اسلامی جمہوریہ پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات
میں قیام پاکستان سے اب تک معمولی سردی گرمی آتی رہی ہے ۔لیکن مجموعی طور
پر سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات مثالی رہے ہیں ۔ دونوں ممالک کے درمیان
1951ء میں دوستی کے معاہدے پر دستخط کئے گئے۔ اس کے بعد سے دونوں برادر
ممالک کے درمیان تجارتی، دفاعی اوراقتصادی تعلقات مسلسل بہتری کی طرف گامزن
ہیں۔دنیا میں سعودی عرب واحد ایسا ملک ہے جہاں 22 لاکھ سے زیادہ پاکستانی
موجود ہیں جو کسی بھی ملک میں اوورسیز پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد
ہے۔سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا ۔پاک بھارت
کے درمیان لڑی جانے والی 1965 ء کی جنگ ہو ،افغانستان پر روسی یلغار کی وجہ
سے مہاجرین یاپناہ گزینوں کی پاکستان میں بحالی ہو ،پاکستان کو کسی بھی
قدرتی آ فت کا سامنا ہو، سب سے پہلے سعودی عرب نے پاکستان سے دوستی کے
فرائض نبھائے ۔
خاص کر صدر ایوب اور شاہ فیصل کے دور حکومت میں دونوں ممالک کے درمیان
دوستانہ تعلقات گہرے ہوئے ۔اسی طرح پاکستان نے بھی مشکل حالات میں ہمیشہ
سعودی عرب کا ساتھ دیا ہے ۔1990ء میں خلیج جنگ کے دوران 15ہزار پاکستانی
سپاہی سعودی عرب میں مقدس مقامات کی حفاظت پر مامور رہے ہیں ۔ جنرل پرویز
مشرف اور سابقہ صدرآصف زرداری کے دور حکومت میں پاکستان اور سعودی عرب کے
درمیان تعلقات میں سرد مہری رہی ۔ جس کا نواز شریف کی حکومت میں آنے سے
خاتمہ ہوا۔سعودی عرب اورپاکستان دوبھائی ہیں۔ان کے درمیان اسلام کاگہرا
رشتہ تو ہے ہی دونوں ممالک کے درمیان باہمی احترام، تعاون اور اعتماد کا
رشتہ بھی مضبوط ہے۔
عمران خان کی حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے اس کی ترجیح اسلامی مماک سے
دیرینہ تعلقات کی بحالی رہا ہے ۔اب تک عمران خان نے زیادہ تر اسلامی ممالک
کے ہی دورے کیے ہیں ۔وزیراعظم عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے
کے بعد اپنا پہلا سرکاری دورہ سعودی عرب کا کیا تھا جہاں ان کا پرتپاک خیر
مقدم کیا گیا۔ سعودی عرب نے 3 ارب ڈالر سٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھوائے
ہیں جن کا مقصد ادائیگیوں میں توازن کے حوالے سے پاکستان کی معاونت کرنا
ہے۔عمران خان کی کوشش رنگ لا رہی ہے ۔سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان
کی پاکستان آمد اس کی ایک کڑی ہے ۔سعودی ولی عہد کو اس دورے کی دعوت
وزیراعظم عمران خان نے دی تھی۔ محمد بن سلمان 16 فروری کو ایک بہت بڑے وفد
کے ساتھ 2 روزہ دورے پر پاکستان آرہے ہیں وفد کی تعداد ایک ہزار بتائی جاتی
ہے ۔جن میں سعودی عرب کی اہم ترین شخصیات شامل ہوں گی۔
پاکستان کی جانب سے سعودی ولی عہد کا استقبال شاندار طریقے سے کیا جائے گا
۔وزیراعظم عمران خان سعودی ولی عہد محمد سلمان کا ائیرپورٹ پراپنی کابینہ
کے ہمراہ خود استقبال کریں گے۔وفد اور شہزادے کی رہائش و طعام اورسکیورٹی
انتظا مات مکمل ہو چکے ہیں ملاقات کاشیڈول طے کیا جا چکا ہے ۔سعودی عرب سے
آنے والے مہمانوں کے لیے دو بڑے نجی ہوٹلز کے ساتھ ساتھ پنجاب ہاؤس میں بھی
انتظامات کیے جا چکے ہیں۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ڈاکٹرز کی
ٹیم اور ان کے دورے کی کوریج کے لیے سعودی ذرائع ابلاغ کا وفد بھی پاکستان
پہنچ چکا ہے۔
یہاں ایک بات قابل توجہ ہے کہ پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف جو
کہ اس وقت اسلامی فوجی اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں۔ اس دورہ میں سکیورٹی
انتظامات کی نگرانی کر رہے ہیں ۔جس کے لیے وہ چند دن قبل پاکستان پہنچے اور
آرمی چیف آف اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے جی ایچ کیو میں ملاقات
کی۔اسلامی فوجی اتحاد کے وفد کا پہلا دورہ ہے جس میں وہ سیاسی و عسکری
قیادتوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں ۔اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ جنرل (ر)
راحیل شریف وزیراعظم عمران خان سے بھی خصوصی ملاقات کریں گے۔ اسلامی فوجی
اتحاد کے قیام کا اعلان بھی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے 15
دسمبر 2015 ء کوکیا تھا جس میں ابتدائی طور پر 34 ممالک شریک تھے، بعدازاں
اس کی تعداد 41 تک پہنچ چکی ہے۔اسلامی فوجی اتحاد کے قیام کا مقصد اسلامی
ممالک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کوششیں کرنا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ فخر کی بات ہے اسلامی فوجی اتحاد کے پہلے سربراہ پاکستان
سے ہیں ۔ پاکستانی حکومت و عوام کی طرف سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی
پاکستان آمدپر امید کی جا رہی ہے اس دورے سے ملک میں ترقی کی نئی راہیں
کھلیں گی اور دو طرفہ تعلقات میں بہتری آئے گی ۔یہ دورہ ایک خوشگوار احساس
لیے ہوئے ہے ۔جس سے ان شا اﷲ ملک ترقی کی جانب گامزن ہوگا۔سعودی ولی عہد کا
یہ دورہ اس وقت ہونے جا رہا ہے جب پاکستان معاشی حوالے سے مشکلات کا شکار
ہے۔شہزادہ محمد بن سلمان کے موجودہ دورہ پاکستان کے دوران مختلف معاہدے طے
پانے کا امکان ہے۔
سعودی عرب نے دیامر بھاشا، مہمند ڈیم منصوبوں کے لئے بھی فنڈز دینے کا
فیصلہ کیا ہے۔سعودی عرب کی جانب سے امدادی پیکج کے علاوہ گوادر میں دنیا کی
تیسری بڑی آئل ریفائنری لگائی جارہی ہے۔اس حوالے سے گزشتہ روز سعودی وزیر
پٹرولیم نے گوادر کا دورہ کیا۔سعودی وزیر پٹرولیم و انرجی خالد بن
عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ سعودی عرب ولی عہد کے حالیہ دورہ پاکستان میں
تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کرے گا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد
چوہدری نے بھی ایک پریس کانفرنس کے دوران سعودی ولی عہد کے اس د ورے کو
سرمایہ کاری کے لحاظ سے ملکی تاریخ کا اہم ترین دورہ قرار دیاہے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان پڑھے لکھے
حکمران ہیں۔ دونوں کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں ۔ ملک کو جدید خطوط کے مطابق
چلانا چاہتے ہیں محمد بن سلمان نے سعودی معاشرے سے کرپشن کے ناسورسے پاک
کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔بالکل اسی طرح عمران خان کرپشن کے خاتمے کے
لیے پاکستان میں جد وجہد کر رہے ہیں ۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے 28 اپریل
2015ء کو اپنے نئے شاہی فرمان کے ذریعے شہزادہ محمد بن نایف کو ولی عہد اور
اپنے بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد مقررکیا۔ 2007ء کو انہیں
سعودی کابینہ میں کونسل کا مشیر مقرر کیا گیا ۔
انہوں نے 2009ء تک اس عہدے پر کام کیا۔ 16 دسمبر 2009ء انہیں امیر ریاض کا
خصوصی مشیر مقرر کر دیا گیا۔ 3 مارچ 2013ء کو شاہی فرمان کے تحت انہیں ولی
عہد کے شاہی دیوان کا منتظم مقرر کیا گیا اورانہیں ایک وزیر کے برابر رتبہ
دے دیا گیا۔بعد ازاں وزیر دفاع کے دفترکا سپروائزر بنایا گیا۔ 25 اپریل
2014ء کو شاہی فرمان کے تحت انہیں وزیر مملکت، پارلیمنٹ کارکن اور 18 ستمبر
2014ء کو شاہ عبد العزیز بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین کا اضافی چارج
بھی سونپا گیا۔ایک سال بعد خادم الحرمین الشریفین کا مشیر خاص اور شاہی
دیوان کا منتظم اعلیٰ مقرر کیا گیا۔
ان کا حالیہ دورہ پاکستان بہت اہمیت کا حامل ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت
پوری دنیا کے میڈیا کی نگاہیں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں ۔شہزادہ محمد بن
سلمان دورہ پاکستان کے دوران پاکستانی قوم سے بھی خطاب کریں گے۔ولی عہد
شہزادہ بن سلمان بن عبدالعزیز کا حالیہ دورہ پاکستان کے لیے بہت سی
کامیابیاں لائے گا، ملک ترقی کی جانب گامزن ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاک
سعودیہ دوستی میں ایک نئے باب کا اضافہ بھی ہوگا۔
|