13 اور 14 فروری کو 62 ممالک کے وزرائے خارجہ اور نمائندے
پولینڈ کے دارالحکومت ورسا میں ہونے والی کانفرنس میں اکٹھے ہوئے، جس کا
اہتمام پولینڈ کے وزیر برائے امور خارجہ اور امریکی وزیر خارجہ نے مشترکہ
طور پر کیا تھا۔ اس کانفرنس کا مقصد مزید محفوظ اور مستحکم مشرق وسطیٰ کے
لیے کام کرنا تھا۔ ورسا کانفرنس نے اسلحے و بیلسٹک میزائل کے پھیلاؤ سے
خطرات سے نمٹنے، مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال، متشدد انتہاپسندی وغیرہ کے
خاتمے کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل بنانے پر اتفاق رائے کیا گیا۔ کانفرنس
کا محور ایران کے گرد دائرہ مضبوط بنانے کے لیے حکمت عملی اور پابندیوں کے
مزید سختیوں کے ساتھ اطلاق کو یقینی بنانا تھا۔ کانفرنس میں بار بار
’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کا ذکر کیا گیا۔ حیرت ہے کہ ایک جانب یہ کہا جاتا ہو
کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب، کوئی سرحد نہیں ہوتی تو دوسری جانب دہشت گردی
کی اصطلاح میں ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح کا تصور پھیلانا خود ایک
جانب دارانہ عمل کی نشان دہی ہے۔
عراق پر امریکی حملے میں دنیا کو گمراہ کرنے کے لیے کیمیائی ہتھیاروں کی
موجودگی کو جواز بناکر عراق کو برباد کرنے کے بعد داعش کی بنیاد رکھنے والے
ملک کی جانب سے جب اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو سادہ
سا سوال اٹھتا ہے کہ عراق میں10 لاکھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنا کیا
اسلامی دہشت گردی تھی؟۔ ورسا کانفرنس میں اسرائیل کی مدح سرائی و مددکے لیے
امریکی صدر و نائب صدر کے جھوٹے آنسو بہانے سے ہی بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے
کہ امریکا اپنے لاڈلے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ آج ڈھٹائی سے
فخریہ بیان دیا جاتا ہے کہ ’’78اتحادی شراکت داروں کے ساتھ مل کر عراقی،
شامی، عرب، کرد، مسلمانوں اور عیسائیوں کے عیال کو آزاد کرایا‘‘۔ لیکن اس
حقیقت کو فراموش تو نہیں کیا جاسکتا کہ داعش کی بنیاد رکھنے والا دراصل خود
امریکا ہی تھا جس نے کرہ? ارض میں دہشت گردی کی بھیانک تنظیم کو مضبوط کیا۔
اب داعش کے خلاف کارروائیاں کرکے خود کو مسیحا ثابت کرنا آنکھوں میں دھول
جھونکنے کے مترادف ہے۔
آج امریکا، ایران کا شدید ترین مخالف ہے۔ ایران کی جنگجو ملیشیاؤں، حزب اﷲ
و حماس کا شدید مخالف ہے۔ ایران کی متنازع پالیسیوں کے سبب بیشتر مسلم
ممالک بھی ناراض ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی نائب صدر کے ورسا کانفرنس میں
اس بیان کی حمایت کی گئی کہ ’’ایرانی حکومت دنیا میں ریاستی سطح پر دہشت
گردی کی سب سے بڑی معاون ہے، انہوں نے امریکی سفارت خانوں پر بم حملے کیے،
سیکڑوں امریکیوں کو قتل کیا اور آج بھی امریکا و دیگر مغربی ممالک کے
شہریوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔‘‘ مغرب کو نہ جانے کیوں فلسطین میں ہونے
والے مظالم نظر نہیں آتے، مقبوضہ جموں کشمیر میں ہندوشدت پسندوں کی
کارروائیوں اور مسلمانوں سے روا مظالم پر ان کے لب کیوں سل جاتے ہیں۔ دنیا
بھر میں مسلمانوں کے خلاف منظم متشدد کارروائیوں کو امریکا کوئی دوسرا نام
کیوں نہیں دیتا، امریکا میں اگر امریکی یا یورپی دہشت گرد کوئی کارروائی
کرتے ہیں تو اسے امریکن دہشت گرد یا کرسچین دہشت گرد کیوں نہیں کہا جاتا۔
اسرائیل، فلسطینی مسلمانوں پر جو ظلم و ستم کی تاریخ رقم کررہا ہے، اسے
اسرائیلی دہشت گردی کیوں نہیں کہا جاتا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی دہشت گردی
جو نئی نئی تاریخ رقم کررہی ہے، اس پر ان ہندو دہشت گردوں کے خلاف آواز
کیوں نہیں اٹھائی جاتی۔ یمن میں 10لاکھ سے زیادہ افراد کو ہیضہ ہوا اور
مزید لاکھوں کو صاف پانی میسر نہیں۔ بھوک اس قدر عام ہے کہ ہر دس منٹ بعد
ایک بچہ کسی ایسی بیماری کا شکار ہوکر مرجاتا ہے جس کو طبی امداد دے کر
مرنے سے روکا جاسکتا تھا، لیکن یمن پر جو جنگ مسلط ہوئی تو کیا اس کی ذمے
داری ایک ملک پر عائد کرنا مناسب ہوگا؟ ذمے داری تو جنگ میں مصروف تمام
ممالک پر یکساں ہی عائد ہوگی۔
عراق میں 18لاکھ عراقی اپنے گھروں کو ابھی تک واپس نہیں جاسکے، یہ سب
امریکن دہشت گردی کی وجہ سے ہوا۔ شام میں 57لاکھ افراد اپنے گھر بار چھوڑ
کر تکلیف دہ زندگی بسر کررہے ہیں، کیا اس کا ذمے دار بھی صرف کسی ایک ملک
کو قرار دیں گے۔ امریکا بڑے فخر سے بتاتا ہے کہ اس نے مشرق وسطیٰ میں بحران
سے متاثرہ افراد کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر9ارب ڈالرز سے زائد کی امداد
دی، لیکن امریکا کی انسانی ہمدردی کے مفروضے میں افغانستان پر جارحیت کے
بعد سے اب تک ایک ٹریلین ڈالر کے اخراجات اگر فلاح انسانی پر خرچ ہوجاتے تو
کیا دنیا میں غربت کا خاتمہ نہیں ہوسکتا تھا۔ عرب ممالک کو کھربوں ڈالرز کے
جنگی ساز و سامان کی فروخت اور ان کے وسائل پر قبضے کی ایک معمولی مثال ہے
کہ سعودیہ اب تک اس 7برس کی یمن جنگ میں 216ارب ڈالر خرچ کرچکا ہے۔ اس جنگ
کے روزمرہ مصارف20ملین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ اس جنگ کے زیادہ مصارف حوثی
باغیوں کی جانب سے سعودی شہروں میں پھینکے جانے والے میزائلوں کی وجہ سے
آتے ہیں، یوں ہر میزائل کو ناکام کرنے کے لیے3پیٹریاٹ میزائل داغے جاتے
ہیں۔ ایک پیٹریاٹ میزائل کی قیمت 3ملین ڈالر ہے۔
مارچ 2015سے اب تک باغی حوثیوں نے سعودیہ پر قریباً 150بیلسٹک میزائل داغے،
پیٹریاٹ میزائل کے علاوہ سعودیہ نے امریکا سے ’’تاڈ سسٹم‘‘ خریدا ہے جس کی
حفاظت کے لیے ہر سال 100ملین سے زیادہ مصارف آتے ہیں۔ سعودیہ اب دنیا کا
چوتھا ملک ہے جو اپنے دفاع کے لیے سب سے زیادہ بجٹ مختص کرتا ہے۔ روس،
فرانس، برطانیہ سے جنگی ساز و سامان خرید رہا ہے، جن کے اخراجات کی بہت بڑی
فہرست اس کے علاوہ ہے۔ ایران اگر عراق، شام، لبنان، اردن اور یمن میں پہنچا
ہے، اس کی وجوہ میں مسلم ممالک کے اختلافات بھی تو ہیں۔
40برس قبل ایران امریکا کا دوست تھا، پھر اب امریکا کے خلاف کیوں ہے۔ کیا
اُن وجوہ کو صرف یہ بتاکر دنیا کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں کہ امریکی نائب صدر
کا کہنا ہے کہ ’’ایرانی حکومت 40برس سے بدعنوانی، جبر اور دہشت سے عبارت
ہے‘‘۔ امریکا کو مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا سمیت دنیا بھر میں
ہونے والی دہشت گرد کے اصل اسباب کو دیکھنا چاہیے کہ ردعمل کا اصل سبب
دراصل خود امریکا ہی ہے۔ اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح وضع کرکے دنیا کو
گمراہ نہیں کیا جاسکتا۔ اب امریکا چاہتا ہے کہ پھر ایک نئی جنگ اس طرح
چھیڑی جائے جس میں باقی ماندہ عرب و مسلم اکثریتی ممالک کود پڑیں اور اس کا
جنگی ساز و سامان کا کاروبار عروج پر رہے۔ ایک کے بعد ایک مسلم اکثریتی ملک
کو جنگ کا ایندھن بنانے والی امریکی پالیسیوں کا محور صرف اسرائیل کی پشت
پناہی ہے کہ جو بھی اسرائیل کے قریب ہوگا، وہی اُس (امریکا) کا دوست و حلیف
ہوگا۔ |