تحریر۔۔۔چوہدری ناصر گجر
پرانے وقتوں میں مداری لوگوں کو اکٹھا کرتا پھر ایک مجمع لگا کے کرتب
دکھایا کرتا تھا۔ اس کرتب میں ایک چھوٹا معصوم بچہ بھی شامل ہوتا تھا لوگوں
کو لطف اندوز کرنے کیلئے مداری بچے کو کہتا ، بچہ جمہورا گھوم جا ، بچہ
گھوم کے جواب دیتا تھا بچہ گھوم گیا اور اس کے بعد مداری بچے کو کہتا تھا
بچہ جھوم جا بچہ جھوم کر کہتا تھا بچہ جھوم گیا ۔ پھر مداری اسے مختلف کرتب
کرنے کو کہتا تھا اور وہ مداری کا حکم اپنا مالک سمجھ کر بجا لاتا ۔خوش ہو
کر لوگ اسے پیسے دیتے تھے ،بچہ وہ پیسے اکٹھے کر کے مداری کو دیتا تھا ۔ اس
بچے کے گھر ان پیسوں میں سے تھوڑا سا حصہ ہی جاتا تھا ۔ پاکستان میں بھی
جمہور یعنی عوام کو بچہ جمہورا بنایا ہوا ہے اور اس کا تماشا دکھانے والے
سیاستدان ہیں جو اس بچہ جمہورا کا خون تک چوس رہے ہیں کبھی بچہ جمہورا کو
کہا جاتا ہے تم سندھی ہو ، بلوچی ہو ، پٹھان ہو ، مہاجر ہو کبھی اسے شیعہ
سنی کہا جاتا ہے ۔اور اس طرح پاکستان میں بسنے والے کروڑوں بچہ جمہوروں کو
آپس میں لڑایا جاتا ہے ان کی سوچ کو پنپنے نہیں دیا جاتا ان کی کمائی خود
ہڑپ کر لی جاتی ہے ۔ ہر بازار میں چور بازاری گرم ہے ، چاہے وہ عدل کا
کاروبار ہو ، تحفظ کا کاروبار ہو، صحت کا کاروبار ہو کہ ضروریات زندگی کا
کوئی بھی شعبہ ہو، سب میں ٹیکسوں کی مد میں تو کہیں کرپشن کی مد میں اور
مہنگائی کا کہہ کر عوام کی جیبیں کاٹی جا رہی ہیں ۔ اور اس کی وجہ وہ وعدے
ہیں جو عوام کے ساتھ انتخابات کے دوران انتہائی معتبر انداز میں بڑے الفاظ
میں کئے جاتے ہیں۔انہیں اس بات کا یقین دلایا جاتا ہے کہ اگر بچہ جمہورے کے
روشن مستقبل کی کنجی کسی کے ہاتھ میں ہے تو وہ صرف انہیں کے پاس ہے۔ لیکن
افسوس کہ بچہ جمہورے کی قسمت میں صرف ذلالت، رسوائی ، غریبی ، مفلسی اور
محتاجی ہی آتی ہے ہاں البتہ مقتدر طبقہ یہ جانتا ہے کہ بچے جمہورے پر
حکمرانی رکھنی ہے تو جنگل کا قانون نافذ کرو، یہ بچہ جمہورا گھر کی رکھوالی
کرنے والے کتے کی مثال ہے ، کہ چاہے جتنا مرضی اسے مارو ، اس پر ظلم کرو
لیکن ہمیشہ مالک کا وفادار رہے گا۔ وہ جانتا ہے کہ عوام الناس کا ناس اسقدر
مر گیا ہے کہ انہیں کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنا مشکل رہ گئی ہے ، غلامی
کی زنجیر ٹوٹتی نہیں دکھائی دیتی ، ان کے شعور کو زنگ لگ چکا ہے اور ان کے
دلوں میں دھڑکن تو ہے لیکن زندگی نہیں رہی۔ بس یہ ہمارے اشاروں پر بھاگ
سکتی ہے جس جانب ہم اشارہ کر دیں ، جس جگہ ہم ٹکڑے پھینک دیں بس دوڑے چلیں
آئیں گے، چاپلوسی اور خوشامد نے قابلیت چھین لی ہے، مفلسی نے ایمان کمزور
کر دیا ہے، چوری کی ریت اوپر سے چل کر نیچے تک آتی ہے تو بخت و برکت اٹھ
گئی ہے، جھنگ کے معروف شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
ہو کا عالم ہے چار سو شفقت
سر پہ گٹھڑی دھری ہے سانسوں کی
فقط سانسیں چل رہی ہیں ، مگر زندہ ضمیری نہ رہی اور اشرافیہ کی دوکانیں
چمکتی جا رہی ہیں۔ قحط الرجال کا شکار فہم و دانش سے عاری عوام اور ان کے
حکمران بس استحقاق کی جنگ میں مگن آنکھیں موندے اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں
اور ان کو جگانے ، جھنجھوڑنے والا کوئی نہیں ۔ اس عوام کی مثال پالتو ہاتھی
سی ہے جسے بچپن میں ایک لوہے کی زنجیر سے باندھا جاتا ہے جو اس کی طاقت سے
قدرے مضبوط ہوتی ہے اور بارہا کوشش کرنے کے باوجود وہ اسے توڑ نہیں سکتا ۔
لیکن جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا ہے تو اسے قدرے آہنی زنجیر سے باندھا جاتا ہے
لیکن وہ آہنی زنجیر بھی اس کی طاقت کے سامنے بہت حقیر ہوتی ہے لیکن وہ ایک
بات جو بچپن سے اس کے دماغ میں بیٹھ جاتی ہے کہ وہ زنجیر کو کبھی نہیں توڑ
سکتا اس کی آزادی کی حسرت کی کرن کو ظلمت کی لکیر میں بدل دیتی ہے ۔ وہی
بات آج ہماری عوام میں بھی ہے ، یہ سیاسی مداریوں کا وہ بچہ جمہورا بن کر
رہنا چاہتی ہے جو اسے بچپن میں بنایا جاتا ہے۔ اس کے دماغ میں یہ بات بیٹھ
چکی ہے کہ سیاست اور اقتدار صرف اشرافیہ کا کام ہے اور اس کا کام صرف اس کی
رعایا بن کر زندگی گزار دینا ہے۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اشرافیہ نے اپنے
لئے الگ سے قانون مقرر کر رکھے ہیں ، ایک بچہ جمہورا اگر مرغی چوری کر لے
تو جیل میں سڑتا رہتا ہے جبکہ اشرافیہ ملک کی جڑیں کھوکھلی کر کے اربوں
روپے بھی غبن کر جائے تو اسے پوچھنے والا کوئی نہیں ۔نام نہاد احتساب کے
نام پر ان کے محلوں کو ہی سب جیل کا درجہ دے دیا جاتا ہے ۔ بچہ جمہورا کو
کبھی بے دردی سے راؤ انوار سے اور کبھی عابد باکسر سے قتل کروایا جاتا ہے
اور کبھی ساہیوال کی سڑکوں پر کھلے عام قتل کر دیا جاتا ہے، تو کبھی ماڈل
ٹاؤن میں پیدا ہونے والے بچے تک کو مار دیا جاتا ہے۔ جبکہ اشرافیہ اور ان
کے بچے بلکہ ان کے کتے بھی پر تعیش زندگی گزارتے ہیں اور تھر میں بچہ
جمہورا بھوک سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہا ہے۔اگر کوئی اس نظام کے خلاف آواز
بلند کرتا ہے تو اس کو بھیانک انجام سے دو چار کر دیا جاتا ہے۔ اس نے نہ تو
کبھی یہ سوچنے کی کوشش کی ہے کہ انہیں کی طاقت ہی بنیادی طور پر مقتدر و
اشراف کی طاقت ہے ۔ ان کا درد و غم سینے میں لئے انتہائی تڑپ کے ساتھ کہا
گیا شاعر ملک شفقت اﷲ شفی کا ایک اور شعر آپ کی نذر کرتا ہوں :
روز و شب وحشتوں سے لڑتا ہوں
آگ میں بے بسی کی جلتا ہوں
ایسے زندہ دل لوگ بہت کم ہیں لیکن وہ سوائے آواز بلند کرنے کے اور کیا کر
سکتے ہیں ، نہ تو کسی کو حرام کھاتے ہوئے ان کے منہ سے چھین سکتے ہیں اور
نہ ہی مرنے والوں کو زندہ کر سکتے ہیں ، ہاں مگر ایسے مردہ دلوں کیلئے
تحریک کا کام ضرور کر سکتے ہیں۔ اب وقت آن پڑا ہے کہ بچہ جمہورے اپنی خودی
کو پہچانیں ، اپنے حق کو پہچانیں ، آزادی کو پہچانیں اور اس کو مثبت سمت
میں استعمال کرتے ہوئے اپنا مستقبل روشن کرنے کیلئے اقدامات کریں ۔
|