وزیراعظم عمران خان نے حکومت سنبھالنے کے بعد پی ٹی وی
میں اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر ایک
اسلامی فلاحی مملکت بنایا جائے گا جہاں پر غریبوں کو انصاف ملے گا۔ بے
روزگاروں کو روزگار ملے گا۔ بے گھرافراد کو آسان قسطوں پر سائبان مہیا کیا
جائے گا۔ جہاں کوئی بھوکا نہیں سوئے گا اور ماضی کے حکمرانوں کی غلطیاں
نہیں دہرائیں جائیں گے مگر آج تحریک انصاف کے حکمرانی کے چھ ماہ گزر چکے
ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھے اتنا ہی عرصہ
گزر گیا ہے لیکن کیا ہوا ؟ ریاست مدینہ کی دعویدار سرکار اپنا ایک وعدہ بھی
وفا نہ کر سکی۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی حکومت ہے جس نے اپنے پہلے چھ
ماہ کی مدت میں ہی تین بجٹ پیش کر ڈالے۔ ڈالر نے ایسی اڑان بھری کہ ابھی تک
نیچے نہیں آ سکا۔ افراط زر کی شرح میں مسلسل اضافہ‘ پٹرول کی قمت میں اتار
چڑھاؤ جاری ہے حتی کہ اس کی قیمت بھی مستحکم نہ ہو سکی۔ وزیر خزانہ اسد عمر
جن کا شمار ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت کے انقلابی وزیروں اور نئے
پاکستان کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ ان کے سب دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ الیکشن
سے قبل وزیر موصوف یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ہم آئیں تو پٹرول سستا کر دیں
گے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جان بوجھ کر قیمتیں بڑھا رکھی ہیں کیونکہ نصف
سے زائد منافع ان کی جیبوں میں جا رہا ہے۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ تیل مہنگا‘
سوئی گیس مہنگی بلکہ ندارد‘ بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافہ‘ حج کے مجموعی
اخراجات سے سبسڈی کا خاتمہ‘ ٹرانسپورٹ میں سے بھی رعایت اٹھا لی گئی۔ حکومت
وقت سے سوال ہے کیا یہ ہے کہ فلاحی ریاست کا تصور؟ ۔جہاں غریب خط غربت سے
بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے
ہیں۔ ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ بھی وفا نہ ہو سکا۔ پچاس لاکھ گھروں کے بارے
میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ جب وہ تعمیر ہو جائیں گے تو اس میں کم آمدنی
والے کا کتنا حصہ ہوگا؟ اور اگر نچلے طبقے کو گھر ملا بھی تو اسے کس پل
صراط سے گزرنا ہوگا؟ بازاروں میں چلے جائیں ہر طرف مندی کا رجحان ہے۔ گوشت
کا کیا کہیے اس مہنگائی کے پرآشوب دور میں دال پکانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔
کبھی کہا جاتا تھا کہ دال غریب کی ساتھی ہے لیکن موجودہ حالات میں لگتا ہے
کہ دال بھی غریبوں کی دسترس سے دور ہو چکی ہے۔ اشیائے خورد و نوش کے ریٹ اس
قدر بڑھا دئیے گئے ہیں کہ اس وقت سے ڈر لگتا ہے جب خلق خدا روٹی کے لئے
ترسے گی!…… حالیہ اعداد و شمار کے مطابق وطن عزیز میں مہنگائی کی شرح میں
اضافے قوت خرید کم ہو رہی ہے۔ کاروبار خسارے پر چل رہے ہیں۔ حکومتی معاشی
پالیسیوں نے کاروباری طبقے کو بھی مشکلات میں ڈال دیا ہے ہر طرف افراتفری
کا عالم ہے۔ آپا دھاپی چھائی ہوئی ہے۔ صاف ظاہر ہے جب ٹیکسوں کی شرح بڑھ
گئی تو بزنس مین اس اضافے کو عوام کی جیبیں صاف کر کے پورا ہوگا تو فرق تو
پڑے گا ایک عام آدمی کو جو مہنگائی کی اس چکی میں مزید پسے گا۔ صحت عامہ کی
سہولیات جن کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ ہیلتھ کارڈ تو بنا لئے گئے کیا حکومت
بتائے گی کہ ان صحت کارڈوں کا فائدہ کون سا طبقہ اٹھائے گا کیا پاکستان کا
وہ طبقہ جس کے لئے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس
تک یہ کارڈ کی سہولیات پہنچ پائے گی یا پھر صحت کارڈ کے اجراء کا اعلان بھی
محض حکومتی دکھاوا ہے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کو بھی
شکوہ ہے کہ انہیں ہسپتال میں سہولیات فراہم نہیں کی گئی۔ سوال تو یہ بھی
اٹھتا ہے کہ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں زندگی کی تمام تر آسانیاں و
سہولیات صرف اشرافیہ کے لئے ہیں۔ یہاں غریب صرف سسک کر مرنے کے لئے رہ گئے
ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں نہ دوائیں مل رہی ہیں نہ مریضوں کے لیٹنے کے لئے
بیڈز ہیں اور نہ ہی ان کا علاج و معالجہ کرنے کے لئے ڈاکٹرز دستیاب ہیں۔
سرکاری ہسپتالوں کے عملے کا یہ کہنا ہے کہ دوائیاں خریدنے کے لئے بجٹ ہی
نہیں۔ کیونکہ حکومت وقت نے صحت کے شعبے میں سہولیات بہم پہنچانے سے ہاتھ
کھینچ لیا ہے۔ زندگی بچانے والی مشینیں خراب پڑی ہیں۔ وینٹی لیٹر تک کی عدم
دستیابی نے مفلس و بدحال لوگوں کی سانسیں بھی چھیننا شروع کر دی ہیں۔ کیا
یہ ہے نیا پاکستان سعودی عرب کے ولی عہد کے پروٹوکول کے لئے کروڑوں روپے
رینٹ پر لگژری گاڑیاں کرائے پر حاصل کی گئی ہیں۔ اﷲ کا شکر ہے کہ وزیراعظم
ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے میں تاخیر ہوگی وگرنہ معزز مہمانوں اور ان کے عملے
کے قیام و طعام کے لئے کوئی فائیو سٹار ہوٹل بھی کروڑوں روپے پر کرایے پر
لینا پڑ جاتا۔ یہ حکومت ریاست مدینہ کی دعویدار جس کو اپنی سمت ہی نہیں
معلوم کہ وہ کرنا کیا چاہ رہی ہے اور مستقبل میں عوام کے لئے کیا منصوبے
پیش نظر ہیں۔ ہر روز کابینہ کے اجلاس کی طلبی کی بجائے ضروری ہے کہ
وزیراعظم عمران خان صاحب عوامی مسائل پر توجہ دے اور ان کے جلد از جلد حل
کیلئے ممکنہ اقدامات اٹھائے۔ سبسڈی ودیگر مراعات کاخاتمہ نہ کریں بلکہ بطور
اسلامی مملکت کے سربراہ اپنے شہریوں کی مراعات و سہولیات میں اضافہ کرتے
تاکہ حقیقتاً ریاست مدینہ کا تصور ابھرتا۔ مگر یہاں تو ریاست مدینہ کی آڑ
میں عوام کو ہی قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ پچھلی حکومتوں کے معاشی
خسارے اسی مفلس و غربت کے مارے لوگوں سے پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اب غریب کہاں جائیں کس سے داد رسی چاہیں۔ ریاست مدینہ ہوتی تو حاکم وقت سے
سوال کرنے کی انہیں اجازت ہوتی کہ ہمارا کیا قصور ہے؟ گزشتہ حکمرانوں سے
مخاصمت کا ملبہ ہم پر کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ اسلامی ریاست تو وہ ہے جہاں
خلیفہ دوم حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ دریائے دجلہ کے کنارے اگر ایک کتا
بھی بھوکا مر جائے تو قیامت کے دن مجھے اس کا جواب دینا ہوگا اور یہاں تو
روزانہ افراد روٹی کے ایک لقمے کے لئے ترس رہے ہیں۔ سڑکوں پر چلے جائیں
گداگروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے سکول جانے کے بجائے
شاہراؤں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ بے سہارا و غریب خواتین اپنے اہل خانہ
کا پیٹ بھرنے کے لئے اپنی عزت تک کا سودا کرنے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ فلاحی
ریاست کے سربراہ نے ان کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائی تھی تو وہ تو نئے
پاکستان کی تعمیر میں مصروف ہے۔ انہیں تو یہاں ریاست مدینہ قائم کرنی ہے ۔خواہ
اس کی بنیاد غریبوں کی سسکیوں‘ آہوں اور انہیں بھوک و افلاس سے مار کر ہی
کیوں نہ رکھنی پڑے؟
|