ظلم کی مشین کا پرزہ اور اخوان المسلمین

20 لاکھ کے جم غفیر نے حسنی مبارک کے 30 سالہ سیاہ دور ڈکٹیٹر شپ کی فصیلوں کو جڑوں سمیت زمین بوس کر ڈالا۔ حق و باطل کے اس معرکے میں عوام کی جیت ہوئی۔ سامراجیت اور ملوکیت کے بت پاش پاش ہوگئے۔ امریکی صدر اوبامہ اور انکے راتب زدگان کی تمام چالیں ناکام ہوئیں۔ یوں تو وائٹ ہاؤس روزانہ لاکھوں کے انسانی سمندر کی جوہری لہروں کی راہ میں رخنہ ڈالنے، دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور اپنے پروردہ مرغ دست اموز حسنی مبارک کی ڈولتی ہوئی نیا کو بچانے کی خاطر دوغلے بیانات کی چاند ماری کرتا رہا ہے۔ اوبامہ اینڈ کمپنی کی تمام خواہشات دھول کی طرح لحد نشین ہوگئیں۔ ابتدا میں اوبامہ نے اپنے حواری مبارک کی گو شمالی کا تاثر دیا مگر بعد میں امریکی پالیسی میں تبدیلی ہوگئی ۔وائٹ ہاؤس کا ترجمان ابتدا میں تسلسل سے حکومتی تبدیلی کا بے سرا راگ گاتا رہا مگر انقلابی سرفروشوں کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی یوں امریکہ نے ہتھیار ڈال دئیے اور قیاس تو یہ ہے کہ انکل سام نے شائد حسنی مبارک کو کہہ دیا تم محلات میں بیٹھ کر اپنے مخالفین کا حشر دیکھو اور اقتدار کسی بغل بچے کو منتقل کردو جسکی سفاکیت اور درندگی کابل و عراق میں امریکی و اتحادی فورسز کو مات کردے۔ یوں اختیارات نائب صدر عمر سلیمان کو منتقل ہوگئے۔ عمر سلیمان سے خیر کی توقع کرنا ہی عبث ہے۔ عمر سلیمان کو مصری قوم پر ایک نئے سفاکانہ عذاب کی شکل میں مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مصر میں پچھلی تین دہائیوں سے عقوبت خانوں میں عوام کی روح پر جو چرکے لگائے جاتے رہے اسکی ذمہ داری حسنی مبارک پر عائد ہوتی ہے مگر مجہول و بے بس مصریوں پر ظلم و ستم ڈھانے کا ٹھیکہ پچھلے 4 سالوں سے عمر سلیمان کے سپرد تھا۔ عمر سلیمان کی سفاکیت اور درندگی کے چرچے یورپ کی فضاؤں تک گونجتے ہیں۔ وہ سامراجیوں کی بنائی ہوئی ظلم کی مشین کا ایک پرزہ ہے۔ سامراجی نظام کے باغی جو امریکی ایجنسیوں کے لئے درد سر بن جاتے تو انہیں عمر سلیمان کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ وہ آقاؤں کی خوشنودی کے لئے توقعات سے سو گنا زائد وحشی بن جاتا ہے۔ وہ مطلوبہ شخص پر ٹارچر کے ایسے نسخے استعمال کرتا کہ مظلوم بلا چون چراں مطلوبہ بیانات دینے پر آمادہ خاطر بن جاتا۔ جاپان ٹائمز آن لائن کی خبر کے مطابق گوانتاناموبے میں ایک قیدی ایسا تھا جو امریکیوں کی تمام وحشیانہ کوشش از بسیار کے بعد جلادوں کی خواہش پر بیان دینے سے انکاری ہوگیا تو اسے عمر سلیمان کے سپرد کیا گیا۔ عمر سلیمان کے تشدد کار بھی ناکام ہوگئے۔ تب عمر سلیمان خود عقوبت خانے پہنچ گیا ۔ وہ قیدی سے گویا ہوا کہ اب تمھیں ایسی موت نصیب ہوگی جسکا منظر تم پہلے دیکھو گے۔ عمر سلیمان نے دوسرا قیدی منگوایا اور قصابوں کو حکم دیا کہ اسے آخری دم تک زندہ ر کھ کر جسم کے چھوٹے چھوٹ ٹکڑے کا ٹے جائیں۔ اسے اس وقت موت آئے جب آخری ٹکڑا کاٹا جائے۔ ایسی چنگیزانہ بات سنکر روح لرز اٹھتی ہے۔ عمر سلیمان کے حکم کی ابتدا ہوئی تھی کہ امریکی قیدی نے ہاتھ کھڑے کردئیے۔ مصری قوم کا ایسے بھیڑیوں کی حاکمیت سے آزاد ہونا خوش آئند ہے۔ حسنی مبارک کے دھڑن تختے پر واشنگٹن پر مایوسی اور نراسیت کے سائے دراز ہیں۔ اوبامہ کمپنی اور اسرائیل کو خدشہ ہے کہ کہیں اخوان المسلمین تخت مصر تک رسائی حاصل نہ کر لے ۔ الاخوان تحریک آزادی فلسطین کی پرزور حامی رہی ہے ۔ الاخوان کے کئی عسکریت پسندوں نے plo کے ساتھ ملکر یاسر عرفات کے عہد شباب میں یہودیوں کی خوب درگت بنائی۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ انقلاب مصر کی روشنی میں فلسطینیوں کو حق خود ارادیت دینے کے لئے اسرائیل کو قائل کرے۔ ورنہ اسرائیل نیزے کی انی پر رکھا ہوا وہ تربوز ہے جسکا پیٹ نیزے کی ہلکی جنبش سے چاک ہوسکتا ہے؟ مصر میں معروف تنظیم الااخوان المسلمون بھی انقلابی کارواں میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرتی رہی۔ الاخوان امت مسلمہ کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم ہے جس کی بنیاد کا سہرہ سکول ٹیچر حسن النبا کے سر جاتا ہے۔یہ1928 کو معرض وجود میں آئی۔ حسن البنا درد دل رکھنے والے صوفی سکالر تھے جنکی سحر انگیز شخصیت قلیل وقت میں الاخوان کی عالمی سطح پر پزیرائی کا نسخہ ثابت ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب مصر سیکولر ازم کے پجاریوں لادین عناصر اور اسلام مخالف قوتوں کا مرکز بن گیا تھا ۔ روشن خیالی کے لغو آمیز فلسفے نے ہر طبقہ زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دانشور طلبہ اور ایلیٹ کلاس کے علمبردار امشرقی تہذیب کی بجائے یورپین ثقافت کی پیروی مغربی افکار کی کارفرمائی اور انگلش رسم و رواج کی نقالی میں دھت ہوگئے۔ الاخوان نے تحریر تقریر اور اسلامی تعلیمات پر مبنی لٹریچر سے مغرب زدہ طبقات کے احساس محرومی اور احساس کمتری سے لبریز مغربی فلسفے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ الاخوان نے1940 تک اپنے حجم میں بے پناہ اضافہ کیا اور اسکی چاشنی مصر سے نکل کر شام ایران عراق مڈل ایسٹ اردن کویت تک پھیل چکی تھی۔ الاخوان کی دیدہ زیب و درخشندہ بڑھوتری نے امریکی و یہودی ایوانوں میں تھرتھلی مچا دی۔ الاخوان کے بانی مرشد حسن البنا کو1949 میں اسلام دشمن عناصر نے قتل کر ڈالا۔ مصر میں جمال ناصر نے فوجی انقلاب برپا کیا تو الاخوان اسکی دست بازو بن گئی مگر بدقسمتی تو یہ ہے کہ جمال نے حکومتی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد الاخوان کو پیچھے دھکیل کر دیوار سے لگا دیا۔ ناصر جمال سیکیولر افکار کا دیوانہ و جنونی بن گیا۔1954 میں جمال انتظامیہ نے الاخوان کے خلاف کریک ڈاون شروع کر کے بیس ہزار کارکنان کو گرفتار کرلیا۔ جمال ناصر پر اسی سال ہونے والے قاتلانہ حملے کا الزام الاخوان کے سر تھوپا گیا۔ الاخوان کی مطبوعہ کتاب زندان کے شب و روز کے مطابق تنظیم کے درجن سے زائد جید علما فضلا دانشوروں اور فلاسفروں کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ پھانسی پانے والوں میں عبدالقادر عودہ ازہری عالم شیخ شامل تھے۔ ستر کی دہائی کا قلیل عرصہ الاخوان کے لئے نیک بخت ثابت ہوا مگر ساٹھ اور پچاس کی دہائی میں پھانسیاں کوڑے ٹارگٹ کلنگ قید و بند کی صعو بتیں تنظیم کے مقبول کارکنان اور علمائے کرام کا مقدر بنیں۔2005 کے پارلیمانی الیکشن میں الاخوان نے بیس فیصد نشتیں جیت کر تھرتھلی مچا دی حالانکہ حسنی مبارک کی کھلے بندوں ہدایت تھی کہ اخوانی ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ الاخوان اس وقت مصر میں واحد جماعت ہے جس کے پیچھے عوام کی عالمگیر حمایت موجود ہے۔ حسنی مبارک کے خلاف تحریک چلانے میں الاخوان نے تابندہ کردار ادا کیا۔ مغرب اور امریکہ کے تحفظات دور کرنے کے لئے الاخوان نے اعلان کردیا ہے کہ وہ صدارتی الیکشن میں حصہ نہیں لے گی۔ اب دیکھنا تو یہ ہے کہ مصری افواج جو مغربی روشن خیالی کی دلدادہ ہے وہ الاخوان کے متعلق کیا فیصلہ کرتی ہے؟ الاخوان کے مرشد عاکف مہدی نے مستقبل کے لائحہ عمل کے متعلق میڈیا کو بتایا کہ وہ بندوں کو خدا کے قریب تر لانے کی کوششیں کریں گے۔ جب افراد تبدیل ہوتے ہیں تو معاشرے میں خوشگوار تبدیلی آتی ہے جب معاشرہ تبدیل ہوتا ہے تو تب اقتدار بھی ہاتھ میں آجاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم پر امن اور جمہوری انداز میں اپنا مشن جاری رکھیں گے اور کسی بھی صورت میں تشدد کا راستہ منتخب نہیں کرسکتے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے الاخوانی رہنماabdul moneem کے مکالے(مصری انقلاب الاخوان اور امریکہ) میں وہ مستقبل کی منصوبہ بندی کا تجزیہ کرتے ہیں۔ مصری لوگ آمریت سے نجات حاصل کرچکے ہیں اور انکی خواہش جمہوری طرز حکمرانی کا نفاذ ہے۔ وہ امریکہ سے اپیل کرتے ہیں کہ ہماری خواہش ہے کہ امریکہ مشرق وسطی سے متعلق امریکی پالیسی کو معروضی حالات کی روشنی میں تبدیل کیا جائے ایک ایسی پالیسی جو حقائق پر مبنی ہو نہ کہ اسلام سے نفرت کرنے والے متعصب شرانگیز پالیسیوں پر اثر انداز ہوں ۔امریکہ فراخ دلی سے عوامی امنگوں کا احترام کرے۔ ابو المنیم اور الاخوان کی مجموعی سوچ قابل دید ہے کہ اپنے نمائندوں کے چناؤ کا اختیار صرف مصری قوم کا حق ہے ۔ علاوہ ازیں مصریوں کی زندگی میں اسلام کا کیا کردار ہونا چاہیے اسکا حق بھی قوم کو ملنا چاہیے۔ امریکہ جو مڈل ایسٹ میں اسرائیل کی تھانیداری کے لئے کسی عرب ملک کو خاطر میں نہیں لاتا اگر امریکہ خطے میں سیاسی استحکام و امن چاہتا ہے تو پھر ایک طرف اسے عرب خطے کی ملوکیت کی سرپرستی ختم کرنی ہوگی تو دوسری جانب اوبامہ اسرائیل کو ازاد فلسطینی ریاست کے قیام پر راضی کریں۔ دنیا الاخوان کی جمہوری سوچ و فکر کی قدر کرے۔ مصری فوج الاخوان کو کارنر کرنے کی بجائے انکی جمہوری سیاسی طاقت کو تہہ دل سے قبول کرے۔ مصری قوم نگران حکومت ریاستی فورسز امریکہ الاخوان کو نظر انداز کرنے کا خیال ہی دل سے نکال دے اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر حالیہ انقلاب جمہوریت کو فروغ دینے کی بجائے انتہاپسندی فرقہ واریت اور نسلی گروہ بندی کو پروان چڑھانے کا سبب بن سکتا ہے۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 129140 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.