مسئلہ کشمیر کے تینوں فریقوں یعنی کشمیری قیادت، پاکستان
اور بھارت نے اپنے اپنے موقف کے حق میں اس قدر فاش اور بڑی غلطیاں کی ہیں
کہ وہ اندرون خانہ ان پر ضرور پچھتاتے ہوں گے۔ بھارت جوکشمیر کو اپنا اٹوٹ
انگ قرار دیتا ہے اس مسئلہ کو اقوام متحدہ میں لے جانے پراس وقت کے
وزیراعظم نہرو کو ضرور کوستا ہوگا کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آج یہ مسئلہ
عالمی تنازعہ کی صورت اختیار نہ کرتا۔ اسے اس پر بھی غصہ ہوگا کہ نہرو نے
کیوں لال چوک سری نگر میں کھڑے ہو کر کشمیریوں سے یہ وعدہ کیا تھاکہ انہیں
رائے شماری کا موقع دیا جائے گا۔ بھارت اس بات پر افسوس کرتا ہوگا کہ 1971ء
میں پاکستان کے دو لخت ہونے جانے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کیوں اس مسئلہ کو
ختم نہ کیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شملہ معائدہ کرتے وقت اندراگاندھی نے پوری
کوشش کی کہ مسئلہ کشمیر کو ختم کیا جاسکے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی حکمت
عملی اور سفارت کاری کامیاب رہی اور جموں کشمیر ایک حل طلب مسئلہ کی صورت
میں موجود رہا۔بھارت جو سلوک کشمیری عوام سے کررہا ہے کیا ویساسلوک اپنے
ملک میں کہیں اور بھی کررہا ہے؟
مسئلہ کشمیر کا دوسرا فریق پاکستان ہے جو سرکاری طورپر اسے ایک حل طلب
مسئلہ قرار دیتے ہوئے کشمیری عوام کے حق خود آرادیت کی حمایت کرتا ہے جبکہ
نیم سرکاری طور پر کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر
کو حاصل کرنے کے پاکستان کو کئی سنہرے مواقع ملے لیکن ارباب اختیار کی
ناکام حکمت علمی کی وجہ سے ضائع ہوگئے۔تقسیم ہندوستان کے وقت ریاست جموں
کشمیر برصغیر کی ان ریاستوں میں شامل تھی جس نے اپنے مستقبل کا فیصلہ
پاکستان ، بھارت یا خود مختار رہنے کے لئے کرنا تھا۔ اس وقت ریاست جموں
کشمیر کا رقبہ 222236 مربع کلومیٹر تھا جس میں بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر،
آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور اکسائی چین کے علاقے شامل تھے۔ ریاست
حیدرآباد دکن نے اپنی آزادی اور خود مختاری کا اعلان کیا جسے پاکستان نے
قبول کیا اور مشتاق احمد خان پاکستان میں حیدر آباد کے سفیر مقرر ہوئے۔
حیدرآباد ایک سال تک آزاد ملک کی حیثیت سے رہا جس پر بعد میں بھارت نے قبضہ
جما لیا لیکن پاکستان 1958ء تک حیدرآباد کو ایک ملک کے طور پر تسلیم کرتا
رہا اور اس کے سفیر کا نام غیر ملکی سفیروں میں شامل رہا۔ ریاست جموں کشمیر
کا حکمران مہاراجہ ہری سنگھ بھی ریاست کو خود مختار رکھنا چاہتا تھا۔ اس نے
بھارت کے ساتھ وہی معائدہ کرنا چاہا جو اس کا برطانوی ہند کے ساتھ تھا لیکن
بھارت نے قبول نہ کیا لیکن پاکستان نے 12 اگست 1947ء میں مہاراجہ کشمیر کے
ساتھ سٹینڈ سٹل ایگری منٹ کرلیا۔ اس معائدہ کے بعد دفاع، مواصلات اور
امورخارجہ حکومت پاکستان کے پاس چلے گئے ۔ قیام پاکستان کے موقع پر 4 اگست
کوریاست جموں کشمیر کے تمام ریلوے اسٹیشنوں، ڈاکخانوں اور دوسرے وفاقی
اداروں پرپاکستانی پرچم سرکاری طور پر لہرایا گیا اور خود مہاراجہ کشمیر نے
اْسے سلامی دی اس طرح ریاست جموں کشمیر ایک پکے ہوئے پھل کی طرح پاکستان کی
گود میں آگرا لیکن یہ معائدہ قائم نہ رہ سکا۔ ان سوالات کا جواب تلاش کرنا
چاہیے کہ سیالکوٹ سے جموں جانے والی ریل کو کس کے حکم سے بند کیا گیا۔ریاست
کو خوارک اور دوسری ضروری اشیاء کی فراہمی کس نے بند کروائی۔ شیخ عبداﷲ کے
جی ایم صادق کی سربراہی میں اکتوبر1947 ء میں بھیجے ہوئے وفد کو لاہور میں
قائد اعظم سے کیوں ملنے نہیں دیا گیا بلکہ اس وفد میں شامل ایک رکن کامریڈ
شفیع پر تشدد کرکے ان کے دانت توڑدیئے گئے۔آزادکشمیر کے صدر سرادر ابراہیم
کو کی قائد اعظم سے ملاقات کیوں نہ ہونے دی گئی۔ آزادکشمیر کے نگران اعلیٰ
چوہدری غلام عباس کو قائد اعظم سے آخری بار کس نے نہ ملنے دیا۔ قبائلی حملہ
کیوں اور کس کے حکم سے ہوا اور اگر یہ ناگزیر بھی تھا تو اسے سیالکوٹ اور
شکرگڑھ کی طرف سے کٹھوعہ کی جانب کیوں نہ کیا گیا جہاں سے صرف ایک سڑک
ریاست کو بھارت سے ملاتی ہے اور بھارت کا راستہ بند ہوجاتا۔ قائد اعظم کے
ارشادات کے برعکس کیوں کشمیر پالیسی اختیار کی گئی اور اقوام متحدہ کی پہلی
قرادراد جو کہ15 اگست 1948 ء میں پاس ہوئی تھی اس میں قائد اعظم کی وفات کے
بعد کیوں وزیر خارجہ ظفراﷲ خان نے ترمیم کروا کے۵ جنوری 1949ء کی قراداد
منظور کی جس میں حق خود آرادیت کو محدود کردیا گیا۔ قائد اعظم نے یہ کیوں
کہا کہ ’’کشمیرکے معاملے میں ہم نہ صرف صحیح بس بھی کھو بیٹھے ہیں بلکہ غلط
بس میں بٹھا دیئے گئے ہیں ‘‘ ۔پاکستان کے لئے ریاست جموں کشمیر کو حاصل
کرنے کا ایک اور سنہری موقع چین اور بھارت کی 1962 ء کی جنگ کے موقع پر تھا۔
بجائے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے پاکستان نے بھارت کو مشترکہ دفاع کی پیش
کش کردی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی حکرانوں کی نااہلی، بے حسی، نیم دلانہ
پالیسی اور مجرمانہ غفلت نے خود کشمیر کوکھو دیا جس کا خمیازہ اب بھگتنا پڑ
رہا ہے۔
کشمیری عوام اس مسئلہ کے بنیادی اور اہم فریق ہیں اور خود ان کی قیادت کی
فاش غلطیوں نے یہ مسئلہ حل نہیں ہونے دیا اور اس آغاز اس وقت ہی ہوگیا تھا
جب کشمیری عوام نیشنل کانفرس اور مسلم کانفرس میں تقسیم ہوگئے تھے۔ شیخ
عبداﷲ اور چوہدری غلام عباس اگر متحد رہتے تو ممکن ہے آج صورت حال مختلف
ہوتی۔آزاد کشمیر کے سیاستدان آزاد خطہ کو تحریک آزادی کا حقیقی معنوں میں
بیس کیمپ بنانے کی بجائے مظفرآبا دکے اقتدار کے لئے شرمناک کشمکش کا شکار
رہے۔ معائدہ کراچی کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو جدوجہد آزادی سے بری الذمہ
کرلیا او ر رہی سہی کسر آزاد کشمیر کے عبوری ایکٹ 1974 نے پوری کردی۔ عالمی
سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں آزادکشمیر حکومت کا کوئی کردار نہ
رہا جس کا نتیجہ عالمی حمایت سے محرومی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس
ساری صورت حال کے باوجود مسئلہ کشمیر آج بھی زندہ ہے اور اس مسئلہ کا حل
تلاش ہی کرنا پڑے گا۔ بھارت کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ کشمیری عوام
کو ان کی منشا کے خلاف اور جبر سے اپنے زیر قبضہ نہیں رکھا جاسکے گا اور
اسے کشمیری عوام کی رائے کا احترام کرنا ہی پڑے گا۔ پائیدار اور مستقل حل
وہی ممکن ہے جو کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق ہو اور جو پاکستان اور بھارت
بلکہ چین کے لئے بھی قابل قبول ہو نہ صرف جموں کشمیر کا ہمسایہ ہے بلکہ اس
کے زیر انتظام ریاست کا سینتیس ہزار مربع کلومیٹر سے زائدعلاقہ بھی موجود ہ
ہے ۔ وہ حل کسی کی فتح یا شکست سے ہٹ کر ہو تاکہ جنوبی ایشیا کے عوام غربت
سے نکل کر امن کے ساتھ رہ سکیں اور اس کے لئے رائے ہموار کرنے کی اشد ضرورت
ہے۔ کچھ مزید حقائق اور تفصیلات کے لئے اگلے کالم تک انتظار فرمائیں۔
|