پاکستان کے سیاستدان غیر مقبول اور سیاسی پارٹیوں کی عوام
میں جڑیں کمزور ہیں اور ان کے کارکنان آہستہ آہستہ کم ہوتے جا رہے ہیں۔
ایسے میں جب ان پر مصیبت پڑتی ہے تو وہ عوام سے مدد مانگتے ہیں اور اپنے آپ
کو تنہا پاتے ہیں۔ دنیا بھر میں فوج کے راستے کی دیوار صرف عوام اور سیاسی
کارکنان ہی بنتے رہے ہیں (قبل مسیح سے آج تک کی مثالیں)۔ مستقبل میں ان
پارٹیوں کو کیا کرنا چاہیے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں ذلیل ہونے سے بچ
سکیں۔
پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو اس کے زیادہ تر سیاسی لیڈر عمر کا بیشتر
حصہ گزار چکے تھے۔ مسلم لیگ پاکستان میں واحدملک گیر جماعت تھی۔ اس میں
قایئد اعظم اور لیاقت علی خاں کے بعد کوئی مقبول :لیڈر نہ تھا۔ ملک غیر
مقبول سیاسی لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ ان کا عوام سے رشتہ کمزور
تھا۔ملک میں لگنے والے پہلے مارشل لا کا اصل ہدف یہ سیاستدان بنے۔ اس طرح
ملک میں کوئی ایسا لیڈر نہ بچا جو ستر کی دہائی تک پہنچ سکا۔
ساٹھ کی دہائی میں بھٹو پاکستان میں نئی قیادت کے ساتھ جلوہ افروز ہوے۔
بھٹو ایوب خان کی کابینہ کے اہم رکن تھے۔انہوں نے ایوب کے غیر سیاسی دور
میں جب اس کے خلاف نفرت عروج پر تھی ایک سیاسی موقع (معاہدہ تاشقند) سے
فائدہ اٹھایا۔ اس وقت ایک سیاسی پارٹی کی ضرورت تھی۔مسلم لیگ اپنی ہئیت کئی
مرتبہ بدل کر اپنی اصل شکل بھول چکی تھی۔ پیپلز پارٹی کو نئے چہرے سٹوڈنٹس
یونین اور مزدور وں سے ملے۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعدپیپلزپارٹی کے
مقابلے میں ملک گیر مقبول رہنما کوئی بھی نہ تھا۔ اپوزیشن، مذہبی اور
نظریاتی طور پر مخالف علاقائی رہنماوں کا مجموعہ تھی۔
ضیأالحق کے ماشل لا نے اسی مقبول عام پارٹی کو ہدف بنایا اور اس کی عوامی
طاقت ختم کرنے کے لیئے مذہبی، علاقائی اور مقامی غیر سیاسی تنطیموں کی
آبیاری کی۔1979کے غیر سیاسی بلدیاتی الیکشن سے برادری اور پیسے کی زور پر
الیکشن سے ایک نئی قسم کے لیڈر پیدا ہوے۔ 1985کے غیر جماعتی الیکشن(اور
پیپلزپارٹی کے بائیکاٹ) کی وجہ سے یہ تما م ابھر کر ملکی سطح کی قیادت بن
گئے۔ ان سب کی قیادت کا قرعہ جونیجو سے ہوتا ہوا نوازشریف تک پہنچ گیا اور
بے جان مسلم لیگ کونیا خون ملا۔
ؑاسٹیبلشمنٹ اس ملک کی سیاست کی ایک ناقابل قبول حقیقت رہی ہے۔ مشرف کا دور
میں اس کو اتنا نقصان پہنچ چکا ہے کہ اب یہ خود حکومت نہیں کر سکتی اس لیئے
یہ اگلے کئی سالوں تک یہ علاقائی و مذہبی پارٹیوں کیساتھ مل کر امور حکومت
میں مداخلت جاری رکھے گی۔ اور دونوں پارٹیوں کے لیئے مسائل کا باعث بنتی
رہے گی۔پی ٹی آئی ایک وقتی حقیقت ہے جو اگلے سالوں میں اسی شکل میں یا کوئی
اور روپ ڈھال کر ان کی مدد سے زندہ رہے گی۔
اس تمام تناظر میں عوام کہاں ہیں؟ ۔ یہ سب سے اہم بات ہے۔ پاکستان میں تیزی
سے بڑھتی ہویئٰ شہری آبادی، 2025تک پچاس فی صد تک پہنچ جاے گی۔ اس تبدیلی
کی وجہ سے روایئتی سیاست بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ اگر ملک میں حقیقی سیاسی کام
شروع ہوجاے تواب تمام غیر سیاسی رویے مثلا برادری،نسلی،لسانی ا ور مذہبی
تعصبات کم ہو سکتے ہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتیں پاکستان کی سیاست پر کبھی بھی
خاص اثرانداز نہیں ہو سکیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ کسی کی تیسرے چوتھے درجہ کی
اتحادی ہوسکتی ہیں۔ اور اگلے سالوں میں ان کی یہ اہمیت بھی کم ہو جائے گی۔
لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اصلی سیاسی کام کون کرے گا؟ عوام کو سیاست
میں حصہ دار کون بناے گا؟
پاکستان کی کوئی بھی سیاسی پارٹی اس وقت عوام میں کام نہیں کر رہی۔: طاقت
کا سر چشمہ عوام ہیں: کے نعرہ کے ساتھ آنے والی پارٹی بھی عوام سے رشتہ توڑ
چکی ہے۔ جمہوری معاشروں میں حکومت میں عوام کو شامل کرنے کے بہت سے راستے
اختیار کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی عوام کے لیئے کافی راستے تھے۔لیکن
حکمران طبقہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کی طاقت میں کوئی دوسرا فریق شامل ہو اس
لیے آہستہ آہستہ یہ تمام مسدود کر دیئے گئے۔
سٹوڈنٹس یونین نے بہت سے نئے لیڈر دئیے۔ 1984سے اس پر پابندی ہے اور اس کے
بعد کالج اور یونیورسٹیوں سے کوئی لیڈر پیدا نہ ہو سکا۔جمہوری ممالک اور
حتًکہ چین میں بھی طالب علموں کو مقامی حکومتوں میں اور یونیورسٹیوں کی
انتظامیہ میں شامل کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح مزدور اور کسان لیڈر جو کہ پیپلز
پارٹی کا ہراول دستہ بنے، اب پابندیوں کی وجہ سے سیاست میں حصہ ڈالنے سے
قاصر ہیں۔بھٹو کو جب پھانسی کی طرف لے کر جا رہے تھے تو سب سے زیادہ کوڑے
انہیں سیاسی کارکنان نے کھائے۔
مسلم لیگ کو تما م نئی قیادت مقامی بلدیاتی اداروں سے ملی لیکن ان اداروں
کی بحالی میں یہ بھی رکاوٹ بنی۔ اور جب مجبورا بحال کرناپڑا توبھی ان کو
اختیارات نہ دیے۔ موجودہ پی ٹی آیئی کی حکومت کا مقبول عام نعرہ بلدیاتی
اداروں کو اختیارات کی منتقلی تھا جو کہ اب دیوانے کا خواب ہی لگتا ہے۔
وکلا کی تنظیمیں کسی بھی ملک کی سیاسی جدوجہد کی جان ہوتی ہیں۔ یہ واحد
فورم بچا ہے جو سیاسی ڈکٹیٹرز کے رستہ کی رکاوٹ بنا۔ لیکن یہ اپنا رستہ
بھول کر اپنے آپ کو ہی تباہ کر رہا ہے۔ آے روز کی ہڑتالیں اور اپنے ہی ججوں
کی خلاف بدمعاشیاں ان کو بدنام کررہی ہیں۔ لا قانونیت ان کو عوام الناس میں
لیڈر کی بجاے دشمن کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ان میں
نمایئندگی موجود ہے لیکن ان پر جماعتوں کا اثر کم ہی ہے۔
سیاسی جماعتوں کی کبھی شہروں اور گاؤں میں مزدوروں،کسانوں اور طلبہ میں
مقامی سطح پرتنظیمیں ہوتی تھیں جنہوں نے بھٹو کے بعد آمریت کو مجبور کیا کہ
وہ سیاسی ادارے اور عوام کی نمایئندگی کو بحال کرے۔ یہی تنظیمیں میڈیا میں
بھی نمایئندگی رکھتی تھیں جن کا عوام کی اس جدوجہد کو اجاگر کرنے میں بہت
بڑا ہاتھ ہوتا تھا۔ ایک وقت تھا پارٹیاں عوام میں ممبر سازی مہم چلاتی
تھیں۔ عوامی سطح پر تربیتی پروگرام ہوتے تھے، جماعت اسلامی اس کام میں سب
سے آگے رہی ہے اوراپنی ناکامی کے باوجود اس نے تمام دوسری جماعتوں کو تربیت
یافتہ سیاسی کارکنان اور لیڈرفراہم کیے۔ اور یہ جماعت ایک لمبے عرصہ تک
سٹریٹ پولیٹکس کا اہم عنصر رہی ہے۔
سیاسی پارٹیاں سیاسی جدوجہد کا اصل رستہ بھول کراب اسٹیلشمنٹ کے در کی گدا
بن چکی ہیں۔ عوام میں ان کا م صفر ہے۔ اسی لیے جب ان پر مشکل پڑتی ہے تو
عوام جو کہ سیاست کی جان ہیں،اور آمریت کے رستے کی اصل رکاوٹ ہیں، ان کے
پیچھے نہیں ہوتے۔
632 قبل مسیح میں جب اولمپک گیمز کے فاتح سیلون نے ایتھنز کی حکومت پر قبضہ
کرنے کی کوشش کی تو اس کو شہر کے عوام نے نومقامی عوامی قائدین کی قیادت
میں ناکام بنایا۔ جب مارچ 44قبل مسیح میں جولیس سیزر کو قتل کیا گیا تو
قاتلوں کا خیال تھا کہ وہ عوام میں غیر مقبول ہوچکا ہے اس لیئے عوام ان کے
اس اقدام کو سراہیں گے۔ اگر چہ زیادہ تر لوگ خاموش رہے لیکن بہت سے سیاسی
جتھے جو کہ شہر کے زیادہ تر حصوں پر کنٹرول رکھتے تھے ناراض ہوے اور انہوں
نے جولیس سیزر کے نامزدہ کردہ اوکٹیوین کو سپورٹ کیا (حالانکہ وہ اس وقت
یونان میں تھا)۔ اور انتھونی کی مخالفت کی کہ اس نے قاتلوں کوجانے کیوں
دیا۔ اور بالآ خراس کو بھی شہر چھوڑنا پڑا۔
3مئی 1791 کا پولینڈکا آیئین جوکہ یورپ پہلا جدید آیئین کہلاتا ہے جب منظور
کیا جا رہا تھا تو گلیوں میں عوامی دباو اتنا تھا کہ ایسٹر کی چھٹیوں کو
باوجود پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا گیا اور بادشاہ کو مجبورا اپنے اختیارات
چھوڑنے پڑے۔
1960 میں فرانس پچھلے سو سال سے جمہوری نظام کے تحت چل رہا تھا۔ اپریل 61
میں فرانس کی کالونی الجیریا میں موجود جرنیلوں نے بغاوت کر دی ان کا مقصد
پیرس پر قبضہ کرنا تھا۔ الجیریا میں اس وقت پانچ لاکھ فو ج تھی۔ فرانسیسی
صدر نے عوام کو مزاحمت کی آواز دی۔ سیاسی پارٹیوں نے ٹریڈ یونینز کی مدد سے
ملک میں اس کا آغاز کیا۔ عوام کی زبردست مخالفت کو دیکھتے ہوے الجیریا میں
موجود پولیس نے سول حکومت کا ساتھ دینا شروع کردیا۔ اس مزاحمت نے دوسرے دن
باغی لیڈروں کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔
1986میں فلپائین کے آمر کے خلاف فوجی بغاوت کی ناکامی کے باوجود اس کے بعد
ہونے والے مسلسل عوامی مظاہروں کی وجہ سے مارکوس کو بھاگنا پڑا اور جمہوریت
بحال ہوئی۔ تھائی لینڈ میں فروری1991 میں کرپشن میں بدنام منتخب حکومت کو
ہٹا کرفوج نے ایک نئی سیاسی پارٹی بنا کر حکومت پر قبضہ کر لیا۔ اس حکومت
کی مخالفت میں طلبا نے تحریک کا آغاز کیا جو کہ میئی 1992میں فوج کے نامزد
کردہ وزیر اعظم کو ہٹانے میں کامیاب ہویئ۔ اگست91میں گورباچوف کی اصلاحات
اور مرکزی اختیارات کم کرنے کی پالیسیوں کے خلاف فو ج نے بغاوت کر دی ا ور
گوربا چوف کو کریمیا میں قید کردیا۔ ماسکو میں جب فوج سڑکوں پر آئی تو عوام
اپنی حکومت کے دفاع میں ان کے رستے کی رکاوٹ بنے۔اس مہم کو ماسکو کے عوام
نے دو روز میں ناکام بنادیا۔جولائی2016میں جب طیب اردوان کا جب تختہ الٹنے
کی کوشش کی گیئی تو عوام ٹینکوں کے آگے آئے۔
مستقبل میں اگر ہماری سیاسی جماعتیں باعزت طور پر سیاست کرنا چاہتی ہیں تو
ان کو عوام کے ساتھ اپنا رشتہ پکا کرنے کے لیئے طالب علموں مزدوروں،کسانوں،
وکیلوں اور میڈیا نمایئندگوں میں اپنے کام کو بڑھانا پڑے گا۔ مقامی حکومتوں
کو فعال کرنا پڑے گا۔اپنی مقامی تنظیمیں مضبوط کرنا ہونگی، ورنہ یہ اسی طرح
اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ہاتھوں رسوا ہوتے رہیں گے۔ |