فیلڈ مارشل ایوب خان اورمیجر ضمیر جعفری کی ڈائریاں

ڈائری لکھنے کا عمل شاید اسی وقت شروع ہوگیا تھا جب انسان نے لکھنا سیکھا تھا کیونکہ زمانہ قدیم میں بھی انسان کا حافظہ اتنا ہی کمزور تھا جتنا آج ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس جدید ترین دور میں بھی یاداشتیں قلمبند کرنے کا یہ رواج قائم ودائم ہے ۔ڈائری لکھنا اگرچہ ایک بالکل ذاتی عمل ہے مگر وہ لوگ جو زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دیتے ہوئے شہرت کی بلندیوں کو چھوتے ہیں اوران کی زندگی کے واقعات قومی اور اجتماعی زندگی پر بھی اثرانداز ہوتے ہوں تو پھر ایسے لوگوں کی یادداشتوں کو محض ان کی ذات تک محدود نہیں کیاجا سکتا۔

پاکستان بننے سے قبل اور قیام پاکستان کے بعد جن شخصیات نے ہماری قومی زندگی پر بے پناہ اثرات مرتب کئے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اُن میں سب سے نمایاں ہیں۔۲ فروری ۱۹۲۸؁ء کو انہیں کمیشن دے کر ۱۴ پنجاب کی پہلی بٹالین میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے تعینات کیا گیا۔ یہ بٹالین بعدازاں ۵ پنجاب (شیر دل) بن گئی۔محمد ایوب خان کو ۱۹۳۲؁ ء میں لیفٹیننٹ ۱۹۳۶؁ ء میں کیپٹن اور ۱۹۴۰؁ء میں میجر بنا دیا گیا۔جنگ عظیم دوم کے دوران ۱۹۴۲؁ء میں انہیں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دے کر برما کے محاذ پر بھیج دیا گیاجہاں ایوب خان کو بطوربٹالین کمانڈر کام کرنے کا موقع ملا۔ ٓٓٓٓٓ

ٓ۱۹۴۷؁ ء میں انہیں بریگیڈئیر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔آپ نے وزیرستان میں بریگیڈ کی کمان سنبھالی اور پھر پاکستان بنتے ہی آپ پاکستانی فوج کا حصہّ بن گئے ۔سینارٹی کے لحاظ سے آپ کا پاکستان آرمی کے افسروں میں دسواں نمبر تھا یعنی آپ کا پاکستان آرمی نمبر۱۰تھا۔ ۱۹۴۸؁ ء میں آپ کو میجر جنرل بنا کر مشرقی پاکستان میں ۱۴ ڈویژن کی کمان دی گئی۔ ۱۹۴۹؁ ء میں آپ کو مشرقی پاکستان کی فوج کا کمانڈرانچیف بنا دیا گیا۔ اسی سال انہیں ہلال جرأت کے اعزاز سے نوازا گیا۔جنوری ۱۹۵۱؁ء میں انہیں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی اور ۱۷ جنوری ۱۹۵۱؁ ء کو انہیں پاکستان آرمی کا کمانڈرانچیف بنا دیا گیا۔ اگست ۱۹۵۵؁ ء کو اسکندر مرزا نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا جبکہ ۷ اکتوبر ۱۹۵۷؁ء کو انہوں نے آئین کو معطّل کر کے مارشل لا ء لگا دیا اور جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔۲۷ اکتوبر ۱۹۵۸؁ء کو اسکندر مرزا نے اقتدار چھوڑ دیااور ۲۸ اکتوبر ۱۹۵۸؁ء کو جنرل ایوب خان نے عنان حکومت سنبھال لی۔ ۲۴ ،اکتوبر ۱۹۶۹؁ء کو ایوب خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور ۱۹ ،اپریل ۱۹۷۴؁ء کو ایوب خان اس جہان ِفانی سے رخصت ہوئے۔ آپ کی عادت تھی کہ خاص باتیں اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیتے تھے۔ایوب خان کی وفات کے بعد ان ڈائریوں کو اکھٹا کیا گیا۔ان ڈائریوں کے ذریعے قومی نوعیّت کے مختلف واقعات اور قومی سطح کی مختلف شخصیات کے بارے میں ایوب خان کا نقطۂ نظر ہمیں پتہ چلتا ہے۔ستمبر ۱۹۶۶؁ء سے اکتوبر ۱۹۷۲؁ء تک محمد ایوب خان نے باقاعدگی سے ڈائری لکھی اور تاریخی واقعات اور شخصیات کے بارے میں ان ڈائریوں میں اظہار خیال کیا۔ بعد ازاں جب ایوب خان کی صحت خراب ہونا شروع ہو گئی تو انہوں نے ڈائری لکھنا بند کر دیا۔ان ڈائریوں کا ذکر قدرت اﷲ شہاب نے ’’شہاب نامہ‘‘ میں بھی کیا ہے ۔ایوب خان ڈائری ہمیشہ انگریزی زبان میں لکھا کرتے تھے۔آکسفورڈ پریس نے جنوری ۲۰۰۸؁ء میں ان ڈائریوں کو کتابی شکل دے دی ہے اور اب یہ ڈائریاں کتابی صورت میں دستیاب ہیں۔ ان ڈائریوں میں تاریخ کے اُن طالب علموں کیلئے بہت موادموجود ہے جو ان حقائق سے واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ جنرل ایوب خان کا جنرل یحییٰ کواقتدار منتقل کرنا، بھٹو کا یحییٰ حکومت کوختم کرنا اور سقوط ڈھاکہ جیسے تاریخی حقائق ان ڈائریوں کے اوراق پردرج ہیں۔ جنرل ایوب خان نے جب اپنی کتاب Frinds not masterلکھنا شروع کی تو انہوں نے کتاب کیلئے مواد کی فراہمی کیلئے ان ڈائریوں کی ورق گردانی کی۔ یہ بات خود
ایوب خان کی زبانی سنیئے، وہ لکھتے ہیں ــ:
While revising the manuscript, I made use of my notes and other documents but situations and conversations have been largly reconstructed from memory.
ایوب خان اپنی کتابFriends not Master کے باب نمبر۵ میں امریکہ کے دورے کاتذکرہ کرتے ہوئے اپنی ڈائری سے استفادہ کرتے ہیں اوراپنی ذہنی حالت اور دباؤ کو بیان کرنے کے لئے ۲ مئی ۱۹۵۸؁ء سے ۶ ستمبر ۱۹۵۸؁ء تک کے واقعات کا بطور خاص ذکر
کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
I must have been under considerable stress at that time because I maintained some kind of a diary,a very unusual thing for me.The first entry is dated 2 May1958 during a visit to the U.S.A., and the last one 6 September 1958.Selections from these entries give an idea of my thinking and
preocupations during that period.
ایوب خان کی کتاب Friends not Masterکا اردو ترجمہ ــ"جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی"کے نام سے ہوا۔ یہ کتاب ۱۹۶۷؁ء میں پہلی بارآکسفورڈ یونی ورسٹی پریس لاہور نے چھاپی جو ۲۷۵ صفحات پرمشتمل تھی۔دوسری بار اسے مسٹر بکس اسلام آباد نے
۲۰۰۶؁ء میں چھاپا۔یہ کتاب بارہ ابواب پر مشتمل ہے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
باب نمبر ۱۔ بچپن سے جوانی تک
باب نمبر۲۔ فوجی زندگی کا ابتدائی دور
باب نمبر ۳۔ فوجی زندگی ۱۹۴۸؁ء تا ۱۹۵۰؁ء
باب نمبر ۴۔ کمانڈر انچیف
باب نمبر ۵۔ سیاست ۱۹۴۸؁ء تا ۱۹۵۸؁ء
باب نمبر۶۔ انقلاب
باب نمبر۷۔ مارشل لاء
باب نمبر۸۔ بنیادی اصلاحات ۱۹۵۸؁ء تا ۱۹۶۰؁ء
باب نمبر۹۔ خارجہ پالیسی۔ ۱
باب نمبر۱۰۔ خارجہ پالیسی ۔۲
باب نمبر۱۱۔ دستور اورنظریات
باب نمبر۱۲۔ صدارتی انتخابات
فیلڈ مارشل محمدایوب خان نے ملک پر حکمرانی کرتے ہوئے ہماری سیاسی زندگی پر اثرات مرتب کئے تو سید ضمیر جعفری نے ادب پر حکمرانی کرتے ہوئے ہماری زندگیوں کو توانائی اور تازگی بخشی۔ضمیر جعفری کو بھی ڈائری لکھنے کا جنون تھا جس کا ذکر خود اُن کی زبانی سنئے۔’’ میں ستمبر ۱۹۴۳؁ء سے تقریباََ روزانہ ڈائری لکھ رہا ہوں۔مجھے معلوم نہیں میرے دماغ میں یہ ’’کیڑا‘‘ کیوں پیدا ہوا اور میں حیران ہوں کہ مجھ جیسا ’’چست‘‘ پچاس پچپن برس سے اس ’’کیڑے‘‘ کی پرورش کیسے کرتا رہا۔اس روگ (ڈائری لکھنے کا عمل) کو سینے سے لگائے رکھنے کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ اس نگارش سے میرے ادبی چسکے کی تسکین ہوتی ہے ورنہ مجھ جیسا ایک عام شخص (جو نہ منسٹر ہے اور نہ مولانا) بھلا کیوں ڈائری لکھتا۔ اس کے بغیر کون سے کام بند تھیـ، ہاں رفتہ رفتہ شایداس کی عادت ہو گئی جس طرح بعض لوگ رات کو حقہ پی کر سوتے ہیں‘‘ سیّد ضمیر جعفری یکم جنوری ۱۹۱۶؁ء کو چک عبدالخالق میں پیدا ہوئے ۔ان کی پرورش اسی گاؤں کے تصنّع اور بناوٹ سے پاک فطری ماحول میں ہوئی۔ضمیر نے لڑکپن میں پرندے پالے ، کبڈی کھیلی اورمیلوں ٹھیلوں کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہوئے۔کھیل کود سے فارغ ہو ئے تو گاؤں کے سکول میں داخل کرا دیئے گئے۔ ضمیر جعفری نے مڈل تک تعلیم اسی سکول سے حاصل کی ۔ میٹرک کیلئے گورنمنٹ ہائی سکول جہلم کا رُخ کیا لیکن بعدازاں اپنے چچا محمد شاہ کے پاس چلے گئے جو کیمیل پور (حالیہ اٹک) میں مقیم تھے ۔ ۱۹۳۳؁ء میں وہیں سے میٹرک اوربعد ازاں ایف ۔اے کی ڈگری لی۔ ۱۹۳۸؁ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی۔ اے کیا۔ ملازمت کے سلسلے میں کئی شہروں کی خاک چھانی۔ ۱۹۵۱؁ء میں بطور آزاد امیدوار پنجاب اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا ۔بعدازاں فوج میں ملازمت اختیار کی اور میجر کے عہدے تک ترقی پاکر ۱۹۶۶؁ء میں ریٹائرہوئے۔ضمیرجعفری کی یادداشتیں بھی جو انہوں نے ڈائریوں کی صورت میں لکھ رکھی تھیں کتابی صورت میں شائع ہو چکی ہیں۔ضمیر جعفری نے ڈائری لکھنے کا سلسلہ ۱۹۴۳؁ء سے شروع کیا۔ضمیر جعفری کی یہ ڈائریاں تاریخی اور ادبی لحاظ سے ایک منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ضمیر جعفری کی ان تحریروں میں ہمیں اس دور کی سیاسی اور سماجی زندگی کا پر تو ملتا ہے ۔فوج میں رہتے ہوئے انہوں نے ہندوستان بھر کی سیر کی اس لئے ان کے تجربات ومشاہدات میں وسعت آتی گئی جسے انہوں نے اپنے ان تجربات میں بیان کیا۔ضمیر کی یادداشتوں کا یہ سلسلہ پہلے فوجی ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ میں قسط وار شائع ہوتا رہاجسے بعد ازاں انہوں نے کتابوں کی صورت دے دی۔
جعفری صاحب کی منتخب یادداشتوں کے کتابی سلسلوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ ’’عالمی جنگ کی دھند میں ‘‘ ۱۹۴۳؁ء سے ۱۹۴۵؁ء تک کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ہے۔ یہ ضمیرجعفری صاحب کی یادداشتوں کے سلسلے کی پہلی کتاب ہے۔آپ کی اس سلسلے کی دوسری کتاب کا نام ’’ بھید بھرا شہرــ‘‘ ہے جس میں ۱۹۴۶؁ء کی یاداشتیں ہیں۔ ۱۹۴۷؁ء سے ۱۹۵۰؁ء تک کی یادداشتوں کا نام ’’ نشانِ منزل‘‘ ہے۔ ۱۹۵۱؁ء سے ۱۹۶۰؁ء تک کی ڈائری ’’سوزِوطن‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ ۱۹۶۱؁ء سے ۱۹۷۰؁ء کی یاداشتیں ’’مسافرِشہر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئیں۔ ۱۹۶۵؁ء کا سال ہندوستان کے ساتھ جنگ کا سال تھا جس میں پاکستانی قوم نے اپنی پہچان کروائی اس لئے اس سال کی ڈائری کا عنوان ’’پہچان کا لمحہ‘‘ ٹھرا ۔ ۱۹۷۱؁ء کو ہمارا ملک دولخت ہوا اس لئے اس سال کو ’’جدائی کے موسم‘‘ کے نام سے کتابی صورت دی گئی۔ضمیر جعفری کی ۱۹۷۴؁ء کی یادیں ’’شاہی حج‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں اور ۱۹۷۵؁ء کی یادوں کو ’’ سفر لکیر‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔ضمیر جعفری کی
ان یادداشوں میں سے کچھ اقتباسات نمونے کے طور پر شائع کئے جا رہے ہیں۔آپ کی یاداشتوں کے اولین مجموعے ’’عالمی جنگ کی دُھند‘‘ (۱۹۴۳؁ء تا ۱۹۴۵؁ء) میں رقمطراز ہیں۔
’’لیجیئے برطانیہ میں مسٹر چرچل کی پارٹی فلیٹ ہو گئی۔ انگریز بھی عجب بے وفا لوگ ہیں۔ صحیح معنوں میں طوطا چشم نکلے۔ جس شخص نے ان کو جنگ جیت کر دی۔ جب اس بے چارے کے سستانے کا وقت آیا تو اس کو اقتدار سے اتار پھینکا۔ کہتے ہیں چرچل پارٹی کے خلاف زیادہ ووٹ فوجیوں نے دیے۔ وہ چرچل کی ’’بڑکوں‘‘ سے ڈرے ہوں گے کہ وہ برطانیہ کو کہیں پھر نہ کسی جنگ میں جھونک دے۔ دیکھنا ہے کہ برطانیہ میں حکومت کی تبدیلی ہندوستان کی سیاست کو کس رخ سے متاثر کرتی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ ’’لیبر حکومت ‘‘ کانگریس کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ سر سٹیفورڈ کرپس کو لیبر پارٹی میں وہ حیثیت حاصل ہے جو پنجاب کی اکالی پارٹی میں گیانی کرتار سنگھ کی ہے۔یہ انگریز سیاست دان پنڈت ہیرو کا دوست سمجھا جاتا ہے اس کو غصّہ ہو گا کہ مسلم لیگ نے ۱۹۴۳؁ء کا وہ ’’فارمولا‘‘ کیوں نہیں مانا جس کا مصنف وہ
تھا اور اسی کے نام سے ’’کرپس کا فارمولا‘‘ کہلاتا ہے۔ اور ایک اقتباس ۱۹۷۵؁ء کی یادوں ’’سفرلکیر‘‘ سے ملاحظہ ہو۔
’’کوئٹہ سے فرقہ وارانہ فسادات کی دیکھا دیکھی ہمارے راولپنڈی کے مشہور ومعروف نالہ لئی کی طبیعت میں ابال آ گیا۔ تین آدمی سیلاب کی نظر ہو گئے۔ املاک کو نقصان ہوا۔ یہ نالہ سال بھر سویا رہتا ہے، برسات میں اچانک جاگتا ہے اور مردے کی طرح بولتا ہے تو کفن ہی
پھاڑتاہے‘‘ ضمیر جعفری اپنی کتاب ’’حفیظ نامچہ‘‘ میں ۱۵، اپریل ۱۹۵۲؁ء کو لکھی گئی اپنی ایک ڈائری میں چراغ حسن حسرت،مجید لاہوری اورحفیظ جالندھری کی نوک جھونک کو یوں بیان کرتے ہیں۔’’مولاناچراغ حسن حسرت اور مجید لاہوری آخری صفوں میں بیٹھے تھے۔مجیدتو چھیڑ خانی کر رہا تھا ایک لطیفہ حسرت صاحب نے بھی جڑ دیا۔حفیظ تاڑ گئے کہ مجید اور حسرت گڑ بڑ کر رہے ہیں۔انہوں نے حسرت صاحب کو مخاطب کر کے کہا’’حسرت صاحب آپ جیسا سخن فہم اتنی دُور جا بیٹھا،حضرت آگے آئیے مصرعے اُٹھائیے‘‘اس پر حسرت صاحب نے اپنی نشست سے اُٹھ کر کہا’’حاضر ہوتا ہوں میں نے عمر بھر مُردوں کو کندھا دیا ہے یا آپ کے مصرعے اُٹھاتارہا ہوں‘‘
فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور سید ضمیر جعفری جب یہ ڈائریاں لکھ رہے ہوں گے تو اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ اُن کی یہ ڈائریاں
ایک دن کتابی صورت میں شائع ہو کر ملک کی سیاسی اور ادبی تاریخ میں ہلچل مچادیں گی۔
 

Khalid Mustafa
About the Author: Khalid Mustafa Read More Articles by Khalid Mustafa: 6 Articles with 16702 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.