں
ان کے پاس بھی تو استطاعت نہیں ہوتی انہیں اصحاب خیر حج کرا دیتے ہیں۔حکومت
ہماری ہے ہم اس حکومت کو مشورے دیتے رہتے ہیں ا اس پر نظر ثانی کریں حاجیوں
کی بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کا وہ تقریبا آخری حج ہوتا ہے بوڑھے
غریب لوگ جو وہاں جا کر جس طرح دن گزارتے ہیں میں نے اپنے پچیس سالہ قیام
کے دوران دیکھا ہے۔پہلی بات یہ ہے کہ اس قیامت مہنگائی کی وجوہات تلاش کی
جائیں اگر روپیہ تیس فی صد سستا ہوا ہے تو ریال تو وہیں کھڑا ہے۔ریال والوں
نے کیوں قیامت ڈھائی ہے ۔اس میں حکومت سعودی عرب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ
مہنگائی کم کرے۔بلڈنگوں کا کرایہ سستا کرے ٹرین اور بسوں کا کرایہ کم لے۔ہم
نے جب بیالیس سال پہلے حج کیا تو ہمارے جدہ سے تین سو ریال لگے تھے ۲۰۱۴
میں ۴۵۰۰ ریال لگے اور اب شنید ہے جدہ سے سات ہزار ریال لگیں گے۔اس ساری
بحث میں حکومت سعودی عرب کا کوئی نام نہیں لیتا۔پہلی بات ہے حاجی کا مہینے
سے زیادہ قیام کا کیا تک بنتا ہے حج کے پانچ دن ،مدینہ منورہ میں نمازیں
پڑھنی ہیں دس دن اس کے لگائیں ویسے تو حج پانچ دن کا ہوتا ہے لیکن مدینے کی
حاضری پندرہ سے بیس دنوں میں حج ہو جاتا ہے اب دقت اس بات میں ہے کہ اتنی
بڑی تعداد میں حاجی لے جائیں کیسے؟ واپس کیسے ہوں یقینا اتنے جہاز اور ان
کی ہینڈلنگ ایک ایشو ہے۔کیا بحری جہاز کو استعمال نہیں کیا جا سکتا؟ جس پر
ہزاروں لوگ ایک بار وہاں پہنچ سکتے ہیں۔حکومت کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ
لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔حج میں جتنی کرپشن ہوتی رہی اس پر میں نے
ایک صحافی کے طور پر بہت کچھ لکھا۔مولانا عبدالستار نیازی کے دور میں ڈی جی
حج کی بر طرفی بھی میری طرف سے اٹھائے گئے سوالات پر ہوئی تھی۔ایک مدت تک
حاجیوں کو لوٹا جاتا رہا۔اب ہر برے کام کی تو ہم مذمت کریں گے لیکن نواز
دور میں صرف ایک حج منسٹر ایسا آیا جس نے کرپشن کو انتہائی حد تک کم کی
گرچہ اس دور میں بھی جونکیں اپنا کام ڈالتی رہیں لیکن حج انتظامات کمال کے
تھے جس کے لئے سابق حج منسٹر کو مبارک باد دینا ضروری ہے۔ہمیں دیکھنا یہ ہو
گا کہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس وقت بھی مسلمان ہی حکومت تھی انہوں
نے حاجیوں کو سبسڈی دی تو کون سی مذہبی شق نے انہیں اجازت دی اور کیا ان
حاجیوں کا حج معلق ہے اور بارگاہ ایزدی میں صرف اس لئے قبولیت نہیں پا رہا
کہ اس میں سبسڈی کی رقم شامل تھی۔
خدا کے لئے ان لوگوں کا سوچئے جو پائی پائی اکٹھا کر کے صرف اس دن کے لئے
بچا رکھتے ہیں جب وہ اﷲ کے گھر کو دیکھتے ہیں اس گھر کو جس کے خواب ساری
عمر دیکھتے ہیں۔ایک دہی کے ڈبے سے روٹیاں لے کر تین لوگ کھاتے تھے پھر یہ
ہوا کہ انہیں تین وقت کی عزت سے روٹی ملنے لگی فروٹ اور جوس تو اس قدر ملے
کہ فالتو پڑے رہتے تھے۔آپ جتنی مرضی جمع تفریق کرتے رہیں۔میری نظر میں سب
سے بڑا فیکٹر سعودی حکومت کا ہے اسے قابو کیجئے۔یہ بھرے پیٹ کے ساتھ حاجیوں
کی چمڑی کیوں ادھیڑ رہی ہے۔ان سے کوئی پوچھے زم زم بھی بیچتے ہو مسافروں کے
بکسوں کے اوپر پولی تھین چڑھانے کی بھی خطیر رقم وصول کرتے ہو۔اب وقت آ گیا
ہے کہ ان سے بات کی جائے کہ اپنے مزاج بھی درست کریں اور معاملات بھی۔ہم
سعودی عرب سے کیوں نہیں کہتے کہ حاجیوں پر رحم کیوں نہیں کرتا۔حالت یہ ہے
کہ وہاں منی کے باہر خیمے لگا کر بیچ دئے جاتے ہیں سڑک کے ساتھ فٹ پاتھوں
پر خیمے لگا دئے گئے کسی بھی قسم کی ہلڑ بازی یہ گیس سیلنڈر پھٹنے سے
بھگدڑمچ جانے کی صورت میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔عرفات سے مزدلفہ تو
حاجی آسانی سے پہنچ جاتے ہیں لیکن مزدلفہ سے رات قیام کے بعد جو قیامت مچتی
ہے اﷲ ہی حافظ ہے۔پہلے دن شیطان کو کنکریاں مارنا موت کے منہ سے نکلنے کے
مترادف ہے۔امت مسلمہ اگر اونٹوں کی سواری سے جہازوں پر بیٹھنا اختیار کر
سکتی ہے تو خدا را منی میں قیام کے لئے کثیر المنزلہ عمارتوں کے بارے میں
کچھ سوچے۔تا کہ ایک تھوڑی جگہ کو استعمال کر کے زیادہ لوگوں کو کھپایا جا
سکے۔اگر منی کی حدود سے باہر خیمے لگائے جا سکتے ہیں تو منی کے اندر کثیر
المنزلہ عمارتیں کیوں نہیں بن سکتیں؟ان چیزوں پر غور کریں حاجی ہر سال بڑھ
رہے ہیں ۔اﷲ کا کرم ہے کہ شیطانوں کی جگہ کو تین منزلہ کر دیا گیا ہے ورنہ
ستر کی دہائی میں لوگ کچل کر مر جاتے تھے۔حج میں ہونے والی بد انتظامی سے
دنیا بھر میں مسلمانوں کا مذاق اڑتا ہے خاص طور ایک اسلامی ملک اس پر باتیں
بنانے میں بہت دور نکل جاتا ہے۔
مشاعر مقدسہ میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اس میں کوئی شک نہیں حکومت
سعودی عرب نے حجاج بیت اﷲ کی بڑی خدمت کی ہے لیکن کچھ عرصے سے حج بہت کمرشل
ہو گیا ہے۔ایک عام کمرہ جو عام دنوں میں ایک سو ریال کا ملتا ہے وہ ہزاروں
میں چلا جاتا ہے۔
یہ تو اچھا ہوا کہ مقامی حجاج کو روکا گیا ہے اور ایک شخص پانچ سال میں صرف
ایک بار حج کر سکتا ہے۔حکومت پاکستان اور خاص طور پر حج منسٹر نور الحق
قادری اس مسئلے میں اپنا کردار ادا کریں۔اﷲ کے بندوں کی خدمت کرنی ہے میری
رائے میں قادری صاحب جناب اعجاز الحق،سردار یوسف اور جید علماء کے وفد کے
ساتھ سعودی عرب جائیں اور ان سے درخواست کریں کہ حجاج کی خدمات کا معاوضہ
کم کریں۔حج وزارت میں تمام سیسی پارٹیوں کی مدد لینے میں کوئی قباحت
نہیں۔علی محمد خان اس دن اسمبلی میں بڑی تفصیل سے اخراجات کی تفصیل بتا رہے
تھے ان کا حرف حرف سچ تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دکاندار جو منہ سے
مانگے اسے دے دیا جائے یہ اﷲ کے گھر حاضری کا معاملہ یہ روضہ رسول پر سلام
کرنے کی بات ہے اس مہنگا کرنے والے فریق سے بات کر لینے میں کوئی حرج
نہیں۔مجھے ساتھ لے لیں ہم اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔پتہ نہیں ہم لوگ کب
سدھریں گے ۔
کرسمس کے دنوں میں پورا یورپ سستا ہو جاتا ہے اور ہم مسلمانوں کو ذرا بھی
خدا کا خوف نہیں رمضان اور حج میں سب کچھ مہنگا کر دیتے ہیں جو چائے دکانوں
میں عام دنوں میں ایک ریال کی ملتی ہے حج کے دنوں میں مکہ کی گلیوں میں دو
یا تین کی ملتی ہے اب بتائے پاکستانی چائے کی پیالی سو روپے میں کیسے پئے
گا۔لگتا یوں ہے ماضی کی طرح اب چاول دال مرچ مصالحے ساتھ لے جانا پڑھیں
گے۔میں اعداد وشمار کے گورکھ دھندے میں نہیں پڑتا نہ مجھے آتے ہیں میں تو
یہ جانتا ہوں کہ وہ غریب لوگ جو سستا حج کرتے تھے ان کی دعائیں اور جو کر
ہی نہیں پائیں گے ان کی بد دعائیں کیا رنگ لائیں گی۔یہ معیشت کے گورکھ
دھندے کسی اور مد میں نکال لیجئے گا حج کو اس سے مبراء کریں۔یاد رکھئے یہ
حج پی ٹی آئی کے لئے ایک چیلینج ہو گا۔یہ پہلا حج ہے ۔بنیاد وہ رکھیں جس پر
عمارت مضبوط کھڑی رہے اگر حج بدل ہو سکتا ہے تو گورنمنٹ آف پاکستان اسے اس
مد میں خرچ کرے۔پہلے تو مجھے پورا یقین ہے کہ جب ہمارے ذمہ داران ایک گروپ
کی صورت میں وہاں جائیں گے جس میں علماء کرام شامل ہوں گے تو کوئی وجہ نہیں
سعودی حکومت عمارتوں کے کرائے سستے نہ کرے اور دیگر ٹرین بسوں کے کرائے
ارزاں نہ کرے۔میں گیا تو ان سے کہوں گا گجو متہ سے آزادی چوک اتنا ہی دور
ہے جتنا عرفات سے کبری ملک خالد یا مسجد خیف ہے اور ہم یک طرفہ کرایہ نصف
ریال لیتے ہیں اور آپ دو سو ریال کیوں؟دوسری بات حج ڈائریکٹریٹ جدہ مکہ اور
مدینہ کو مکمل طور پر ختم کیا جائے یہ لوگ حاجیوں کی سہولت کم اور اپنے
کاروبار زیادہ کرتے ہیں یہ لوگ سفید ہاتھی ہیں کسی اور ملک کا مستقل حج
ڈائریکٹریٹ نہیں ہمارا کیوں ۔ نیب ان سے بھی پوچھے سیاست دان کو تو آپ دھر
لیتے ہیں لیکن ان لوگوں سے پوچھ گچھ کریں کی کس طرح لوٹ مار اور کمیشن سے
کمائیاں کیں۔ہمارے کئی قونصل جنرل دیگر افسران ڈائریکٹریٹ حج کے لوگ ہر
حاجی پر کمیشن کھاتے رہے اور تو اور ایک اپوزیشن لیڈر جو پارلیمنٹ کو
پارلیامنٹ کہتے تھے ان کا ایجینٹ حاجیوں کو سمیں جو پانچ ریال میں ملتی
تھیں دس میں بیچنے کا ٹھیکہ لے گیا۔مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی عمارتیں
اسی طرح کمیشنوں پر گئیں۔پچھلے دور میں گلو بٹ ادھر پاکستان میں ہی نہیں
تھے ادھر بھی تھے۔آپ کیا سمجھتے ہیں کہ تبدیلی کا سورج ایک دم طلوع ہو گیا
ہے بلکل نہیں ان ایجنٹوں نے اب بھی مار دھاڑ کی ہو گی مجھے تویہ بھی پتہ
چلا ہے کہ وہی لوگ جو پچھلی حکومت میں فرنٹ لائن پر تھے اب بھی مکہ کے چکر
لگا کے آ چکے ہیں۔نور الحق قادری جو منسٹر حج ہیں انہیں سعودی حکومت سے
تعلقات بہتر کرنا ہوں گے خاص طور پر علمائے کرام میں انہیں اثر رسوخ پید
اکرنا ہو گا۔حکومت یہ بھی کر سکتی ہے کہ حج تو مکہ مکرمہ میں ہوتا ہے مدینہ
منورہ کی ٹرانسپورٹ وہاں حاجیوں کا قیام و طعام اپنے ذمے لے سکتی ہے۔
میری تحریر کا مقصد یہ ہے کہ میں اپنی حکومت میں بیٹھے ان دوستوں کی توجہ
اس جانب مبذول کراؤں اس لئے کہ اس مسئلے کا پتہ آج سے چار چھ ماہ بعد چلے
گا جب حاجیوں سے درخواستیں وصول کی جائیں گی۔
پی آئی اے سعودی ایئر لائن کو بھی پابند کیا جائے کہ اتنی بڑی تعداد میں جب
آپ کو کسٹمر مل رہے ہیں تو کرایہ بجائے کم کرنے کی بڑھایا کیوں جاتا ہے۔ایک
بات اور بھی یاد رکھئے گا اگر حکومت نے حاجیوں کے اخراجات بڑھائے تو پراؤیٹ
ٹور آپریٹرز بھی اپنے ااخراجات بڑھا دیں گے۔المختصر حاجیوں کو بخشا جائے اس
کے لئے کسی مفتی کسی عالم دین سے رجوع کریں جو بیچارہ خود غریب ہو اور اسے
احساس ہو کہ ایک ایک روپیہ کیسے بچا کر سفر پر نکلنا ہوتا ہے نہ کہ ان
علماء سے پوچھا جائے جو ہر سرکار کی رضا دیکھ کر فتوی دیتے ہیں اور لینڈ
کروزروں سے اتر کر منبر پر چڑھ جاتے ہیں۔حج سستا ہونا چاہئے جی ہاں لیکن ان
کے لئے جو پہلی بار حج کر رہے ہیں چلئے حج پر ایک نیک یو ٹرن لیں ایک حج
اور لاکھوں بد دعائیں- |