علامہ سید ظفرعلی شاہ مہروی
انسانیت کی معراج یہ ہے کہ آدمی اخلاق الہٰی اور آداب محمدی علیٰ صاحبھا
الصلوٰۃ والسلام کو اپنائے اور اپنی خواہشات اور چاہتوں کو اﷲ تعالی کی
چاہت پر قربان کردے،انسان کے پیش نظر ہروقت اور ہرحال میں اﷲ تعالیٰ کی ذات
رہے۔ یہ راہ بظاہر مشکل اور کٹھن ہے مگر جب آدمی کسی خدا رسیدہ اور اخلاق
خداوندی سے متصف شیخ کامل کی صحبت میں بیٹھتا ہے تو راستے کی ساری صعوبتیں
ختم ہوجاتی ہیں بلکہ سختیاں سالک کے لئے آسانیوں کا پیش خیمہ بن جایا کرتی
ہیں (فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا) یہ آیت
تنگی کے بعد دوہری آسانیوں کا پتہ دے رہی ہے۔علامہ اقبال علیہ الرحمۃ نے
کہا
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
سالک کی خوش نصیبی اور سعادت مندی ہوتی ہے کہ اس کو ایسی ہستی کی صحبت میسر
ہوجائے جو سلوک کے تمام راستوں سے واقف ہو اور دریائے معرفت ربانی کا پیراک
ہو۔ایسے مقبول خدا کا ہر بول رہتی دنیا تک سب انسانوں کی رہبری و رہنمائی
کرتا ہے اور تقدیریں بدل دیتا ہے۔بہت سے لوگ سیدناداتا گنج بخش قدس سرہ کی
کشف المحجوب اور مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمۃ کی مثنوی پڑھ کر کفر
وشرک اور معاصی کی ظلمتوں سے نکل کر ایمان کامل اور عمل صالح کے نور سے
منور ہوتے رہے اور اب بھی ہورہے ہیں۔اسی واسطے کہتے ہیں کہ جو شخص شیخ کامل
کی صحبت کو نہیں پاسکا وہ کاملین کے ملفوظات وکتب کا دل جمعی اور یکسوئی سے
مطالعہ کرے اس کو صحبت شیخ کا پورا پورا فائدہ حاصل ہوگا۔جو لوگ فنا فی اﷲ
اور فنا فی الرسول کے مدارج رفیعہ پر فائز ہوتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ اس کو
علوم لدنیہ سے نوازتا ہے اور ان کی زبان سے حکمت واسرار کے وہ جواہر برآمد
ہوتے ہیں جن کو قلب وجاں کا ہار بنا کر بندہ اُس ظاہری زندگی میں آراستہ
وپیراستہ ہوتا ہے اور پھر اپنے اِس حسن سے انسانوں کو سنوارتا ہے۔
اُنہی مقدس اور مبارک ہستیوں میں ہمارے شیخ مکرم رجال اﷲ کے سرخیل اور بحر
معرفت وحقیقت سیدنا ومرشدنا حضرت پیر سید غلام محی الدین گیلانی المعروف
بابو جی قدس سرہ العزیز کی ذات گرامی بھی ہے جن کے والد گرامی تاجدارِ
گولڑہ حضرت اعلیٰ سیدنا مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اﷲ علیہ علم وفضل کے سمندر
اور آسمان معرفت کے مہرتاباں ہیں جن کے حلقہ ارادت میں بڑے بڑے علماء کی
اکثریت اور اولیاء کی ایک بڑی جماعت نظر آتی ہے۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ نے عقیدہ
توحید اور تحفظ ناموس رسالت کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں جن میں فتنہ
قادیانیت کی سرکوبی تحریر وتقریر کے ذریعہ بہت اہم ہے۔ جب آپ رحمۃ اﷲ علیہ
کو اپنے بیٹے کی ولادت کی خبر لفظ ’’مبارک ‘‘ سے دی گئی تو آپ علیہ الرحمۃ
نے فرمایا ’’کہ لوگوں کو اپنے بیٹے کی پیدائش پر خوشی ہوتی ہے لیکن ہمیں اس
بات کی خوشی ہے کہ ہمارے گھر میں اﷲ اﷲ کرنے والی روح آگئی ہے‘‘۔آپ رحمۃ اﷲ
علیہ نے اپنے اس فرزند ِارجمند کی ظاہر ی و باطنی تعلیم پرخصوصی توجہ دی
نامور علمائے کرام دربار شریف میں موجود تھے اُن سے ظاہری تعلیم کا اہتمام
کرایا جبکہ باطنی تعلیم وتربیت خود فرمائی۔ایک مکتوب میں آپ کو قیمتی نصائح
فرماتے ہوئے یہ شعر لکھا
نمی گویم کہ از عالم جدا باش
بہر جائے کہ باشی باخدا باش
میں یہ نہیں کہتا کہ جہاں سے جدا ہوجاؤ بلکہ یہ کہتا ہوں کہ جس جگہ بھی رہو
باخدا رہو۔
لائق اور سعادت مند فرزند نے اِس نصیحت پر مکمل عمل فرمایا اور دیکھنے
والوں نے دیکھا کہ خلوت اور جلوت میں باخدا رہ کر اپنے وابستگا ن کی ایک
بڑی تعداد کو باخدا بنا دیا۔اس مختصر مضمون میں آپ علیہ الرحمۃکے کمالات کا
احاطہ ممکن نہیں۔ذیل میں ہم آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے بارے میں اُمت کے ہر طبقہ
سے تعلق رکھنے والے زعما کی آراء پیش کرتے ہیں جو محترم شورش کاشمیری مرحوم
نے آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے چہلم کے موقع پر اپنے معروف ہفت روزہ چٹان میں جمع
کی تھیں:’’تھا ان میں رنگ علی اور ان میں بوئے رسول ‘‘(حضرت علامہ
ابوالبرکات علیہ الرحمۃ بانی حزب الاحناف لاہور)’’آپ تربیت یافتگان رسالت
مآب کا مجسمہ تھے‘‘(ابوالحسنات علامہ سید محمود احمد رضوی)’’مظہر حق
وصداقت،حجت دین ہدیٰ‘‘(علامہ خلیل احمد قادری)’’اُن کی روئیں روئیں میں
اسلام ہی اسلام تھا‘‘(میاں محمد طفیل امیر جماعت اسلامی)’’اُن کا وجود
صداقت اسلام کی دلیل تھا‘‘(چوہدری غلام جیلانی امیر جماعت اسلامی
پنجاب)’’انہیں دیکھا تو گویا دیکھ لی رحمت پیمبر کی ‘‘(علامہ عبد العزیز
خالد )’’وہ خانوادۂ طریقت کا لعل شب چراغ تھے ‘‘(مولانا غلام اﷲ خان
راولپنڈی)’’فقرواستغناء کا نمونہ کامل تھے‘‘(نواب زادہ نصر اﷲ خان ) ’’اس
خدا کی زمین پر نور کا پیکر تھے وہ‘‘(محترم مجید نظامی ایڈیٹر نوائے
وقت)’’فقر اسلام کی دلیل محکم تھے‘‘(اقبال زبیری ایڈیٹر مشرق لاہور)’’وہ
آدمی تھا مگر دیکھنے کی تاب نہ تھی‘‘(شاعر اسلام احسان دانش)’’ایک انسان
امر بالمعروف کی آواز تھا‘‘(علامہ سید مظفر علی شمسی)(مجلہ ہفت روزہ چٹان)
حضرت بابوجی رحمۃ اﷲ علیہ کا اندازِ تربیت اخلاق محمدی علی صاحبھا الصلوٰۃ
والسلام کا آئینہ تھا۔انتہائی سہل اور ایجاز واختصار کے ساتھ دل میں اتر
جانے والے جملے تحریر وتقریرمیں تھے۔آپ کے مکتوبات شریفہ کا ایک مجموعہ
مطبوعہ ہے جس میں صرف اُن خطوط کو جمع کیا گیا ہے جو آپ علیہ الرحمۃ نے
اپنے دونوں صاحبزادوں حضرت سیدنا غلام معین الدین المعروف بڑے لالہ جی اور
حضرت سیدنا شاہ عبد الحق المعروف چھوٹے لالہ جی کو تحریر فرمائے جب وہ
جامعہ عباسیہ بہاول پور میں حضرت شیخ الجامعہ مولانا غلام محمد گھوٹوی کے
ہاں زیر تعلیم تھے وہ خطوط انتہائی اہم ہیں۔ایک ایک جملہ ہدایت کا چمکتا
ہوا ستارہ ہے۔وہ پڑھنے کے لائق ہے۔ اس مجموعہ کا نام’’ فرمودات مسافر چند
روزہ‘‘ہے جس میں ایک سو ایک مکتوبات درج ہیں آستانہ عالیہ گولڑہ شریف سے
دستیاب ہے ۔افادہ عام کے لئے ہم صرف تین خطوط میں سے کچھ اقتباسات ذیل میں
درج کر رہے ہیں جن کے پڑھنے سے انسان کے دل میں اپنے مالک حقیقی کی محبت
اور اس سے قلبی تعلق قائم کرنے کا سلیقہ آتا ہے،دنیا کی بے ثباتی عیاں ہوتی
ہے خلق خدا کی بلا امتیاز خدمت کا درس ملتا ہے علم دین کی اہمیت اور اُس کے
نافع ہونے کی وضاحت ہوتی ہے۔بندہ کو اپنے مولا کی بندگی کرنے کی نورانی
تعلیم دی جاتی ہے اور یوم آخرت کے لئے ابھی سے تیاری کرنے کا درس ملتا ہے۔
مکتوب نمبر1:۔عزیزا! وقت بہت نازک جارہا ہے۔اِس مستعار زندگی کا کچھ اعتبار
نہیں۔اس مسافر خانے میں جتنا ٹھہرنا ہو اپنے آپ کو مسافر ہی سمجھ کر
ٹھہرو۔اﷲ کی مخلوق کو آرام بحسب الطاقت پہنچاؤ۔اﷲ کی یاد کو دل میں جگہ
دو۔اﷲ سے ہی واسطہ رکھو۔اﷲ سے ہی دل لگاؤ جو کام کرو اسی کی رضامندی لے
کرکرو۔موت کے لئے ہر وقت تیار رہو۔جس طرف جانا ہے اس طرف خیال رکھو۔غرباء
ومساکین کی خدمت کرو۔صاحبزادے نہ بنو۔جس قدر کوئی برا کہے اس پر تم خوش
ہو۔بدلہ کسی سے نہ لو۔علم اصلی کے حصول کی کوشش کرو۔اس دنیائے ناپائیدار
میں اﷲ کو اپنا رفیق بناؤ۔جو پڑھو اس پر عمل کرو۔لنگر کا ہر طرح سے خیال
رکھنا۔مزار اقدس کی حاضری کو اپنی سعادت سمجھنا۔نماز باجماعت کا اہتمام
رکھنا۔کسی مسافر کو تکلیف نہ ہو۔لنگر میں رہنے والوں کا اپنے آپ کو خادم
سمجھنا۔ادب کی نعمت کو ہاتھ سے نہ جانے دینا، کیونکہ اس کے جانے سے محرومی
آتی ہے۔
مکتوب نمبر2:۔
اﷲ تجھے مع اپنے بھائی کے اپنا کرے۔اپنی ہی محبت میں ہمیشہ سرگرداں کرے۔اس
چند روزہ مسافر خانے میں جتنا رہنا ہو اسی کے بن کے رہو۔اس کی مخلوق کی
خدمت کرو۔اس کی رضا کے موجبات حاصل کرو۔وقت کو قیمتی سمجھو۔اس کی قدر کرو
جو جارہا ہے یہ پھر ہاتھ نہ آئے گا۔پیچھے پچھتاؤ گے پشیمان ہوگے۔ہستی جس کی
ہے اسے دو،جو چیز تمہاری ہے وہ تم لونیستی تمہاری چیز ہے اسے بے شک تم
لو۔ہر وقت مالک کا ہی دھیان رکھو جو علم اس کی طرف لے جائے اسے حاصل کرو۔آج
کل کی زہریلی ہواؤں سے بچو۔بھائی کی بہبودی میں کسی قسم کا تغافل نہ کرو اس
کو اپنا بازو سمجھو۔مل کر یاد خدا اور خلق خدا کی خدمت میں کمر باندھو اس
ناپائیدار دنیا میں میں اسی کی یاد کے لئے آئے ہو مگر یاد وہ یاد جو کہ فی
الواقعہ یاد ہو جو کہ صفت دل کی ہے نہ زبان کی۔وہ دل میں رہنے والاہے اسی
لئے دل اسی کو دو۔جان ودل سے اسی کے ہو کر رہو۔اس کی ہر رضا پر شاکر
رہو۔تکلیفیں خود اٹھاؤ۔اس کی مخلوق کو آرام دو۔مالک کو خوش کرنے کی رات دن
سعی کرو۔ ایک دم بھی اس کوغافل نہ ہو۔’’ہتھ کار ول دل یار ول‘‘ اس کا مصداق
بننے کی کوشش کرو۔خدا اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کو
سب سے مقدم سمجھو۔دل اسی کا مقام ہے اسی لئے اس میں بغیر اس کے کسی اور کو
جگہ مت دو۔اسے ہی اپنا حقیقی مالک وکارساز ہر حال میں سمجھو۔اصلی تعلق اسی
اپنے مالک سے پیدا کرو اور عارضی تعلق اس کی مخلوق سے،مگر یہ بھی اس حیثیت
سے کہ یہ مخلوق اسی کی مخلوق ہے۔مالک الملک سے تعلق پیدا کرنے سے ہمیشہ
آرام میں رہو گے۔دائمی زندگی حاصل کرو گے۔اصلی زندہ کہلانے کے مستحق اس وقت
ہوگے جس وقت تم نے اس زندہ سے تعلق پیدا کر لیا۔بہر کیف بہر حال اسے نہ
چھوڑواسے اپنی کسی غرض کے لئے یاد نہ کرو جب یاد کرو تو اسے اپنا رب اور
مالک سمجھ کر یاد کرو وہ دانا ہے۔باحکمت ہے۔وہ ہماری سب ضرورتیں جانتا
ہے۔جو ہمارے مناسب ہوتی ہیں وہ ہمیں دے دیتا ہے۔جس نے تمہیں نابود سے برنگ
بود کرکے ظاہر فرمایا جو تمہاری سب ضرورتوں کا کفیل ہے۔تم کو رات دن اسی کے
خیال میں رہنا چاہئے۔تم زندہ رہو تو اسی کی خاطر تم مرو تو اسی کے لئے تم
کھاؤ تو اسی کے لئے تم پہنوتو اسی کے لئے،غرض کہ جو کچھ کرو اسی کے لئے
کرو۔اس کے مقبول بندوں کی غلامی ہمیشہ کے لیئے اپنا فرض سمجھو۔اپنی خداداد
عقل کو قال اﷲ اور قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق کام میں
لاؤ۔سلف صالحین کے طریقہ کو ہی صراط مستقیم سمجھو۔اسی پر چلنے کو فلاح
دارین یقین کرو،غرض کہ جو کچھ ہے وہی ہے اسی کے ہو کر رہو۔عزیزا! جو تم نے
لکھا کہ ہم غریب الوطن ہیں کیا تم یہ بتا سکتے ہو کہ اگر تم یہاں گولڑہ میں
رہو تو پھر غریب الوطن نہ ہو گے۔نہیں عزیز تمہارا اور ہمارا در اصل اصلی
وطن اور ہے جس طرف ہم نے آخر ایک نہ ایک دن ضرور جانا ہے۔اِس عالم شہادت
میں ہم جہاں بھی رہیں غریب الوطن ہیں۔ہم سب مسافر ہیں اصلی وطن کی طرف جانے
کے لئے ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔اور اسی لئے تمہیں حصول علم کے لئے
لگایا گیا۔جس طرح تمہارا اصلی وطن اور ہے اسی طرح تمہارا اصلی مقصد بھی اور
ہے ۔اپنے آپ کو اﷲ کی راہ میں وقف کردو۔اسکی مخلوق کی خدمت کرنے کی کوشش
کرو۔جہاں بھی رہو باخدا رہو اور مسافرانہ زندگی اختیار کرو۔
|