جناب ولی عہد کا دورہ پاکستان اور عالم اسلام

پوری پاکستانی قوم محمد بن سلمان کے بطور ولی عہد کے خوش آمدید کہتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی علما کو اور سب کو محمد بن سلمان سے یہ بھی گزارش کرنی چاہیے کہ اصلاحات کے نام پر جس راستے پر آپ نکل کھڑے ہوئے ہیں یہ راستہ خدانخواستہ اسلام اور سعودی عرب کو بہت نقصان پہنچائے گا لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سعودی جیلوں میں قید ہزاروں علما کو رہا کر دینا چاہیئے اور ایسے اقدامات سے گزیر کرنا چاہیَے جواسلام کے مخالف ہوں۔

ولی عہد کا دورہ پاکستان

سعودی عرب اور پاکستان کے باہمی تعلقات کی ایک روشن تاریخ ہے قیام پاکستان سے لے کر اب تک سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہماری قوم اس سخت وقت کو کب بھلا سکتی ہے جب ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد ہمیں عالمی سطح پر پابندیوں اور تنہائی کا سامنا تھا ان حالات میں بھی پوری دنیا سے اگر پاکستان کا کسی نے ہاتھ تھاما تو وہ سعودی عرب ہی تھا نا صرف پاکستان کی تیل کی ضروریات کو پورا کیا گیا بلکہ ہر میدان میں کھل کر پاکستان کی مدد کی گئی اسی طرح اگر سعودی حکمرانوں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو سب حکمرانوں نے پاکستان سے تعلقات کو فروغ دینے کے حوالے کوششیں کیں اس حوالے سے شاہ فیصل کا تاریخ کا اہم باب ہے انہوں نے نا صرف پاکستان کے قابل قدر خدمات انجام دیں بلکہ عالم اسلام کے اتحاد کے لئے بھی ان کی کوششوں کو ہمیشہ تحسین کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اسی طرح اسرائیل کے خلاف بھی شاہ فیصل کے اقدامات تاریخ کا ایک حصہ ہیں ان ساری باتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اس حقیقت کوبھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں نے بہت سی پالیسیوں کو تبدیل کر دیا ہے جس سے نا صرف عالم اسلام کو نقصان پہنچا ہے بلکہ خود اسلام کو بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔اس کی وجہ سعودی خاندان کے اندرونی اختلافات ہیں یہ اختلافات پہلے بھی تھے لیکن عام طور پر پردے میں ہی رکھے جاتے تھے لیکن شاہ سلمان کے حاکم بادشاہ بننے کے بعد اقتدار کے حصول کے لئے بے چین شہزادے محمد بن سلمان کے اقدامات کے بعد یہ اختلافات پوری دنیا کے سامنے آ گئے ۳۳ سالہ شہزادے نے اقتدار کے حصول کے لئے ہر اس شخص کا دروازہ کھٹکھٹایا جو تھوڑی سی بھی مدد کر سکتا تھا اس سلسلے میں شہزادے کی سب سے زیادہ مدد امریکی صدر ٹرمپ نے کی۔اسی لئے بہت آسانی سے نائف کو راستے سے ہٹا دیا گیا اور محمد بن سلمان پہلے مرحلے میں وزیر دفاع بنے اس کے بعد ولی عہد کے عہدے پر فائز ہو گئے اور عملی طور پر سعودی عرب کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے-

جہاں تک اقتدار کے حصول کی بات ہے تو یہ ایک عام بات ہے اور ہر ایک ملک میں اقتدار کے حصول کے لئے رسہ کشی جاری رہتی ہے لیکن سعودی عرب کے حوالے سے اصل مسئلہ اس وقت سامنے آیا جب ان کی مدد کرنے والوں نے ایسے ایسے اقدامات کے لئے محمد بن سلمان کو راضی کیا کہ جو یقینا اسلام کے لئے بہت خطرناک تھے ان میں سے سب سے پہلا اقدام سعودی عرب کو بے دینی کی طرف دھکلینا تھا اس مقصد کے حصول کے لئے محمد بن سلمان نے وژن ۲۰۳۰ کا اعلان کیا جس کے تحت مختلف شعبوں میں اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے تحت ناصرف سعودی عرب میں میوزک کنسرٹس کی اجازت دی گئی بلکہ سرکاری سطح پر سینماز اور شراب خانے تک کھولے گئے۔ایک ایسے ملک میں جہاں سے اسلام کا اغاز ہوا تھا شراب خانے کھلنا اور بے حیائی کی کھلے عام اجازت کے بعد علما اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے محمد بن سلمان کے ان اقدامات کے خلاف آواز اٹھائی جس کی پاداش میں ہزاروں علما کو سعودی عرب کے مقامی علما سے بھر دیا گیا اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سرکاری سطح پر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ سعودی عوام محمد بن سلمان کی اصلاحات کے عمل سے خوش ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عوامی سطح پر اثر و رسوخ رکھنے والے علما کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے اس لئے نام نہاد اصلاحات کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھتی اب تو صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ جیلوں میں قید علما کو جان سے مارا جا رہا ہے گزشتہ دنوں سعودی عرب کے معروف شیخ الحدیث احمد العمری کو جیل میں شہید کر دیا گیا۔

پوری پاکستانی قوم محمد بن سلمان کے بطور ولی عہد کے خوش آمدید کہتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی علما کو اور سب کو محمد بن سلمان سے یہ بھی گزارش کرنی چاہیے کہ اصلاحات کے نام پر جس راستے پر آپ نکل کھڑے ہوئے ہیں یہ راستہ خدانخواستہ اسلام اور سعودی عرب کو بہت نقصان پہنچائے گا لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سعودی جیلوں میں قید ہزاروں علما کو رہا کر دینا چاہیئے اور ایسے اقدامات سے گزیر کرنا چاہیَے جواسلام کے مخالف ہوں۔

 

ڈاکٹر سید وسیم اختر
About the Author: ڈاکٹر سید وسیم اختر Read More Articles by ڈاکٹر سید وسیم اختر: 26 Articles with 21444 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.