کیا شاہ محمود قریشی اور راحت
فتح علی لائقِ توجہ اور احترام ہیں........؟؟؟
کچھ لوگوں کا خام خیال یہ ہے کہ گزشتہ تین سالوں سے ہمارے ملک پر حکمرانی
کرنے والی عوامی جماعت پی پی پی کے کرتا دھرتاؤں نے دنیا کے کسی بھی ترقی
یافتہ ملک کے مقابلے میں اپنی سب سے بڑی کابینہ رکھنے کے باوجود بھی ملک کو
ترقی اور خوشحالی کے راہ پر لے جانے کے لئے کوئی ایک بھی ایسا لائحہ عمل
اختیار نہیں کیا جس سے ملک مسائل کی دلدل سے نکلنے میں کامیاب ہوجاتا اور
یہاں بھی ترقی و خوشحالی کی ننھی ننھی کونپلیں پھوٹتیں۔ مجھے یہاں یہ کہنے
دیجئے بلکہ ملک کی موجودہ حکومت دنیا کی ایک ایسی اَنہونی اور ایسی عجوبی
جمہوری حکومت ثابت ہوئی ہے کہ جو ملک کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرنے کے
لئے اَب تک نہ تو اپنا کوئی رُخ متعین کرسکی ہے اور نہ ہی اِس نے اِس جانب
سنجیدگی سے غور وفکر کرنے سعی کی ہے اگر یہ اتنے عرصے میں اپنا کوئی رُخ
متعین کرتی اور اِسی کو ٹارگٹ بنا کر آگے بڑھتی جاتی اور عوامی اور ملکی
مسائل سے چھٹکارہ حاصل کرتی تو کوئی حرج نہیں کہ ہمارے یہی حکمران اور
حکومت دنیا کو یہ بتا دیتے کہ ہم اپنے ملک کے لئے وہ سب کچھ کرسکتے ہیں کہ
جس سے ہمارے ملک کے عوام کے مقدر بھی چمک اُٹھیں اور ہماراملک بھی اُس راہ
پر چل پڑا ہے کہ جس پر آج چل کر دنیا کے دیگر ممالک اپنے تقدیر کا فیصلہ
خود کرتے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں نے ایسا نہیں کیا اور آج یہی وجہ ہے کہ
مجھ سمیت ہر پاکستانی کو افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اِس معاملے
میں ہماری ملکی سیاست کے ذمہ داران بھی حکمرانوں کو کوئی گائیڈ لائن مہیا
کرنے میں معاون ومددگار ثابت نہ ہوسکے ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اِس سارے
عرصے کے دوران جس کسی کو بھی ہم نے دیکھا ہے سب اپنی اپنی بے پر کی ہانکتے
اور عوامی جلسے جلوسوں اور ریلیوں میں بے ربط اور بے مقصد جملے بولتے ہی
نظر آئے یعنی کہ یہ لوگ (حکومتی اراکین) اتنے عرصے میں ہر ملکی (اور عالمی
)معاملے میں سوائے اپنی اپنی بے پَر کی ماہرانہ رائے دینے کے عملی طور پر
اور کچھ بھی نہ کرسکے جس کا عوام الناس پر یہ اثر پڑا کہ حکومت پر سے اِن
کا اعتبار جاتا رہا اور عوام بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ایسی حکومت
کا بھلا کیا فائدہ جو کسی ایک راہ اور سمت پر چلنے کے بجائے کسی کٹی پتنگ
کے مانند اِدھر اُدھر ڈولتی رہے....؟ اور پھر خود ہی کبھی منہ کے بل زمین
پر آگرے...
جب عوام میں حکومت سے متعلق ایسی سوچ زور پکڑ گئی تو شائد اپنے متعلق ایسی
عوامی سوچ کی بھنک جب حکمرانوں کے کانوں تک پہنچی تو اِن پر جب لرزہ طاری
ہوگیا اور اُنہوں نے اِس بڑی کابینہ کو جو خود اِن کے لئے بھی دردِ سر بنی
ہوئی تھی اِس سے جان چُھڑانے کے لئے 18ویں ترمیم کا ہتھیار استعمال کرتے
ہوئے اِسے تبدیل کرنے کا ارادہ کیا اور پھر گزشتہ دنوں ہی صرف 4نئے چہروں
پر مشتمل 22رکنی ایک نئی وفاقی کابینہ تشکیل دے ڈالی جس سے متعلق وزیراعظم
خود نئی ٹیم کا تاثر دینے میں کامیاب دِکھائی نہیں دیئے کہ جس پر پی ایم
ایل (ن) نے تبصرہ کرتے ہوئے بلاتکلف یوں کہہ کر حکمرانوں اور حکومت پر
تنقیدوں کے نئے دروازے کھول ڈالے کہ نئی بوتل میں پرانی مگر تھوڑی کم شراب
کے ساتھ جو نئی کابینہ تشکیل دی گئی ہے اِس پر نہ تو عوام کا کبھی اعتبار
بحال ہوسکے گا اور نہ ہی اپوزیشن اِس سے مطمئن ہوگی پھر اِس کے بعد ہر طرف
سے کُھلم کُھلا موجودہ وفاقی کابینہ کو بھی تنقیدوں کا نشانہ بنائے جانے
لگا جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اَب شائد اُس وقت تک جاری جب تک یہ حکومت
اپنی باقی مدت پوری کر کے رخصت نہیں ہوجاتی ہے۔
بہرحال !نئی کابینہ میں وفاقی وزیر برائے قانون کی حیثیت سے حلف اُٹھانے
والے بابراعوان نے اپنا سینہ ٹھونک کر یہ دعویٰ تو ضرور کیا ہے کہ موجودہ
حکومت اپنی مدت پوری کریگی اور نئے وزرا کی کارکردگی مانیٹر کی جائے گی اور
ہماری کوشش یہ ہوگی کہ ہم عوام کو لانگ ٹرم ریلیف دیں تو اِس پر مسٹر بابر
اعوان عرض یہ ہے کہ عوام کو ایسے ہی سبز باغ پہلے بھی دِکھائے گئے تھے مگر
سب کے سب دھرے کے دھرے رہ گئے اور عوام اُمیدوں کے سہارے مرتے اور جیتے رہے
کیا اِسی اُمید پر اَب بھی عوام کو زندہ رکھا جائے گا اور عوام لانگ ٹرم
ریلیف کے انتظار میں تمہارے سمیت تمہاری حکومت کے پیچھے پیچھے دوڑتے رہیں
گے....اور آخرکار اِن کی زندگیوں کا اختتام خودکشیوں پر ہوگا۔
بہرکیف !کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ جس شخص سے متعلق ہم جو سوچ رکھتے ہیں
وہ یکدم اُس کے اُلٹ ثابت ہوتی ہے بالکل ایسا ہی ہمارے سابق وزیر خارجہ شاہ
محمود قریشی کے ساتھ بھی ہوا جب یہ اِسی حکومت کی سابقہ کچن کابینہ میں تھے
تو اِن کی سیاست کا ذائقہ بھی اُس جیسا معلوم دیتا تھا کوئی یہ نہیں کہہ
سکتا تھا کہ شاہ صاحب اپنا بھی کوئی منفرد اور سب سے جدا کوئی ٹیسٹ بھی
رکھتے ہیں مگر یوں ہی شاہ محمود قریشی سابقہ کچن کابینہ کے خاتمے کے بعد
اِنہوں نے وزیر اعظم سے ایک ملاقات کے دوران اپنا واضح مؤقف پیش کرتے ہوئے
کہا کہ اگر اِن کی وزارت تبدیل کی گئی تو مستعفی ہوجاؤں گا اور وہ اپنے اِس
مؤقف پر قائم بھی رہے اور جہاں اُنہوں نے صرف 4نئے چہروں پر تشکیل پانے
والی موجودہ 22رکنی کابینہ سے حلف اُٹھانے سے معذرت کر لی تو وہیں یہ صحیح
معنوں میں ا پنی سب سے الگ اور ایک منفرد پہچان کے ساتھ نمایاں طور پر دنیا
کے سامنے بھی اُبھر کر آئے ہیں ۔
یوں سبکدوش ہونے والے اور نئی کابینہ میں حلف نہ اُٹھانے والے سابق وزیر
خارجہ شاہ محمود قریشی نے دو پاکستانیوں کے قاتل امریکی شہری اور عیسائی
دہشت گرد ریمنڈ دیوس کے استثنی ٰ کے معاملے پر ڈٹ کر حکومت کو یہ واضح
پیغام دیا ہے کہ اگر مداخلت نہ ہو تو وزارتِ خارجہ قبول ہے ورنہ نہیں
....جس پر صدر مملکت آصف علی زرداری بھی اِنہیں کسی اور وزارت کے لئے آمادہ
نہ کرسکے اِس طرح دنیا نے یہ دیکھ لیا کہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے جہاں
اپنی سابقہ وزرات سمیت دوسری وزارتوں کی آفرز بھی قربانی کردیں تو وہیں
اُنہوں نے اپنے رویوں سے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ یہ وہ حُرِ مجاہد ہیں جو
کسی بھی لحاظ سے ملکی مفادات میں مصالحت پسندوں کی صف میں کھڑے رہ کر ملک
اور قوم کے وقار کا سودا نہیں کرسکتے خواہ اِس کے لئے اِنہیں کتنی ہی ایسی
وزارتوں کو کیوں نہ چُھوڑنا پڑ جائے جس کے یہ دوبارہ خواہش مند ہیں اور
حکومت اِنہیں اِس کے بدلے دوسری وزارتوںدینے پر آمادہ ہے۔
جبکہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی شخصیت کے حوالے سے پاکستانیوں کی ایک سوچ یہ
بھی ہے کہ موجودہ حکومت میں وزارتِ خارجہ کے حوالے سے مخدوم شاہ محمود
قریشی ایک معقول شخص ہیں جنہوں نے اپنی کارکردگی سے نہ صرف اپنی وزارتی ذمہ
داریوں کے ساتھ انصاف کیا ہے بلکہ دنیا کے سامنے ہر معاملے پر پاکستان کے
اُ صولی مؤقف اور قومی حُرمت کا بھی دفاع کیا ہے اور اِن کا دو پاکستانیوں
کے قاتل امریکی شہری اور عیسائی دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے جو دو ٹوک
مؤقف رہا ہے اِس لحاظ سے اِن پر عوامی اعتماد کا بین ثبوت یہ ہے کہ اِنہیں
دوبارہ وزارتِ خارجہ نہ بنانے جانے کے خلاف ہزاروں لوگوں نے ملتان میں جو
احتجاجی مظاہرہ کیا ہے حکومت کو اِس عوامی مظاہرے کی زبان کو سمجھنی چاہئے
کہ عوام حُرِ مجاہد مخدوم شاہ محمود قریشی کی شخصیت اور اِن کی کارکردگی سے
کتنے خوش ہیں اور ہمارے حکمران کو یہ بھی جاننے اور سمجھنے کی کوشش ضرور
کرنی چاہئے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کے وہ پہلے شخص ہیں کہ عوام انہیں اِن
کی وزارت سے ہٹائے جانے پر اِن کے حق میں سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کر رہے
ہیں جس پر مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک انٹرویو میں ملکی قیادت سے یہ
سوال کیا ہے کہ میرا کیا قصور ہے....؟؟جو میری خواہش اور میری کارکردگی کے
لحاظ سے مجھے وزارتِ خارجہ نہیں دی گئی۔
اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ شاہ محمود قریشی کو اِن کی خواہش اور سابقہ کارکردگی
کی بنا پر( جب کہنے کو نئی مگر صرف چار نئے چہروں کے ساتھ) وہی پرانی تشکیل
پانے والی کابینہ میں شامل نہ کئے جانے کے بعد پاکستانی سیاست میں جو ایک
ناگوار ماحول پیدا ہوگیا ہے اِس سے ایسا لگتا ہے کہ ملک میں الزام تراشیوں
کا ایک نہ رکنے والا سیاسی سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے جس سے بالخصوص ملکی اور
بالعموم عالمی میڈیا پر ایک نئے بحث و تکرار کی فضا پیدا کردی گئی ہے اور
اِس کے ساتھ ہی ہر طرف سے ملے جلے اچھے اور بُرے تبصروں اور تجزیوں کی
بھرمار جاری ہے یہاں میرا خیال یہ ہے کہ اِب یہ سلسلہ رک جانا چاہئے جو
ہمارے ملکی وقار کے لئے کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے میرا اِس موقع پر
مخدوم شاہ محمود قریشی سے بھی یہ کہنا ہے کہ اگر حکومت نے دوبارہ اِن کی
پسند کی وزارتِ خارجہ اِنہیں نہ دی تو اِنہیں بھی اِس بات پر افسردہ نہیں
ہونا چاہئے اور بلاجواز محاذآرائی سے اجتناب برتنا چاہئے اور اِسی طرح
حکومت کو بھی یہ چاہئے کہ جب ایک شخص ملکی وقار کو بلند کرنے میں اپنی
دلچسپی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں اچھی طرح سے انجام دے رہا تھا اور پھر
دوبارہ اِسی وزارت کے ساتھ( کہنے کو نئی مگر وہی پرانی )تشکیل پانے والی
کابینہ میں اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کا خواہش مند ہے تو پھر حکومت کو
بھی اغیار (امریکا اور دوسروں )کے دباؤ میں آکر اِسے وہی وزارت دینے سے
انکار نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ وطن عزیز کے زمینی حائق کا جائزہ لیتے ہوئے
حالات و اقعات جو تقاضہ کر رہے ہیں اِن کی روشنی میں ہر ملکی معاملے کو
افہام و تفہیم سے نمٹا دیا جانا چاہئے ناں کہ کسی بھی ذرا سی بات کا داخلی
طور پر اتنا واویلا کیا جائے کہ یہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کے مانند اِدھر
اُدھر ہوا میں اُڑتی رہے جس کا اپنے اور اغیار بتنگڑ بنا کر ہمارامذاق
بناتے رہیں۔
اُدھر ایک یہ خبر مجھ جیسے اُن کروڑوں پاکستانیوں کے لئے بھی انتہائی تکلیف
دہ ثابت ہوئی ہے کہ جو بھارت کے ساتھ امن کی آشا کے نام پر اچھے تعلقات کے
خواہاں ہیں خبر کے مطابق گزشتہ دنوں پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان جوں
ہی کراچی سے نئی دہلی پہنچے تو نئی دہلی ایئر پورٹ پر اِن کے پاس سے ایک
لاکھ 24ہزار ڈالر برآمد ہونے پر اِن سے بھارتی ریونیو انٹیلی جنس حکام نے
اِس رقم سے متعلق اِن سے پوچھ گچھ کی اور اِسی بنا پر اُنہوں نے اِس عظیم
پاکستانی گلوکار کو نہ صرف گرفتار کر لیا بلکہ اِنہیں اگلے ہی روز بھارت کی
عدالت میں پیش بھی کیا گیا ایک پاکستانی گلوکار کے ساتھ بھارت میں پیش آنے
والے اِس سلوک کے خلاف پاکستانیوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی اور آج ہر
وہ پاکستانی جو بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہش مند ہے وہ یہ سوچنے پر
ضرور مجبور ہوگیا ہے کہ کیا بھارت کے ساتھ امن کی آشا کی خواہش ہم
پاکستانیوں کی ہی یکطرفہ خواہش ہے ....؟یا بھارتی بھی ہم پاکستانیوں سے
اِسی طرح تعلقات قائم رکھنا چاہتے ہیں جیسا ہم پاکستانی اِس کے ساتھ رکھنے
کے خواہش مند ہیں۔
بہر حال اِس منظر اور پس منظر میں ، میں آخر میں اپنے قارئین سے یہ سوال
کرنا چاہوں گا کہ کیا پاکستان میں مخدوم شاہ محمود قریشی اور بھارت میں
راحت فتح علی خان اپنی اپنی کارکردگیوں کے حوالے سے اپنے ساتھ پیش آنے والے
واقعات کے تناظر میں لائق توجہ اور احترام ہیں....؟؟اور کیا اِن دونوں کے
ساتھ)پاکستان اور بھارت میں) جو ناانصافی ہوئی ہے وہ کیا اِنصاف کے مستحق
ہے....؟؟ پاکستانی عوام اپنی دونوں شخصیات کے اِنصاف کے لئے کیا کچھ کہنا
اور کرنا چاہتے ہیں....؟ اور اِسی طرح بھارتی عوام بھی یہ فیصلہ کریں کہ
ایک پاکستانی گلوکار جو بھارت کی فلمی صنعت میں ایک بڑے اثاثے کا درجہ
رکھتا ہے کیا بھارتی ریونیو انٹیلی جنس حکام کو اِس کے ساتھ ایسا رویہ
اپنانا چاہئے تھا کہ جس سے پاکستانی عوام کے جذبات کو کوئی دلی ٹھیس پہنچتی
.....؟؟؟گو کہ اَب بھارتی عدالت نے برصغیر کے اِس عظیم گلوکار راحت فتح علی
خان کو اگلے ہی روز باعزت بری کردیا ہے مگر پھر بھی میں اپنے اِس کالم کے
ذریعے بھارتیوں کو اپنا اور پاکستانیوں کا یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ
بھارتی اور بھارتی حکام کو اَب آئندہ یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ وہ اپنے یہاں
آنے والے کسی بھی پاکستانی اور فن و فنکار سے وابستہ افراد کو اپنے
انتہاپسند جنونی ہندو بال ٹھاکرے کے پریشر میں آکر پریشان کرنے سے اجتناب
برتیں جس میں دونوں جانب کے امن پسند عوام کی جہاں بھلائی ہے تو وہیں دونوں
ممالک کے درمیان اچھے تعلقات بھی مستقبل قریب میں پیدا ہونے کی اچھی
اُمیدیں پیدا ہوسکے گیں ورنہ نہیں تو دونوں ایٹمی ممالک یوں ہی تناؤ کے
عالم میں جکڑے رہیں گے اور خطے میں عدم برداشت کی فضا قائم رہے گی اور گھٹن
کا ماحول طاری رہے گا اور دونوں جانب کے عوام اِسی آس میں مرتے رہیں گے کہ
کب بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کے مزاج میں برداشت کا جذبہ پیدا ہوگا
اور عوام کو سُکھ کا سانس نصیب ہوگا۔ |