غارِ ثور کے اندر یارِ غار نے صدق ووفا عشق ووفا
،ایثاروفدائیت اور جاں نثاری وقربانی کا جو فقید المثال مظاہرہ فرمایاوہ
ایک ایسا عظیم شاہکار ہے جسے تاریخ و سیرت کے علاوہ خود کتاب اﷲ نے انمنٹ
اور غیر فانی اور زندہ وجاوید بنادیا ہے ۔ سیدنا فاروق اعظمؓ فرماتے ہیں کہ
مجھے یہ پسند ہے کہ میری تمام زندگی کا عمل حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ایام میں
سے ایک یوم کے برابر اور تمام راتوں کا عمل ایک رات کے برابر ہوجائے تو
میرے لیے سستا سودا ہوگا ،پوچھا گیا کہ کون سی رات؟ فرمایا کہ جس رات وہ
رسول اﷲﷺ کے ساتھ غارِ ثور کی طرف تشریف لے گئے تو حضرت ابوبکرؓ نے عرض
کیا،ترجمہ:خدا کی قسم ! آپﷺ غار میں داخل نہ ہوں میں آپﷺ سے پہلے داخل ہوں
گا تاکہ اگر اس میں کوئی موذی چیز ہوتو وہ آپ ﷺکو نہیں بلکہ مجھے تکلیف دے
۔چنانچہ سیدنا صدیق اکبرؓ غار میں داخل ہوگئے ، خود جھاڑودیا ،ایک طرف کچھ
سوراخ تھے ۔ آپ نے چادر پھاڑ کر اس سے انہیں بند کردیا ۔ دوسوراخ بچ گئے تو
آپؓ نے دونوں پاؤں ان پر رکھ دیئے ۔ پھر رسول اﷲﷺ سے عرض کیا :’’حضورﷺ! آپ
تشریف لائیے ،چنانچہ رسول اﷲ ﷺ تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکرؓکی گود میں
سرمبارک رکھ کر سوگئے ، ایک سوراخ میں سے سانپ نے حضرت ابوبکرؓکے پاؤں میں
ڈس لیا ‘‘(یعنی ڈنگ مارا)اس سانپ کے ڈسنے سے ا بو بکر ؓ نے حرکت نہیں کی
تاکہ حضورﷺ کے آرام اور نیند میں کوئی خلل نہ آجائے۔‘‘۔
زہر نے جسم صدیق رضی اﷲ عنہ پر اثر کیا حتیٰ کہ آنکھیں بھی اس زہر سے متاثر
ہوئیں کہ ’’پس آپ کے آنسو رسول اﷲ ﷺ کے چہرہ انور پر گرے ۔آپ ﷺ نے
(بیدارہوکر) فرمایا ابوبکررضی اﷲ عنہ تمہیں کیا ہوا؟ عرض کیا آپ پر میرے
ماں باپ فدا ہوں مجھے سانپ نے کاٹ کھایا ۔ رسول اﷲﷺ نے (اس جگہ پر )لعاب
دہن لگایا تو سب دکھ درد جاتارہا‘‘۔حضرت انس رضی اﷲ عنہروایت کرتے ہیں کہ
جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے ابوبکررضی اﷲ عنہ سے پوچھا کہ آپ کی چادر کہاں ہے ؟
اس پر ابوبکررضی اﷲ عنہ نے آپ کو ساری کارروائی (جو غار کی صفائی کے وقت
ہوئی تھی )سنائی ۔ سرکارِدوعالمﷺ نے ہاتھ اٹھا کر ابوبکرؓ کے لیے دعا
فرمائی۔
ترجمہ:الٰہی !ابوبکر(رضی اﷲ عنہ)کو جنت میں میرے درجہ میں میرے ساتھ
کردیجیے ،اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺکی طرف وحی فرمائی کہ ہم نے آپ کی دعا قبول کرلی
(سیرۃ الحلیہ ) ترجمہ:جب اپنے یارِ غار سے کہتے تھے کہ میرا غم نہ کھاؤ
یقینا اﷲ ہمارے ساتھ ہے ‘‘۔حضرات گرامی ! اس آیت کریمہ کا ایک ایک جملہ
سمندر ہے جس میں جس قدر غوطے لگائے جائیں گے اسی قدر موتیوں کے خزانے ملتے
جائیں گے ۔ صدیقرضی اﷲ عنہ کو نبیﷺ نے ’’صاحب‘‘ کے لقب سے یاد فرمایا ۔
ساتھی ، یار ، سجن حضرت ابوبکر صدیقرضی اﷲ عنہ کو اگر غم تھا تو صرف حضورﷺ
کا اس لیے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ میرے یار! میرا غم نہ کھا اﷲ ہمارے
ساتھ ہے یعنی ادھر تم میرا غم کھاؤ گے اوپر سے اس کی نصرت کا دروازہ کھل
جائے گا ۔
اﷲ تعالیٰ نے صدیق اکبررضی اﷲ عنہ پر تسکین نازل فرما دی یعنی سکون سے آپ
کا دل لبریز فرمادیا ،معلوم ہوتا ہے کہ محبوب کی تکلیف کے تصور سے دل میں
آتش سوزاں تھی جسے مولیٰ کریم نے اپنی خاص عنایت سے ٹھنڈا کردیا ۔ملتانی
زبان میں کہتے ہیں کہ (ہاں ٹھاردتا) گویا کہ دل ٹھنڈا کردیا ۔’’اور اس کی
ایک ایسے لشکر سے تائید کی جو تیری نظر کی رسائی سے با ہر تھا،مثلاً مکڑی
نے جالا تن دیا ، کبوتری نے انڈے دے دیئے ۔ سبحان اﷲ ……جب مولیٰ کریم کام
لینے پر آئیں تو مکڑی اور کبوتری سے کام لے لیتے ہیں ۔ جانوروں کا حصہ بھی
عشق رسالتﷺ میں ڈال دیا سنا ہے آج اسی نسل کے کبوتر حرم نبویﷺ میں چہک رہے
ہیں کسی کی مجال نہیں کہ انہیں کوئی اف تک کہے ،بلکہ بادشاہ ان کیلئے
دوردراز سے کھانے کا سامان بھیجتے ہیں ۔
غار کے اندر بھی جس نے خدمت کی خدا نے اس کو بھی دارین کی سعادتوں سے مالا
مال فرمادیا ۔اﷲ تعالیٰ نے کافروں کی تدبیر کو نیچاکردیا اور اﷲ کا بول
بالا ہوکرر ہا اور اﷲ غالب اور حکمت والا ہے ۔‘‘صدیقرضی اﷲ عنہ ونبی ؐکے
دشمن آج بھی مغلوب ہوں گے اور اﷲ کی بات غالب ہوگی ، کیونکہ جس کا مقابلہ
نبی وصدیقرضی اﷲ عنہسے ہوگا اس کامقابلہ براہِ راست خداوند قدوس سے ہوگا ۔
|