جھوٹی گواہیاں---------نظام عدل کی تباہیاں

سپریم کورٹ کی جانب سے جھوٹی شہادتوں پر سزائیں نہ دئیے جانے کی ذمہ دار ماتحت عدلیہ قرار

PLD-1984-SC-44 سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں قرار دیا ہے کہ جھوٹی گواہی ایک بہت بڑا سماجی اور اخلاقی جُرم ہے ۔جھوٹی گواہی نہ صرف قانون کے تحت قابل گرفت ہے بلکہ جھوٹی گواہی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ جھوٹی شہادت یا جھوٹی گواہی ایک ایسی بیماری ہے جو سماجی و عدالتی نظام تباہ کردیتی ہے۔ایسا شخص جو جھوٹی گواہی کی وجہ سے کسی شخص کو اُس کی جائیداد سے محروم کردے یا جھوٹی گواہی سے کسی شخص کو زندگی سے محروم کردے یا جھوٹی گواہی سے کسی بے گناہ کی زندگی کوعذاب بنا دے ایسا شخص کسی صورت کسی قسم کی رعائیت کا مستحق نہیں ہے۔عدالتوں کے نرم رویے کی وجہ سے اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ جھوٹی شہادت دینے والے اِس کو کوئی جُرم تصور نہیں کرتے ۔عدالتوں کو جھوٹی گواہی کے رُحجان کو سختی سے نمٹنا چاہیے اور جھوٹی گواہی دینے والوں کو قانون کے مطابق سخت سزا دینی چاہیے۔اِس حوالے سے سزا دینے سے بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔اِسی طرح 1192MLD-1827 کے مطابق سیکشن 193 پی پی سی جان بوجھ کر گواہی دینے والوں کو سزا کے متعلق ہے۔اِ س قانون کے دو حصے ہیں۔ اِس کا پہلا حصہ اِس حوالے سے ہے کہ جان بوجھ کر جھوٹی گواہی عدالتی کاروائی کے دوران دی جائے۔دوسرا حصہ اُس کے متعلق ہے کہ عدالتی عمل کے علاوہ گواہی دی ہو۔ تشریح نمبر ایک کے مطابق عدالت کے سامنے کاروائی جوڈیشل پروسیڈنگ ہے ا ور تشریح نمبر دو کے مطابق تفتیش کے عمل میں جھوٹی کاروائی ہے۔جھوٹی گواہی کا کیس کرنے کے حوالے سے اِس بات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ بادی النظر میں جھوٹی گواہی عدالتی عمل کے دوران یا جھوٹی تفتیش، تفتیشی عمل کے دوران کی ہو۔

پاکستان پینل کوڈ 1860 PPC سیکشن 193تا 214 غلط گواہی دینے یا سچی شہادت چھپانے کی پاداش میں سزایئں دینے کا اختیار ٹرائل کورٹ کے پاس ہے۔ اِسی طرح دوسرا قانون،سی آر پی سی 1898، کے سیکشن195 (B)(C) اور سیکشن 476 ہے۔اِسی طرح باب نمبر 35-A کی منشا کے مطابق جرائم کی سزا کا طریقہ کار وضع کرتاہے۔ اِسی بابت تیسرا قانون انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 27 میں جھوٹے گواہ کو دو سال کی قید ہے۔اِسی طرح چوتھا قانون نیشنل اکاونٹیبلٹی آرڈینینس 1979کے سیکشن 30 کے تحت ٹرائل کورٹ کو اختیار ہے کہ وہ مقدمے کے فیصلے کے بعد کسی بھی وقت اگر فیصلے کے خلاف اپیل دائر ہوتو اپیل کے فیصلے کے بعد یا پھر مدعی یا ملزم کی درخواست پر فیصلہ آنے کے 30 دن کے اندر اندر جھوٹے گواہ یا تفتیشی کے خلاف قانونی کاروائی کا آغاز کریں۔ یہاں پر PPC 176 TO 182, 191 TO 204, 211 TO 223,225-A لاگو ہیں۔ اِسی طرح پانچواں قانون، کو ڈ آف سول پروسیجر کوڈ 1908 کا سیکشن35-A جھوٹا کلیم یا جھوٹا دعویٰ کرنے پر سول کورٹ کو یہ اختیار ہ دیتاہے کہ وہ وہ جھوٹا دعویٰ کرنے والے پر فیصلے پر ہرجانہ عائد کردے۔

جھوٹی گواہی اور جھوٹی ایف آئی آر درج کرانے پر سزائیں نہ ملنے کی وجہ سے ملک کی سول اور سیشن عدالتوں میں جھوٹی گواہی دینے والے کرائے کے گواہوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہو گیا ہے۔ جھوٹی گواہی اور جعلی مچلکے دینے والے ایجنٹ عدالتوں کے باہر دندناتے پھر رہے ہیں۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 193 کے تحت جھوٹی گواہی دینے والے مجرم کو سات برس قید سے لیکر عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے لیکن قتل، ڈکیتی جیسے سنگین مقدمات میں بھی جھوٹی گواہی دینے والے کسی مجرم کو سزا نہیں مل سکی۔ دفعہ 182 کے تحت جھوٹی ایف آئی آر درج کرانے والے ملزم کو 6 ماہ تک قید اور جرمانے کی سزا ہوتی ہے لیکن ایسے ملزم کو بھی سزا نہیں دی گئی۔ قذف کے قانون اور قانون شہادت پر آج تک عملدرآمد نہیں کیا جا سکا۔ لاء آف ٹارٹ میں جھوٹی ایف آئی آر کے حوالے سے سزا ور ہرجانے کا قانون موجود ہے لیکن اس کا استعمال بھی دیکھنے میں نہیں آتا۔عدالت عظمیٰ نے استغاثہ کی کمزوری اور شہادتوں میں تضاد ات کی بناء مشہور مقدمہ کی ملزمہ آسیہ بی بی کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے اس کی اپیل منظور کی اور لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے اسکی سزائے موت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر آسیہ بی بی پولیس کوکسی اور مقدمہ میں مطلوب نہیں تواسے جیل سے رہا کر دیا جائے۔ فیصلے میں کہاگیاہے کہ گواہوں کے بیانات میں تضادہے، نبی ﷺ کے نام پر جھوٹ بھی توہین رسالت ہے، ایف آئی آر وقوع کے 5 دن بعد درج ہوئی، 35 افراد موجود تھے، گواہی صرف 2 بہنوں نے دی، دباؤ پر اعتراف جرم کی قانونی حیثیت نہیں، تفتیشی نے اپنی صفائی کیلئے آسیہ کو بائبل پر قسم اٹھانے کی اجازت نہیں دی، کسی کو پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی ایسا کرنیوالا سزا سے بچ سکتا ہے، بعض عناصر ذاتی مفادات کیلئے قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

ٹرائل کے ذریعے جرم ثابت ہونے تک ہر شخص بے قصور تصور کیا جاتا ہے، بعض شخصیات کو بھی توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کی حقیقت اُجاگر کرنے پر سنگین نتائج بھگتنا پڑے، سزا دینے کا اختیار صرف ریاست کے پاس، کسی شخص کو حاصل نہیں۔ فاضل عدالت نے فیصلے میں تحریرکیا کہ کسی کو بھی پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی ایسا کرنے والا سزا سے بچ سکتا ہے، لیکن ایسے معاملات کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ بعض عناصر ذاتی مفادات کیلئے اس قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے دوسروں پر توہین رسالت یا توہین ِ مذہب کا جھوٹا الزام بھی عائد کردیتے ہیں۔ فاضل عدالت نے لکھا ہے کہ 1990ء سے اب تک تو ہین مذہب کے الزامات کی وجہ سے ملک میں 62 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکاہے جبکہ بعض ممتاز شخصیات کو بھی توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کی حقیقت کو اجاگر کرنے پر سنگین نتائج بھگتنا پڑے ہیں، عدالت نے اپنے فیصلے میں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں توہین رسالت کے الزام میں ساتھی طلبہ کے ہاتھوں قتل ہونے والے مشال خان کے کیس کا ذکر بھی کیا ہے، عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ اس حوالے سے ایوب مسیح کا کیس بھی قابلِ ذکر ہے۔ فاضل عدالت نے تحریر کیا ہے کہ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ اسلام دیگر انسانوں کے ساتھ امن و آشتی سے رہنے اور برداشت کا سبق دیتا ہے،اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک منصفانہ ٹرائل کے ذریعے کسی کیخلاف جرم ثابت نہیں ہوتا، اس وقت تک ہر شخص بے قصور تصور کیا جاتا ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب، رنگ اور نسل سے ہی کیوں نہ ہو، عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ کسی کو سزا دینے کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے اور کسی شخص کو قانون اپنے ہاتھ میں لے کر کسی کو سزا دینے کا اختیار نہیں ۔

کسی ملک کے امن و سکون کو جانچنا ہے تو اس ملک کے عدالتی نظام کا مطالعہ کر لیجیے۔ اگر عدالتیں بروقت اور سستا انصاف مہیا کررہی ہیں تو ملک امن و شانتی کا گہوارہ ہوگا، بصور ت دیگر جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ عظیم دوم کے دوران کسی نے برطانوی وزیراعظم چرچل کو بتایا کہ دشمن کے جہاز لندن پر شدید بمباری کر رہے ہیں۔ چرچل نے یہ نہیں پوچھا کہ ہمارے فائٹر طیارے کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں، بلکہ اس نے سوال کیا کہ کیا ہمارا عدالتی نظام ٹھیک کام کر رہا ہے؟ جواب ہاں میں آیا تو چرچل نے کہا، اگر ایسا ہے تو پھر فکر کی کوئی بات نہیں۔ دشمن ہم پر حاوی نہیں ہوسکتا۔برطانیہ میں نصف صدی قبل بھی عدالتیں انصاف مہیا کررہی تھیں مگر ہمارے عدالتی نظام کی حالت انتی دگرگوں ہے کہ آج بھی اعلیٰ عدلیہ کے ججز افسوس کرتے نظر آتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے فوجداری مقدمات کی سماعت کے دوران عدالتی نظام کی خرابیوں پر ریمارکس دیے کہ عدالتی نظام انتہائی خراب ہے۔ جھوٹے گواہوں کی بھرمار ہے۔ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جھوٹی گواہی کی بنیاد پر ٹرائل کورٹ پھانسی کی سزا دیتی ہے، ہائی کورٹ عمر قید کی سزا دیتی ہے جبکہ سپریم کورٹ سے ملزم بری ہوجاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ جھوٹی گواہی پر سزا دینے والے ججوں سے بھی پوچھ گچھ ہوگی؛ اور جھوٹی گواہی دینے والوں کو بھی سزائیں ہونگی۔ جس طرح لاہور میں ہیلمٹ نہ پہننے والے چند لوگوں کے چالان ہوئے تو سارا شہر ٹھیک ہوگیا۔ اسی طرح جلد ہی جھوٹے گواہوں کو پکڑیں گے اور جھوٹی گواہی پر سزا نہ دینے والے ججوں سے بھی باز پرس ہوگی۔جسٹس کھوسہ نے جھوٹی گواہی کے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک انگریز جج نے پنجاب کے متعلق فیصلہ دیا تو اس نے فیصلے میں لکھا کہ دنیا کے ہر کونے میں مرتا ہوا انسان سچ بولتا ہے، مگر پنجاب میں مرتا ہوا انسان بھی جھوٹی گواہی دے کر دو تین لوگوں کو پھنسا کر جاتا ہے۔ جسٹس کھوسہ کے ریمارکس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی عدالتوں میں انصاف صرف اس کو ملتا ہے جس کے پاس لاٹھی ہے یا پیسہ ہے۔ اگرچہ اﷲ تعالی نے قرآن مجید میں سچی گواہی دینے کا حکم دیا ہے، خواہ اس سے انسان کے والدین اور رشتہ داروں کو نقصان ہی کیوں نہ پہنچے۔ لیکن ہم کیسے مسلمان ہیں کہ اﷲ کے حکم کی پیروی کی بجائے حکم عدولی کر رہے ہیں، اور جھوٹی گواہیاں دے کر بے قصوروں کو سزائیں دلوا رہے ہیں۔ جبکہ اس بارے میں واضح احکامات ہیں کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں۔ اس حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو جھوٹی گواہی دینے والا مسلمان ہی نہیں رہتا۔

جسٹس کھوسہ نے مزید کہا ہے کہ ماتحت عدالتیں تقریباً ہر مقدمے میں پھانسی کی سزا سناتی ہیں۔ مقدمہ بریت کا ہوتا ہے لیکن ٹرائل کورٹ عمر قید کی سزا سنا دیتی ہے۔ ججز کیس کو بغیر پڑھے ہی فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو نیند کیسے آتی ہے۔ کیا انہیں کوئی ڈر خوف نہیں کہ خدا کو بھی جواب دہ ہوناہے۔ اگر ماتحت عدلیہ کو یہی کچھ کرنا ہے اور انصاف اعلیٰ عدلیہ ہی کو فراہم کرنا ہے تو ماتحت عدلیہ کو بند کر دینا چاہیے۔ اگر انصاف نہیں ملتا تو منصف کو کرسی پر بیٹھنے کا بھی کوئی حق نہیں۔یہ وہ چند خامیاں ہیں جو سپریم کورٹ کے جج نے خود بتائیں، لیکن ہمارے عدالتی نظام کی برائیاں اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ ہمارا عدالتی نظام گل سڑ چکا ہے۔ اگرچہ اعلیٰ عدالتوں سے تھوڑا بہت انصاف ملتا ہے، لیکن جب تک انصاف ملتا ہے تب تک لوگوں کی زندگیاں بیت چکی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ماضی قریب میں سپریم کورٹ سے ایک عمر قید کے ملزم کو بے گناہ قرار دے کر بری کردیا۔ جب اس کی بریت کے آرڈر متعلقہ جیل میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ تو دو سال قبل ہی وفات پاچکا ہے۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جن میں بے گناہ قیدی کئی دہائیوں تک قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بالآخر ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے بے گناہ قرار دے دیے جاتے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ جو ناحق سزا انہوں نے کاٹی اس کا ذمہ دار کون ہے؟ جھوٹا پرچہ کاٹنے والا، جھوٹی گواہی دینے والا، یا جھوٹی سزا دینے والا؟ ہمارے عدالتی نظام کی سب سے بڑی خرابی تو یہی ہے کہ کسی ملزم کو بری کرتے ہوئے الزام لگانے والے کو کوئی سزا نہیں سنائی جاتی۔ جھوٹی تفتیش کرنے والے پولیس افسر کو کچھ نہیں کہا جاتا۔ ٹرائل کورٹس میں جھوٹی گواہیوں کی بنیاد پر غلط سزائیں دینے والے ججوں سے کوئی باز پرس نہیں کی جاتی۔ یہ وہ سب سے بڑی خامی ہے جس سے شریر لوگ فائدہ اٹھاتے ہوئے بے گناہ اور شریف لوگوں کو پھنساتے ہیں اور مالی فوائد حاصل کرتے ہیں۔دراصل ہمارے عدالتی نظام کو اوورہالنگ کی ضرورت ہے، جس کے لئے سب سے ضروری امر یہ ہے کہ اگر کسی کیس میں بریت دی جائے تو الزام لگانے والے کو سزا دی جائے۔ جھوٹی گواہی دینے والے والوں کے لئے عمر قید کی سزا رکھی جائے تو زیادہ فائدہ مند ہوگا۔ مزید یہ کہ غلط پرچہ کاٹنے اور غلط تفتیش کرنے والے پولیس افسر کو بھی سزاوار ٹھہرایا جائے توہمارا عدالتی نظام سیدھی ڈگر پر آجائے گا۔

سپریم کورٹ نے زیادتی کیس کے ایک ملزم کو 8 سال بعد بری کر دیا ہے ۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خاتون سے زیادتی سے متعلق کیس کی سماعت کی جس دوران عدالت نے متاثرہ خاتون کے والد کی جھوٹی گواہی پر اظہار برہمی کیا، چیف جسٹس نے ریمارکس جاری کرتے ہوئے کہا کہ منصف کایہ کام نہیں خودکوبچاتے ہوئے دوسروں کوسزادے، جج کاکام انصاف کرناہے جوانصاف نہیں کر سکتے وہ گھرچلے جائیں، ہائیکورٹ بہت بڑی عدالت ہوتی ہے، جب تک ان جھوٹے گواہوں سے نہیں نمٹیں گے انصاف نہیں ہوسکتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں ہائیکورٹ نے شواہد کونظر اندازکیا، کیس کے مرکزی گواہ اورمدعی نے جھوٹی گواہی دی، جھوٹی گواہی پرملزم کوسزائے موت ہو سکتی تھی، بشیرصاحب کیوں ناجھوٹی گواہی پرآپ کوعمرقیدکی سزاسنادیں، عدالت کاکام تفتیش کرنانہیں، تفتیشی افسرکوپتہ ہوتا ہے کون سچاکون جھوٹاگواہ ہے۔

ا تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو انسان سے باہمی ربط دے کر ایک دوسرے کی ضرورت بنایا ہے، بعض دینی اور دنیاوی معاملات میں بسا اوقات ایسی صورتیں بھی سامنے آتی ہیں کہ صاحبِ معاملہ کسی پر کسی چیز کا دعویٰ کرتا ہے کہ یہ میرا حق ہے لیکن تنہا اُس کے اقرار یا دعوے یا بیان کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا۔ اس لیے نہیں کہ وہ ناقابل اعتبار ہے بلکہ اس لیے کہ اگر محض دعوے اور بیان کی رُو سے کسی کی کسی بھی چیز پر حق، ثابت ہو جایا کرے تو دنیا سے امان اُٹھ جائے اور لوگوں کا جینا دو بھر ہوجائے۔حضور اقدس ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ’’اگر لوگوں کو محض، دعوے کی وجہ سے دے دیا جایا کرے تو کتنے ہی لوگ خون اور مال کا دعویٰ کر ڈالیں گے، ولیکن مدعی (دعوے دار) کے ذمے بَینہ (گواہ) ہے اور مُنکر پر قسم۔‘‘ (مسلم و بیہقی)تو ظاہر ہوا کہ مدعی اپنے دعوے کے ثبوت، یا اپنے کسی حق کو ثابت کرنے کے لیے حاکم اسلام کی مجلس میں ایسے اشخاص کو پیش کرے جو اس کے دعوے کی تصدیق کریں۔ لفظ شہادت کے ساتھ کسی کی تصدیق کرنے یا سچی خبر دینے کو شہادت یا گواہی کہتے ہیں۔ پھر چوں کہ شہادت بھی شرعاً ایک خاص اعزاز و منصب ہے۔ اس لیے ہر کس و ناکس نہ اس شہادت کا اہل ہے اور نہ ہی کوئی ایرا غیرا گواہی کے لیے موزوں۔ اس کے اہل وہی ہیں جن کی سیرت و کردار پر معاشرے کو اطمینان ہو اور جو اپنے اخلاق و دیانت کے لحاظ سے بالعموم لوگوں کے درمیان قابل اعتماد سمجھے جاتے ہوں۔ جن کی بات پر اعتبار کیا جاتا ہو اور جن کی دیانت کم از کم عام طور پر مشتبہ نہ ہو۔قرآن کریم میں ارشاد ہوا: ’’ایسے گواہ جن کو پسند کرو‘‘ اور ظاہر ہے کہ ایک مسلمان، اس طرح کے ہی کو گواہ بنانا اور اس کی گواہی کو قبول کرنا پسند کرے گا جو اُس کے نزدیک متقی، عادل اور قابل اعتبار ہوں اور جن کے صالح ہونے پر اُسے اعتماد ہو، اور جو عاقل، بالغ، آزاد اور دین دار ہوں۔اسلام نے مسلمان عورتوں کو بھی یہ حق دیا اور عورت کی گواہی کو مشروط قابل قبول مانا۔ شریعتِ مطہرہ کے مطابق جب مدعی گواہوں کو طلب کرے تو انہیں گواہی چھپانا جائز نہیں۔ مدعی کے طلب کرنے پر گواہی دینا لازم ہے بل کہ اگر گواہ کو اندیشہ ہو کہ اگر میں نے گواہی نہ دی تو صاحبِ حق کا حق تلف ہوجائے گا یعنی اُسے معلوم ہی نہیں ہے کہ فلاں شخص معاملے کو جانتا ہے تو اُسے گواہی کے لیے کیسے طلب کرے گا۔ اس صورت میں بغیر طلب بھی گواہی دینا لازم ہے۔

البتہ حدود میں یعنی حدود کی گواہی میں دو پہلو ہیں ایک ازالہ مُنکر یعنی بُرائی کا ازالہ اور رفع فساد کہ معاشرہ میں فساد برپا نہ ہو اور دوسرا مسلمان کی پردہ پوشی۔ اس لیے حدود کی گواہی میں گواہ کو اظہار و اخفاء کا اختیار ہے کہ پہلی صورت اختیار کرے اور گواہی دے تاکہ مجرم اپنی سزا کو پہنچے یا پھر دوسری صورت زیادہ بہتر ہے۔ حدیث شریف میں فرمایا جو مسلمان کی پردہ پوشی کرے۔ تبارک و تعالیٰ دنیا و آخرت میں اُس کی ستاری کرے گا۔ (اور اُس کے جرم پر پردہ ڈال دے گا)۔ہاں جس پر جُرم ثابت ہوچکا وہ بے باک و بدلحاظ ہو، حدود شرعیہ کی محافظت نہ کرتا ہو ا ور مسلمان اس کے کرتوتوں سے نالاں ہوں اور اس کی غلط روی سے دوسروں کے اخلاق و عادات اور کردار کے خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو پہلی صورت اختیار کرے تاکہ لوگ اس کی شرارتوں اور بد کرداریوں سے محفوظ رہیں۔ ایسے ہی چوری میں مال لینے کی شہادت دینا واجب ہے تاکہ جس کا مال چوری ہوگیا ہے اُس کا حق تلف نہ ہو۔ اتنی احتیاط کرسکتا ہے کہ چوری کا لفظ نہ کہے۔ اتنا کہنے پر اکتفاء کرے کہ اُس نے فلاں شخص کا مال لیا یہ نہ کہے کہ چوری کی۔ اس طرح احیاء حق بھی ہوجاتا ہے اور پردہ پوشی بھی۔ (درمختار، روالمحتار وغیرہ)

حدیث پاک میں ہے رسول ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ’’جھوٹی گواہی بُت پُوجنے کے برابر کی گئی۔ جھوٹی گواہی بُت پرستی کے برابر کی گئی۔ جھوٹی گواہی، شرک کے برابر کر دی گئی۔‘‘ تین بار یہ فرما کر حضور اکرم ﷺ نے یہ آیت اُس کی سند میں پڑھی کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’بتوں کی ناپاکی سے بچو اور جھوٹی بات سے بچو۔ اﷲ تعالیٰ کے لیے باطل سے حق کی طرف مائل ہوجاؤ۔ اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ وغیرہما)حدیث شریف میں ہے کہ رسول ﷺ فرماتے ہیں: ’’جھوٹے گواہ کے پاؤں جگہ سے ہٹنے نہ پائیں گے کہاﷲ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔‘‘ (ابن ماجہ)اور بیہقی حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی ہیں کہ فرمایا: ’’جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے ، حالاں کہ یہ گواہ نہیں۔ وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمے کی پیروی کرے، وہ اﷲ کی ناخوشی میں ہے۔ جب تک اُس سے جدا نہ ہو جائے۔‘‘ اور ایک حدیث شریف میں ہے کہ جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اُس نے گواہی چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کیا وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔‘‘ (طبرانی)

البتہ اتنا یاد رکھنا چاہیے کہ مندرجہ ذیل افراد کی گواہی شرعاً مقبول و معتبر نہیں۔٭ کافر کی گواہی مسلم کے خلاف اور مرتد کی گواہی اصلا مقبول نہیں۔ دو لوگوں میں دنیاوی عداوت ہو تو ایک کی گواہی دوسرے کے خلاف۔جو شخص گناہ کبیرہ کا ارتکاب یا صغیرہ پر اصرار کرتا ہو کہ وہ اس کی عادت سی ہوگئی ہے۔ بچے کی گواہی اور ایسے لوگوں کی گواہی جو دنیاوی باتوں سے بے خبر رہتے ہیں۔ جس پر حد قذف قائم کی گئی ہے۔ جس کا جھوٹا ہونا مشہور ہے یا جھوٹی گواہی دے چکا ہے۔ زوج و زوجہ میں سے ایک کی گواہی دوسرے کے حق میں اور اگر ایک دوسرے کے خلاف ہوں تو مقبول ہوجائے گی۔اولاد کی گواہی ماں باپ، دادا دادی کے حق میں اور اُن کی گواہی اولاد کے حق میں۔ کسی کا ری گر کے پاس کام سیکھنے اور اس کی کفالت میں رہنے والوں کی گواہی، اُستاد کے حق میں۔گویّے، گانے والی یا بہ طور پیشہ نوحہ کرنے والی عورت۔ جو شخص اٹکل پَچوّ باتیں اڑاتا ہو۔ جو کثرت سے قسم کھاتا یا اپنے بچوں کو یا دوسروں کو گالی دینے کا عادی ہو۔ جس کا پیشہ دلالی ہو کہ کثرت سے جھوٹ بولتا ہے۔تھانے کچہری کا پیشہ کرنے والے جو خود جھوٹ بولتے اور دوسروں کو تلقین کرتے ہیں، کی گواہی بھی قابل قبول نہیں۔مرُغ بازی، کبوتر بازی اور دوسرے ایسے ہی کھیل کود میں وقت گنوانے والے۔ جو شخص گناہ و حرام کی مجلس میں بیٹھتا ہے اگرچہ وہ خود اس حرام کا مرتکب نہیں۔ سود خور، جواری، علی الاعلان شطرنج کھیلنے والا۔ بغیر عذر شرعی نماز روزہ قضا کرنے والا یا جماعت ترک کرنے والا۔ جب کہ کوئی عذر شرعی نہ ہو۔ حقیرو ذلیل افعال میں گرفتار و مشغول رہنے والا۔ مثلاً راستے میں پیشاب کرنا۔ راستے یا بازاروں میں کوئی چیز لوگوں کے سامنے کھانا، صرف پاجامہ یا تہ بند پہن کر، بغیر کرتا پہنے یا بغیر چادر اوڑھے عام گزرگاہ پر چلنا۔ لوگوں کے سامنے پاؤں دراز کرکے بیٹھنا، ننگے سر ہوجانا جہاں اس کو خفیف الحرکتی، بے ادبی و بد شرمی تصور کیا جاتا ہو۔ جو شخص بزرگان دین، پیشوایانِ اسلام مثلاً صحابہ و تابعین، و ائمہ اہل بیت اطہارؓ، خصوصاً امام حسینؓ شہید کرب و بلا اور ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہم کو بُرے الفاظ سے علانیہ یاد کرتا ہو، اس کی گواہی بھی مقبول نہیں۔ ان ہی بزرگان دین سلف صالحین میں امام اعظم ابوحنیفہؒ بھی ہیں۔ (در مختار۔ روالمحتار، عالمگیری)

قارئین اکرام : ذرا تصور فرما ئیں جس معاشرے کا عدالتی نظام جھوٹ کی پیداوار ہو وہاں امن و آشتی کیسے قائم ہو سکتی ہے۔ مغرب امریکہ جن کو ہم کافر تصور کرتے ہیں اور خود کو ہم مومن گردانتے ہیں وہاں کا معاشرتی نظام امن و آشتی کا گہوارہ صرف اِس لیے ہے کہ اُن قوموں کے ہاں انصاف ہے اور انصاف حاصل کرنے کی سب سے اہم سیڑھی جھوٹی شہادتوں کا نہ ہونا ہے۔ پاکستانی نظامِ حکومت سے لے کر کسی عام سے شخص کی زندگی کا احاطہ کر لیں برکت ، نظر نہیں آتی وجہ صرف یہی ہے کہ نام تو ہم خدائے واحد کا لیتے ہیں لیکن جھوٹی گواہیاں دینے اور لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں اِس لے ہمارے معاشرے میں ایک عام کیس تیس چالیس سال تک چلتا ہے۔ انصاف نہ ہونے کی وجہ جھوٹی شہادتیں ، جھوٹی تفتیش اور جھوٹ کا سہارا لے کر عدلاتی کاروائی کو طوالت دینا ہے۔ اِس لیے جب کوئی پاکستانی شخص بیرون ملک چلا جاتا ہے تو واپس پاکستان آکر اُس کے لیے آباد ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ پاکستان میں قدم قدم پر نا انصافیاں ہیں تفتیشی عمل میں جھوٹ، عدالتی گوا ہی میں جھوٹ۔ اِس لیے کہ وہ جن مملک میں وقت گزاراتا ہے وہاں انصاف ہے جہاں انصاف ہوتا ہے وہاں ہی انسانیت کی قدر ہوتی ہے۔اِس لیے اگر پاکستان کا عدالتی نظام جھوٹے گواہوں کے خلاف سختی سے نمٹے، جھوٹے تفتیشی عمل کے کرداروں کو قرار واقعی سزا دے تو یقین کیجیے پاکستان معاشی فلاحی ریا ست بن سکتا ہے۔ جھوٹی شہادتوں کو روکنے کے لیے کسی خلائی مخلوق کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ پاکستانی قانون موجود ہے۔ قران پاک موجود ہے۔صاحب قران نبی پاکﷺ کی سیرت ہمارے سامنے ہے۔ ٹرائل کورٹس نے اپنا فعال کردار ادا کرنا ہے بس۔ بار کونسلوں، بار ایسوسی ایشنوں، ہائی کورٹس سپر یم کورٹ اگر ایک پیج پر آجایئں تو ملک کی پسی ہوئی عوام کو سکون مل سکتا ہے۔ پیارا وطن پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے خوابوں کی تعبیر معاشی و فلاحی مملکت بن سکتا ہے۔
 

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 430374 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More