لال ٹماٹر ایک طعنہ ایک چلینج

لؤ جی انڈیا کے لال ٹماٹر بند ہونے کو ہیں گویا انڈیا نے ہماری ہنڈیا پر حملے کا اعلان کر دیا ہے۔گویا بیالیس بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کا بدلہ اس نے پہلا وار ٹماٹروں کی بندش کا اعلان کر کے کیا۔پنجابی میں کہتے ہیں لائی لگ نہ ہووے گھر والا تے چندرا گوانڈ نہ ہووے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے آزادی حاصل کر لی مگر شروع دن سے ہی بھارت نے اسے تسلیم نہیں کیا۔اندرا گاندھی کے باپ جواہر لعل نہرو نے مجیب پر ہاتھ رکھا وہ مجیب جو اب کچھ لوگوں کی نظر میں بڑا محب وطن تھا لیکن فوج نے اسے اقتتدار نہ دے کر متنفر کر دیا۔بھولے بادشاہ ہیں یہ لوگ جنہیں پاکستانیت بھی پرویز رشید جیسے لیفٹسٹ سکھاتے ہیں کتاب سے جن کا رشتہ نہیں ہوتا ان کے ذہن خالی پارکنگ ہوتے ہیں جہاں جو بھی چاہے اپنی گڈی کھڑی کر لیتا ہے۔ذہنوں میں اگر بھوسہ ہو تو پھر بھی بڑی بات ہے لیکن اگر ہو ہی کند ذہن تو پھر یہ بات تو کرے گا نہ کہ ہم بھی اسی رب کو پوجتے ہیں جس کو بھارتی پوجتے ہیں اور ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں ہو سکتا ہے یہ مہاشے کھاتے ہوں جھٹکے والا گوشت یا کوئی اور خبیث گوشت لیکن پاکستان کے بائیس کروڑ تو اس رب کو مانتے ہیں جو دو جہانوں کا پالن ہار ہے اور وہ اکیلا ہے جسے کسی نے نہیں جنا اور نہ ہی اس نے کسی کو جنا ہے۔بھارت بوکھلا گیا ہے آنے والے انتحابات کے لئے مودی سرکار کے پاس کوئی شو شہ نہیں ہے بیالیس فوجی مارے گئے کوئی ان سے پوچھے اتنی لمبی قطار میں جو کنوائے جا رہا تھا اس کے ساتھ جان بوجھ کر عام ٹریفک کیوں کھلی رکھی اور وہ پلوامہ کے جس کے ہر چوتھے شخص پر ایک سیکورٹی والا ہے وہاں ایک شخص ساڑھے تین کلو وزنی مواد لے کر کیسے ٹکرا گیاْسوچنے کی بات ہے دوسری بات ہے میں تو مسلمان ہوں مجھے تو چیونٹی کو مسلنے پر بھی دکھ ہوتا ہے لیکن ایسے سماج میں جہاں اچھوت ہوں ،دلت ہوں وہاں کے ذات پات میں بٹے معاشرے کے بڑوں کو ان غریب لوگوں کو جھونکنے میں کیا تامل ہو گا۔یہ سوال میں نہیں اٹھا رہا بھارت کے صحافی اٹھا رہے ہیں۔اگلے رو ز مجھے یو ٹیوب پر وہ کلپ مل گیا جس میں مرحوم احسن رشید ذوالقرنین علی خان اور راقم جدہ میں کشمیر پر بات کر رہے ہیں میرا مو ء قف مختلف تھا لیکن عمران نے واضح طور پر کہا کہ ہمیں کسی قسم کی عسکریت پسندی نہیں کرنی اگر ہم نے ایسا کیا تو اس کی سات لاکھ فوج کشمیریوں کو پھینٹا لگا دے گی ہمیں فی الحال صلح حدیبیہ کرنا ہو گی۔یہ ۲۰۰۹ کی بات ہے جدہ کے سیرٹن ہوٹل کے نویں فلور پر یہ باتیں ہوئیں۔اسے آج بھی گوگل کیا جا سکتا ہےEngr Iftikhar chaudhry and Imran Khan۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص امن و امان کی اس قدر خواہش رکھتا ہو تو اسے اس قسم کے کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟دوسری بات جس ملک میں دونی کی انویسٹمنٹ نہ آ رہی ہو جو معاشی دلدل مین پھنسا ہو اسے کیا مجبوری ہے کہ وہ اس قسم کے خطرناک کھیل میں کود پڑے۔یعنی گھر میں شاہی مہمان آ رہا ہو اور وہ کسی دوسرے ملک کے فوجیوں کو بم دھماکے سے اڑاتا پھرے۔بھارت کے نریندر سنگھ مودی بڑی مشکل میں ہیں ایک تو ان کا وہ دوست یہاں مسند اقتتدار پر نہیں ہے اس سے اقتتدار کی کرسی دور ہو گئی ہے۔بھارت خود مانتا ہے کہ اس نے نواز شریف پر بڑی انویسٹمنٹ کی ہے بنیا کبھی بغیر غرض اور بغیر کسی لاچ کے خرچ نہین کرتا ۔اس نے شیخ مجیب پر انویسٹمنٹ کی اسے ۱۹۶۲ سے اپنے ہاتھ میں رکھا اندرا نہین اس کے باپ نے شیخ مجیب کو دلاسہ دیا اور شیخ مجیب کو رنگے ہاتھوں اگرتلہ جانے کے بعد واپسی پر پکڑا۔مجیب نے تسلیم کیا کہ وہ غداری کا مرتکب ہوا ہے۔۱۹۶۲ میں ڈھاکہ میں ایک بھارتی پولیٹکل افسر بینر جی کتابIndia,Mujeeb,Bangladesh Libration&Pakistanمیں مجیب اور بھارتی قیادت کے گٹھ جوڑ کے بارے میں لکھتا ہے۔یاد رکھئے اس کتاب کا ھوالہ معروف صحافی ضیاء شاہد نے اپنی کتاب میرا دوست نواز شریف میں صفحہ۱۶۴ میں ذکر کیا ہے جو سقوط ڈھاکہ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں وہ اس کتاب کو پڑھیں۔اس چندرے گوانڈ نے پاکستان سے پیار کرنے والوں کے ذہنوں میں زہر بھرا۔اور نیلگوں پانیوں کی وہ دھرتی جہاں کے باسی مغربی پاکستانیوں سے زیادہ پاکستانی تھے انہیں مکتی باہنی قادر باہنی میں تبدیل کیا۔کہتے ہیں غدار سے زیادہ غدار کے دوستوں سے نپٹنا ضروری ہے۔ہمیں انڈیا کے انتحابات سے کیا غرض ہماری طرف سے مودی ہو یا کوئی کانگریسی ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں وہ جانے اس کا کام جانے نہ ہم کسی فوجی کو بے گناہ مارنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ہماری بد قسمتی یہ رہی کہ ہماری ماضی قریب کی حکومتوں نے بھارت کو کبھی اس زبان میں جواب نہیں دیا جس طرح عمران خان نے دیا ہے عمران خان نے مہمان کو رخصت کر کے اسی کالی شلوار قمیض میں انڈیا کو جواب دیا ہے کہ بندہ بن اگر ہمارے ساتھ کوئی چھیڑ خانی کی تو ہم جوابا جنگ شروع کر دیں گے۔اس سے پہلے منہ میں گھنگنیاں ڈالے ہمارے دلیہ کھانے والے وزیر اعظم ہوا کرتے تھے جنہیں ا س بات کی غرض تھی کہ بس ہمیں ہمارے مال میں اضافہ چاہئے چاہے پینتیس کلبھوشن پکڑے جائیں۔ستم ظریفی دیکھئے کہ نواز شریف نے آج تک اپنے منہ سے کل بھوشن کا نام نہیں لیا اور نہ اس کے سیاہ کاموں کی مذمت کی بلوچستان میں لاشوں کے انبار لگتے رہے ہزارہ کمیونٹی ماری جاتی رہی مدرسہ تحفیظ القران پنڈی میں خون کی ندیاں بہیؓ اے پی ایس کے بچے شہید ہوئے کبھی ہمارے وزرائے اعظم نے ازلی دشمن بھارت کا نام نہیں لیا۔اسھر کوئی بیالیس مرے تو بھارت نے پاکستان پر دھاوا بول دیا بھارتی میڈیا پر بیٹھے تجزیہ کار جب بات کرتے ہیں تو ان کے منہ سے جھاگ بہہ رہی ہوتی ہے وہ تو یقین کر بیٹھے ہیں کہ پاکستان نے ان فوجیوں کو مارا ہے۔کوئی عادل ڈار نامی نوجوان کا نام لیا جا رہا ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ بندہ کوئی تین ماہ سے غائب ہے ،اس کے بھائی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور مزید اطلاع یہ ہے کہ اس کے گھر کی خواتین کو بھی ہراساں کیا گیا ہے۔ایک اور بات بھی سننے میں آئی ہے کہ ایک سازش کے تحت نوجوانوں کو اغواء کیا جاتا ہے پھر اس کے بعد انہیں اس قسم کے واقعات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

بھارت نہیں چاہتا کہ اسے پھلتا پھولتا پاکستان نظر آئے وہ سمجھتا تھا کہ ان کے یاروں کے ہاتھوں لٹا پھٹا پاکستان،لٹا پھٹا ہی رہے۔عمران خان نے کیوں اسے ترقی کے راستے پر ڈال دیا ہے۔مودی کے یاروں کی بھی منطق یہ تھی کہ سنبھال کے دکھاؤ یعنہ ہم نے کچھ اس شان سے لوٹا ہے اب اسے پٹڑی پر چڑھا کے تو دکھاؤ۔اﷲ کے فضل سے سات ماہ میں عمران خان نے خارجہ،داخلہ محاذ پر شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں یہی وہ کامیابی ہے جو بھارت اور اس کے حواریوں کو ہضم نہیں ہو رہی۔

عمران خان نے اوورسیز پاکستانیوں کے بارے میں جو کچھ کر دیا ہے وہ اور ان کے اہل خانہ اس کے صدیوں تک شکر گزار ہو گئے ہیں۔

میں آپ کو ایک واقعہ بتانا چاہتا ہوں ۹۱۹۲ میں جب وہ کرکٹ کے عالمی چیمپین بنے تو شوکت خانم کے لئے چندہ لینے جدہ آئے۔ایک دوست نے کہا کہ خان صاحب ایک پرنس ہے جو ایک لاکھ ریال دے گا اس کے پاس چلتے ہیں عمران خان نے کہا نہیں یہ ہماری قوم کی ناا کا مسئلہ ہے میں پاکستانی بچوں کے پاس جاؤں گا لیکن پرنس سے نہیں مانگوں گا۔اگلے روز جب وہی عمران خان اپنے اوورسیز پاکستانیوں کے لئے پرنس سے مانگ رہا تھا کہ یہ لوگ مجھے دل سے عزیز ہیں۔ان کا خیال کریں انہیں جیلوں سے رہا کریں۔اس عمران خان اور آج کے عمران خان میں بڑا فرق آیا ہے وہ اپنی قوم کے لئے مانگتا ہے اور لوگ دل کھول کے دیتے ہیں مجھے ٹاک شو میں کہا گیا کہ آپ اپوزیشن کو پرنس سے کیوں نہیں ملواتے تو میرا کہنا تھا عمران خان اور پرنس محمد کی ایک خوبی سانجھی ہے کہ دونوں کرپٹ لوگوں کے خلاف ہیں اور ن لیگ میں ایک بھی شخص صاف نہیں ہے۔ویسے بھی شہباز شریف جاتے تو کہتے میرے پاء جی دا کج کرو۔جن کے بچوں نے سٹیل ملیں سپر مارکیٹیں،میدان احد کے ساتھ جائیدادیں،پورے سعودی عرب کا سکریپ بزنس ہتھیا لیا ہو وہ اس شہزادے کا کیا سامنا کریں گے۔جائیں شہباز شریف اور نواز شریف سے پوچھیں دونوں بھائی جہاز میں بیٹھ کر کیا کرنے گئے تھے اور کتنا دے کر آئے ہیں؟عمران خان نے جو باوقار طرز عمل اپنایا ہے
اس پالیسی پر کوئی بھی پاکستانی سوائے ان بد بختوں کے جنہیں یہ پاکستان پھلتا پھولتا اچھا نہین لگتا باقی تو سب خوش ہیں۔

جیلوں میں بند قیدیوں کی رہائی ایک ایسا کام ہے جو آج سے پہلے کوئی نہیں کر سکا مجھ سے کوئی پوچھے جیل میں بند ہونا کیا ہوتا ہے۔۲۰۰۲ میں جنرل اسد درانی نے جن چند پاکستانیوں کو جیل میں بند کرایا ان میں راقم بھی تھا۔میں جناتا ہوں دکھ کیا ہوتا ہے میری بیٹی ہر جمعرات کو ماں سے کہتی کہ امی سب کے ابو جمعرات کو بچوں کو سمندر لے جاتے ہیں میرے ابو مدینہ سے کیوں نہیں آتے۔میرے بارے میں اسے بتایا گیا تھا کہ ابو مدینہ گئے ہیں۔میں دل کی اتھاہ گرائیوں سے اپنے قائد عمران خان کو ہدیہ ء تبریک پیش کرتا ہوں کہ خان تم نے مان رکھا ہے۔میرا اﷲ جانتا ہے میں جنگ چاہنے والا نہین ہوں بلکل اسی طرح میرا قائد بھی جنگ نہیں چاہتا لیکن جب جنگ مسلط کر دی جائے تو پھر لڑنے کا فن اس پوری قوم کو آتا ہے۔یہ وہ قوم ہے جو چونڈہ کے مقام پر ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئی اور دنیا کی سب سے بڑی جنگ جو ٹینکوں کی جنگ تھی اس میں کامیابی پائی۔ہم توپ وتفنگ گولہ و بارود کی بات نہیں کرتے لیکن ہماری اس خواہش کو کمزوری بھی نہ سمجھا جائے۔یہ جنگ روائتی نہیں ہو گی دونوں ملک ایٹمی ملک ہیں دنیا کو بھی علم ہے کہ کشمیر برننگ پوائینٹ ہے۔کشمیریوں نے جد وجہد آزادی کو جو اعلی مقام تک پہنچایا ہے یہ ان کی اپنی جد وجہد ہے فلسطینیوں نے اسرائیلیوں کی آنکھیں میں آنکھیں ڈال کر جنگ جاری رکھی ہوئی ہے اسی طرح کشمیری اپنا خون دے کر اس جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں اس میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں پاکستان ان کی اخلاقی امداد تو ضرور کرتا ہے لیکن مادی امداد نہیں کرتا۔ویسے بھی جس قوم کو خون دینے میں مزہ آ جائے اسے زیادہ دیر غلام نہیں رکھا جا سکتا۔

آج بات لال سرخ ٹماٹروں کی ہوئی تو پاکستان بھر میں اس کا مزاح بنایا جا رہا ہے۔لیکن میں سوچتا ہوں کہ ہم کیا قوم ہیں اس قسم کی بنیاد چیزیں جو ہم گھر میں دابڑے میں اگائیں تو اپنی ہانڈی روٹی کا سامان گھر میں پیدا کر سکتے ہیں۔مجھے سچ پوچھیں شرم آئی کہ جو قوم ایٹم بم بنا چکی ہے وہ ٹماٹر کیوں نہیں اگا سکی۔یہ سوال پاکستان کی حکومت عوام زرعی انجینئرز کاشتکار زمیندار سب کے لئے ہے۔میں تو کہتا ہوں قوم
کہہ دے ہم نہیں کھاتے تمہارے ٹماٹر اور تمہاری سبزیاں ہم اپنی فصلیں اپنی سبزیاں اگائیں گے لیکن دشمن سے نہیں خریدیں گے۔آج ایک بھارتی چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ہم آپ کا پانی بھی بند کریں گے اور پاکستان کو پیاسا ماریں گے۔مجھے لکھنے دیجئے اور کہنے دیجئے کہ وہ بے شرم حکمران جو اقتتدار پر ڈاکہ تو بغیر کسی کے پوچھے مارتے رہے لیکن کالا باغ کے لئے وہ چاروں صوبوں کی مشاورت مانگتے رہے۔کاش آج آپ اس بھارتی بوڑھے کی بات سنتے تو آپ بھی کہہ اٹھتے کہ ستر سال میں جو بے حسی ہمارے حکمرانوں نے کی اگر اسے جاری رکھا گیا تو اﷲ نے تو ہمیں معاف نہیں کرنا ہی نہیں یہ قوم بھی ہمیں معاف نہیں کرے گی۔اﷲ کو کیا جواب دیں گے جو آپ کے گلیشیئرز کو چار چاند لگا رہا ہے بارشیں لاجواب ہو رہی ہیں لیکن آپ کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کے لئے کوئی ڈیم نہیں ہے۔کل جب موسم برسات ہو گا گرمی ہو گی پانی پگلے گا سیلاب آئیں گے تو پھر ہم ۔۔۔۔بس نہ پوچھیں ہمیں اس وقت چلو بھر پانی لینا ہو گا۔کیا ہم بھی ڈیم بنائیں گے کیا ہم بھی ٹماٹر اگائیں گے اور کیا ہم بھی خود کفیل ہوں گے؟یہ سوال زندہ ہیں۔اگر ہم اس قوم کو ڈیم نہ دے سکے اور اپنی ضرورت کے پھل اور سبزیاں نے اگا سکے تو دشمن ہمیں یونہی طعنے دیتا رہے گا۔اسی طرح کے الزامات لگا کر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کرے گا۔دوستو لال سرخ ٹماٹر ایک طعنہ بھی ہے اور ایک چیلینج بھی مجھے پورا یقینہے ہم اس طعنے کا جواب خود کفیل ہو کر دیں گے-

Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry
About the Author: Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry Read More Articles by Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry: 418 Articles with 324727 views I am almost 60 years of old but enrgetic Pakistani who wish to see Pakistan on top Naya Pakistan is my dream for that i am struggling for years with I.. View More