تو کردیں مگر ہر پہلو کو دیکھنا پڑتا ہے کیا کریں کسی کے
کہنے پر ثاقب نثار کی تعریف نہیں کر سکتے ،لیکن اگر کچھ سوالوں کے جواب مل
جائیں اور جواب دینے والے کو جواب دیتے وقت شرمندگی بھی نہ ہو تو کھڑے ہو
کرسابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار کا استقبال کرنے کوبھی ہم تیار
ہیں ،اب یہ سوالات انکی ریٹائیرمنٹ کے بعد اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ انکے
ہوتے ہوئے یہ سوالات جس نے بھی کیے اس پر توہین عدالت کا کیس بنا کر سزائیں
سنائی گئیں پاکستا ن کا میڈیا کبھی بھی پریزنٹ چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف
کوئی لفظ نہی بول سکتا بہت ساری مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں لیکن خیر آج جتنے
بھی سوالات اس کالم میں درج کروں گا وہ کوئی میرے ذاتی نہیں ہیں اور محض یہ
سوال ہی نہیں بلکہ سنگین الزامات ہیں جوسابق چیف جسٹس آف پاکستان پر لگائے
گئے تھے مگر اسکا جواب دینے کے بجائے الٹا سوال پوچھنے والے کو عدالت میں
طلب کرکے توہین عدالت لگا کر کبھی جیل بھیجاگیا کبھی سیاست سے آؤٹ کردیا
گیا اس بارے میں میری جب فیصل آباد کے سابق ایم این اے جناب میاں عبدالمنان
صاحب سے بات ہوئی تو انکا یہی کہنا تھا کہ آپ دیکھیئے گا پاکستان میں اب ہر
بندہ سوال اٹھائے گا یہ کس کس پر توہین عدالت کا کیس بنائیں گے ایک دن سچ
قوم کے سامنے آکر ہی رہنا ہے میں نے کہا جناب آپکی پارٹی مسلم لیگ ن کی
جانب سے بھی کوئی آج تک فائنل موقف سامنے نہیں آیا تو میاں منان صاحب نے
ایک شعر سنایا جس کی بعد میں تشریح بھی انہی نے خود ہی کی کہ ہمیں تو بات
کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیاہم پر اور میڈیا پر پابندیاں لگائی گئیں لیکن
تبدیلی ایک دن لوگ سمجھ جائیں گے بلکہ بہت سارے سمجھ بھی چکے ہیں ۔لیکن اب
بات لے کر آتے ہیں جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر جنہوں نے 21-july-2018 کو
ڈسٹرکٹ بار راولپنڈی میں اپنی تقریر کے دوران سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار
پر سنگین الزامات عائد کیے کہ خفیہ ایجنسیز کے بندے سپریم کورٹ میں اپنی
مرضی کے بینچ بنواتے ہیں ،کیسز کی مارکنگ ہوتی ہے،خفیہ ایجنسیز کے لوگو ں
نے میرے چیف جسٹس کو اپروچ کرکے کہا کہ الیکشن تک نواز شریف اور مریم نواز
کو جیل سے باہر مت آنے دینا جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بینچ میں شامل مت
کروپھر میرے چیف جسٹس نے کہا جس بینچ سے آپ ایزی ہیں ہم وہ بنا دیتے ہیں ،شوکت
عزیز صدیقی نے تو یہاں تک کہ دیا کہ مجھے یہ پتہ ہے کہ سپریم کورٹ میں کون
کس کے ذریعے پیغام لے کر جاتا ہے مگر بتانے کی زحمت نہیں کی ویسے اتنا کھل
کر اگر وہ بو لے تو اس بات سے ناجانے کیوں گھبرا گئے؟خیر باقی انہیں جو
آفرز ملی کہ آپ ہماری مرضی کے مطابق فیصلے دیں آپکو جلدی چیف جسٹس بنا دیں
گے یہ تک کہ ڈالا جسکے جواب میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں بیٹھے منصف جناب
ثاقب نثار صاحب کی جانب سے رد عمل آیا کہ یہ سنگین الزامات لگائے گئے ہیں
مگر میں قوم کو بتاتا چلوں آج کی عدلیہ ان سب پابندیوں سے آزاد ہے ہمیں
کوئی پیغام کسی طرف سے نہیں آتا اور یہ بات ثاقب نثار نے آئی ایس پی آر کی
جانب سے کی گئی ٹویٹ کے بعد کی ،اب ٹویٹ میں کہا گیا تھا کہ ہائی کورٹ کے
معزز جج کی جانب سے ملک کے اداروں پر سنگین الزامات عائد کیے گئے سپریم
کورٹ ایکشن لے کر حقائق سامنے لے کر آئے ۔اس تقریر کے بعد میں نے شاہ محمود
قریشی صاحب کو فون کال کی انسے موقف جاننے کی کو شش کی تو انہوں نے جواباً
کہا کہ یار میں تو اپنے الیکشن کی کمپین میں مصروف ہوں لیکن اگر شوکت عزیز
صدیقی نے یہ بات کہی ہے تو ن لیگ کے ساتھ مل کر ڈرامہ رچایا جا رہا ہے اور
ن لیگ جو کھیل کھیل رہی ہے اسکے نتائج بہت برے ہوسکتے ہیں اس لیے ثاقب نثار
نے اسکے خلاف ایکشن لے لیا ہے میں نے جب پوچھا کہ جناب ثاقب نثار صاحب پر
ہی الزامات لگائے گئے ہیں تو وہ کیسے فیئر ٹرائل اپنے خلاف ہونے دے سکتے
ہیں ؟ تو جواب میں شاہ صاحب بولے آپ کیسے سوال کر رہے ہیں وہ اس ملک کے چیف
جسٹس ہیں اگر ان پر ہی آپکو اعتبار نہیں ہوگا تو ملک میں انارکی پھیلے گی
جس پر میں نے کہا ٹھیک ہے شاہ صاحب آپ ٹھیک فرمارہے ہیں ہمیں اپنے چیف جسٹس
پر اعتبار ہے اور ہونا بھی چاہیے ،اسکے ساتھ ساتھ فیصل رضاعابدی کا کیس بھی
چل رہا تھا جنہوں نے چینل 5 کو انٹرویو ہوئے چیف جسٹس سے سوالات کیے جس کی
مد میں اس ٹی وی چینل پر بھی کیس بنے اور فیصل رضاعابدی توہین عدالت کیس کے
جرم میں جیل بھیج دیئے گئے میں نے اپنے پچھلے کالم میں بھی لکھا تھا کہ محض
ادارے کے ایک فرد پر الزام لگنے سے ادرارے کی توہین بالکل نہیں ہوتی مگر
کیا کر سکتے ہیں عدلیہ اپنے فیصلے لینے میں آزاد ہے سوال کا جواب نہ دیں
کوئی بات نہیں مگر سوال پوچھنے والے کو اٹھا کر جیل بھیج دینا بھی کہاں کا
انصاف ہے؟
جسٹس (ر) ثاقب نثار پر عموماً یہ الزام بھی رہتا تھا کہ یہ اپنے ادارے کا
کام چھوڑ کر دوسرے اداروں کے کاموں میں ٹانگ اڑاتے ہیں ،انہی کی عدالتوں
میں غریب روزانہ باقاعدگی سے ذلیل ہوتا ہے لاکھوں کیسزز پینڈنگ میں پڑے ہیں،
کبھی ڈیم بنانے کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی سکیمیں شروع کر دیتے کبھی یہ کسی
سیاست دان کی ایک بوتل شراب کی خبر سن کر اسپتال پہنچ جاتے پھر وہ شراب بھی
ثابت نہی کر پاتے یہ کیسے منصف ہیں ؟ یہ سارے الزام میڈیا پر بیٹھ کر جو
سیاست دان لگایا کرتے تھے وہ آج ماشااﷲ سیاست سے آؤ ٹ ہوکر اپنی نااہلی کی
سزا کاٹ رہے ہیں ۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر پاکستان کے سابق چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار صاحب
اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا جواب دیتے ناکہ الزام لگانے والوں کو جیل
میں منتقل کرتے پھر شاید ممکن ہوتا کہ ہسٹری میں ثاقب نثار کو بدلہ لینے
والا چیف جسٹس نہیں بلکہ انصاف کر نے والا منصف لکھا جاتا،اور ہم بھی اپنے
چیف جسٹس کو خراج تحسین پیش کر سکتے لیکن اسکاموقع ہی نہیں دیا گیا ۔
|