تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب بھی پاکستان کی طرف سے
مذاکرات کی پیشکش جاتی ہے اور ان مذاکرات میں سرفہرست مسلہ کشمیر کو رکھا
جاتا ہے اسی وقت بھارت کی جانب سے دہشتگردی کا کوئی واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔
تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ بھارتی انتخابات کے قریب آتے ہی پاکستان کے
خلاف دہشتگردی کا نیٹ ورک مضبوط کرکے منظم منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کے
خلاف سفارتی محاذ کھول دیا جاتا ہے۔ بھارتی سیاستدان اپنے مفاد کی خاطر ملک
کو داو پر لگانے اور اپنے شہریوں کو جھوٹے واقعات رونما کروا کر ہلاک
کروانا معمولی کام سمجھتے ہیں۔ دولت کو ہی اپنا مذہب ماننے والے بھارتی
درندے پیسے کے لیے اپنے ماں باپ کو بھی مروانے سے دریغ نہیں کرتے۔ پاکستان
میں برسر اقتدار آنے والی حکومت انتہائی اعلی سفارتی کاری کا مظاہرہ کرتے
ہوئے کرتار پور راہداری کا منصوبہ بنا کر بھارت کے سارے پروپیگنڈے کو ہوا
میں اڑا چکی ہے۔ پاکستان کے اس احسن اقدام پر پوری دنیا نے پاکستان کی
تعریف کی لیکن ہمیشہ جنگی جنون میں مبتلا رہنے والی مودی سرکار کو پاکستان
تو بعد کی بات خطے میں امن بھی گوارا نہیں ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد شروع
دن سے ہی بھارت پڑوسی ممالک میں حالات خراب کروا کر اپنے گھناؤنے فعل میں
ملوث ہے۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بنا کر ، سری لنکا میں تامل ٹائیگرز
کو لاکر ، نیپال میں را کے دہشت گرد داخل کرکے بھارت نے تاریخ کی بدترین
دہشت گردی کروائی جس کی ساری دنیا مذمت کر چکی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ بھارتی
سیاست دانوں نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے اپنی ہی عوام کو خون میں
نہلایا۔ اندرا گاندھی نے آپریشن بلیو سٹار کے نام سے سکھوں کو انکی عبادت
گاہوں میں ہی مروایا۔ لاکھوں سکھوں کو جان سے مارنے ، ہزاروں سکھ خواتین کی
سرعام عزتیں پامال کروا کر، لاکھوں سکھوں کو جیل میں تشدد کروا کر ہمیشہ کے
لیے نشان عبرت بنا کر ، لاکھوں سکھوں کو ملک بدر کرکے اپنی حکومت کو مضبوط
کرکے خوشیاں منائیں لیکن کہتے ہیں کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
اندرا گاندھی کے ساتھ بھی یہی ہوا اپنی ہلاکت سے ایک دن قبل بی بی سی کو
انٹرویو میں اپنے سکھ محافظوں کی طرف اشارہ کرکے طنزیہ انداز میں اندرا
گاندھی نے کہا کہ یہ سکھ مجھے قتل کریں گے؟ اور اگلے دن انہی سکھوں کے
ہاتھوں اندرا گاندھی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ راجیو گاندھی بھی اپنی کھودی
قبر میں جا گرا۔ 2008 میں بھارتی حکومت نے اپنے قوانین بدلنے کے لیے ممبئی
حملوں کا ڈرامہ رچا کر ہزاروں شہریوں کو مروا دیا۔ یہی کہانی تین روز قبل
مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں دہرائی گئی۔ مقبوضہ کشمیرمیں جمعرات کو ضلع
پلوامہ کے علاقے لیتہ پورہ میں سرینگر جموں ہائی وے پر ایک بڑے خودکش حملے
میں کم سے کم 44 بھارتی فوجی اہلکار ہلاک اوردرجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔56 کی
حالت نازک بتائی جاتی ہے ،ہلاکتوں میں اضافہ کا خدشہ ہے. یہ واقعہ اس وقت
پیش آیا جب دھماکہ خیز مواد سے لدی ایک کار کو بھارتی سینٹرل ریزروپولیس
فورس کے اہلکاروں کی بس سے ٹکرا دیا گیا جس کے نتیجے میں زبردست دھماکہ ہوا۔
دھماکہ میں 44 سی آر پی ایف اہلکارہلاک اورمتعدد شدید زخمی ہوگئے جنہیں
بادامی باغ سرینگر میں بھارتی فوج کی 92 بیس ہسپتال میں منتقل کردیاگیا ہے
۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب سی آرپی ایف کے 2547 اہلکار 78 گاڑیوں میں
سوار ہوکر ایک کانوائے کی صورت میں جموں سے سری نگر آرہے تھے .پولیس ذرائع
کے مطابق فدائی نے بارود سے بھری گاڑی دن سوا تین بجے کے قریب فوجی کانوائے
میں شامل بس کے ساتھ ٹکراکر دھماکہ کیا .اس سے پہلے ایک رپورٹ میں بتایا
گیا کہ پہلے بارودی سرنگ کا دھماکہ کیا گیا بعد میں مجاہدین نے فوجی قافلے
پر فائرنگ کی .جموں وکشمیر کے پولیس چیف دلباغ سنگھ نے کہا کہ یہ خود کش
حملہ ہوسکتاہے، دھماکے بعد سرینگر جموں ہائی وے پر ٹریفک معطل ہو گئی ۔
بھارتی فوج نے پورے علاقے کا محاصرہ کر کے تلاشی کی کارروائی شروع کی ہے ۔
بھارتی میڈیا کے مطابق جیش محمد تنظیم نے حملے کی ذمہ داری قبول کر
لی۔تنظیم کے ترجمان محمد حسن نے کہا ہے کہ حملے میں درجنوں فوجی اہلکار
ہلاک و زخمی ہو گئے جبکہ فوج کی کئی گاڑیا ں بھی تباہ ہوگئیں،.رحمان نے ایک
مقامی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ پلوامہ کے گنڈی باغ کے رہا ئشی فدائی عادل
احمد لمعروف وقاص کمانڈو نے یہ فدائی حملہ کیا ۔ زخمی فوجیوں کو ایمبولینس
اور بھارتی فوج کی گاڑیوں میں ہسپتال پہنچایا گیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق
زخمیوں میں56کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ سی آر پی ایف کے عہدیداروں نے
یہ اعتراف کیا عسکریت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنائی گئی بس مکمل طورپر
تباہ ہوگئی جبکہ دوسری سی آر پی ایف کی گاڑی کو جزوی طورپر نقصان پہنچا۔ایک
پولیس آفیسر نے بتایا کہ اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ بس میں کوئی زندہ
بچ گیاہو۔ فوج کی یہ کانوائے جموں سے صبح ساڑھے تین بجے کے قریب روانہ ہوئی
تھی۔ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا سی آر پی ایف اور پولیس اس واقعے کی
تفصیلی تحقیقات کرے گی۔گذشتہ دو سال سے عسکریت پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے
پر فوجی آپریشن میں چار سو سے زیادہ عسکریت پسند مارے گئے۔ اس مدت کے دوران
فورسز پر ہونے والا یہ اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہے۔دو ماہ بعد ہونے والے
انڈیا کے پارلیمانی اور کشمیر میں اسمبلی انتخابات سے قبل فوجی حکام نے
دعوی کیا تھا کہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔اس حملے کے
فورا بعد 300 کلومیٹر طویل سرینگر۔جموں قومی شاہراہ پر سیکورٹی کا جائزہ
لیا گیا۔ سرینگر سے پلوامہ ہوتے ہوئے یہی وہ شاہراہ ہے جو ہر سال ہندو
یاتری امرناتھ گھپا تک جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بھارت نے اپنے روایت
کے عین مطابق حملے کے صرف پندرہ منٹ بعد ہی جب ہلاک اور زخمی فوجیوں کو بھی
واقعے سے نہیں اٹھایا گیا تھا پاکستان پر حملے کا الزام لگا دیا۔ بھارتی
وزیراعظم نے دعوی کیا کہ انکے پاس واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے
ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ دوسری طرف بھارت کے سیکیورٹی اور سفارتی
حلقوں نے پاکستان کے ملوث ہونے کے الزامات مستردکردیےہیں ۔بھارت کے
سیکیورٹی اور سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ حملے میں پاکستان ملوث نہیں اور
ثبوتوں کے بغیرپاکستان کا نام لینے سے بھارت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑسکتا
ہے۔بھارتی سیکیورٹی حلقوں کے مطابق بھارتی فورسز پر حملہ مقامی حریت پسندوں
کی جانب سے کیا گیا ہے اور یہ بھارتی فوج کی وادی میں موجودگی پرردعمل کا
تسلسل ہے۔حملے کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ حریت پسندوں کی
جانب سے حملے کی آٹھ فروری کی اطلاع تھی۔پیشگی اطلاع کے باوجود حملہ
سیکیورٹی انٹیلی جنس کی ناکامی ہے جسے چھپانے کے لیے بھارت کی جانب سے حملے
کا تعلق پاکستان سے جوڑا جارہا ہے۔دوسری طرف بھارتی میڈیا نے بھی حملے کے
بعد سے پاکستان کیخلاف مہم شروع کررکھی ہے،بھارتی میڈیا کی جانب سے نوجوت
سنگھ سدھو کو پاکستان کا نام لینے پراصرار کیا گیا تاہم انہوں نے ایسا کرنے
سے انکارکردیا ہے۔واضع رہے کہ بھارت نے پلوامہ حملے کے بعد کی صورتحال پر
مشاورت کے لیے پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ کو بھی
بھارت طلب کرلیا ہے۔ بھارتی الزام کے باوجود پاکستان نے بھارت کو پلوامہ
واقعے کی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کردی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی
کا کہنا ہے کہ الزام تراشی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، پاکستان کو دنیا میں
تنہا کرنے کا بھارتی وزیراعظم کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔میونخ میں میڈیا
سے گفتگومیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو سفارتی
طور پر تنہا کرنے کا بھارتی وزیراعظم کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا، پاکستان
جانی نقصان اور تشدد کے حق میں نہیں ہے، اپنی سرزمین دہشت گردی کیلئے
استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اس واقعے پر کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔ بارودی
گاڑی کی تیاری میں مہینوں لگتے ہیں، ہر سات کشمیریوں کے لیے ایک بھارتی
فوجی وادی میں موجود ہے۔ ایسے میں اتنے عرصے تک منصوبہ بندی کہاں ہوتی رہی؟
جگہ جگہ چیک پوسٹس ہونے کے باوجود اکیس برس کا اکیلا نوجوان وہاں تک پہنچا
کیسے؟ چیک پوسٹوں پر ان کو کس نے آگے جانے دیا؟ جیش محمد کے ملوث ہونے کا
دعویٰ بھارت کا ہے جبکہ خود جیش محمد نے حملے سے لا تعلقی کا اعلان کیا ہے
تو ایک مبینہ جعلی ویڈیو کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے؟
کرتارپور راہدی کا اعلان کرکے پاکستان نے سفارتی میدان میں اہم کامیابی
حاصل کی تھی، بھارت کا یہ ڈرامہ اس کامیابی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہو سکتی
ہے۔
ایک اہم سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ بھارت میں انتخابات سر پر ہیں، اور پوری
دنیا سے پاکستان کے سفارتی تعلقات بحال ہو رہے ہیں، ایسے میں اس طرح کا
حملہ کس کو فائدہ پہنچا سکتا ہے؟
پلوامہ حملے کی ذمہ داری بنا تحقیق پاکستان پر ڈالنے والی مودی سرکار کے
پاس کیا ان سوالوں کے جوابات ہیں؟
حملہ جس مقام پر ہوا وہ لائن آف کنٹرول سے 150 کلو میٹر اندر واقع ہے،
حملے میں آئی ای ڈی سے بھری گاڑی استعمال کی گئی جس کی تیاری میں مہینوں
لگتے ہیں، مقبوضہ وادی میں ہر 7 کشمیریوں کے لیے ایک فوجی اہلکار تعینات
ہے۔ وادی کے چپے چپے پر بھارتی فوج کی موجودگی کے باوجود اتنے عرصے تک حملے
کی منصوبہ بندی کیسے ہوتی رہی؟
اکیس سال کا اکیلا نوجوان یہ حملہ کیسے کر سکتا ہے اور جگہ جگہ چیک پوسٹس
ہونے کے باوجود، اتنی بڑی مقدار میں بارودی مواد وادی کے اندر پہنچ کیسے
گیا؟
2500 فوجیوں کی نقل و حرکت سے پہلے اس بات کا تعین کیوں نہیں کیا گیا کہ
محفوظ راستہ کونسا ہے؟
جیش محمد اور لشکر طیبہ کے نعرے وادی میں بچے بچے کو یاد ہیں،، ایسے میں
جعلی ویڈیو بنانا بعد از قیاس نہیں ہے بھارتی دعوے کے باوجود جیش محمد نے
اس حملے سے لا تعلقی کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان کو تنہا کرنے کی پہلی مہم ناکام ہوگئی تھی تو اس مہم میں دوبارہ
جان ڈالنے کے لیے ایک اور ڈرامہ رچایا گیا، پاکستان نے طالبان کو امن عمل
میں شریک ہونے پر راضی کرکے ثابت کیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف ہے، بھارت کی
یہ چال بھی کامیاب نہیں ہو گی۔
کرتار پور راہدری عالمی سطح پر بھارت کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بن گئی تھی
دنیا بھر سے سکھ پاکستان کے لیے داد و تحسین کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ
شروع ہو گیا تھا۔ بھارت کا یہ ڈرامہ کیا بابا گرو نانک کی پچاسویں یوم
پیدائش کی تقریبات کو سبو تاژ کرنے کی کوشش نہیں ہے؟ بھارت کو مجبوراَ چار
سال بعد انڈس واٹر ٹریٹی کے سلسلے میں پاکستان آنا پڑا تھا، بھارت نہیں
چاہتا کہ یہ سلسلہ جاری رہے، کیا اس پلوامہ کا ڈرامہ رچایا گیا؟
سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ بھارت میں انتخابات سر پر ہیں، پاکستان کے
سفارتی تعلقات پوری دنیا سے بحال ہو رہے ہیں، ایسے میں پلوامہ حملہ جیسے
واقعات کس کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ دوسری طرف پر مجبور ہوا۔ دوسری طرف
بھارتی مکروہ چہر ہ کھل کرسامنے آگیا، پلوامہ حملےکے بعد عادل ڈار کے
والدغلام حسن ڈار نے پاکستان پر الزام لگانے والی بھارتی حکومت کے
پروپیگنڈا کو ناکام بنایا،ان کا کہناتھاکہ ہم بھی ایسی ہی تکلیف سہتے ہیں،
عادل ڈار کو 2016 میں قابض فوجیوں نے سکول سے واپسی پر روکاتشدد کیا اُس سے
ناک زمین پر رگڑوائی تھی، جس کا اس نے بدلہ لیا،عادل کی ماں فہمیدہ کا کہنا
ہے بھارتی فوجیوں کے تشدد کے بعد عادل ایسے انتہائی قدم پر مجبور ہوا۔واضح
رہے کہ خود کش حملہ آور کی شناخت عادل احمد ڈار ولد غلام حسن ڈار عرف وقاص
کمانڈو ساکن گنڈی باغ کاکہ پورہ پلوامہ کے طور ہوئی ہے،جیش محمد نے حملے کی
ذمہ داری لینے کے دوران کہا کہ یہ حملہ عادل احمد نے انجام دیا جو کہ گنڈی
باغ کاکہ پورہ پلوامہ کا رہنے والا ہے۔سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو
میں واقعہ سے ایک دن قبل عادل احمد ڈار کاکہناتھاکہ میں ایک سال پہلےجیش
محمدﷺ کے فدائی سکواڈ میں شمیولت اختیار کی تھی،اور آج وہ دن آ پہنچا جس کی
مجھے حسرت تھی، مجھے یہ امید ہے جب تک میرا یہ پیغام آپ لوگوں تک پہنچے گا
میں رب کی جنتوں کےمزےلوٹ رہاہوں گا۔اس واقعے سے بھارت کو سمجھ لینا چاہیے
کہ یہ اسکی اپنی لگائی ہوئی آگ ہے جس میں وہ جل رہا ہے اگر وہ اس آگ کو
روکنا چاہتے ہے تو کشمیریوں کو انکا حق خودارادیت دے بصورت دیگر بھارتی فوج
پر مقبوضہ کشمیر میں حملوں میں کمی کی بجائے شدت آئے گی۔
|