ورچوئل دلہن سے شادی

یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی صدی ہے۔ دنیا کو گلوبل ویلج کہا جاتا ہے۔اس ویلج کے سارے شوہر تھلے نہیں لگے۔کچھ نیچے بھی لگے ہیں۔ ویلج سائنسی ترقی کے زیر اثر ہے ۔کوئی مانے یا نہ مانے ماڈرن پیار کی پیمائش کیلکولیٹر سے ہوتی ہے۔پھول کی پتیاں توڑ کر۔’’لومی اورلو میں ناٹ ‘‘کا دور پرانا ہو چکا ہے اور چوڑیاں توڑ کر ہاتھ پر۔ ست نکالنے والا دور پاٹا پرانا۔یہاں ’’سائنٹیفک لو‘‘ کا چرچا ہے۔ لیکن اس گلوبل ویلج کاکوئی فیثاغورث، کوئی نیوٹن یا کوئی سٹیفن ہاکنگ پتہ نہیں کر سکا کہ نیچے لگنے کا عمل کب شروع ہوتا ہے۔ انسان کتنا نیچے لگ سکتا ہے۔اور لوگ کیسے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ فلاں نیچے لگ چکا ہے۔

کہتے ہیں کہ’’نیچے گرناایک حادثہ ہےاورنیچے رہنا مرضی‘‘۔اس جملے کی تفسیرسمجھ نہ بھی آئے تو بھی خیر ہے کیونکہ تاثیر۔ با آسانی سمجھ آجائے گی۔ تفسیرتو کہتی ہے کہ۔جملے کا پہلا حصہ کنواروں کے لئےہے اوردوسراشوہروں کے لئے۔ شوہر ہمیشہ اوپررہنے کے شوقین ہوتے ہیں لیکن انہیں جگہ نیچے ملتی ہے۔ہو سکتا ہے بنتی بھی نیچے ہی ہو۔ اور بیویاں سماج میں نیچے رہتی ہیں جبکہ گھروں میں اوپر۔ہو سکتا ہے ان کی جگہ بنتی بھی ایسے ہی ہو۔
گھر میں مہمان زیادہ آ گئے تو شیخ جی چارپائی لینے محلے میں نکل گئے۔
ٹھک ٹھک۔ کون ہے۔ ؟۔ بولے جناب اضافی چارپائی ہے تو عنایت کردیں۔ مہمان آن ٹھہرے ہیں۔
جواب آیا۔: ہمارے گھر خود دو چارپائیاں ہیں۔ ایک پر میری بیوی اور میری ماں سوتے ہیں۔دوسری پر۔میں اورابا۔
شیخ: جناب۔ چارپائی بے شک نہ دیں لیکن اپنی ترتیب توٹھیک کر لیں۔
کنواروں کی کوئی ترتیب نہیں ہوتی۔ خواہ ان کے گھر مہمان ہی آئے ہوں۔ اور شادی شدہ کی کوئی ترتیب نہیں رہتی۔ خواہ چارپائیاں دو سے زیادہ ہی ہوں۔شادی ہوتے ہی شوہر معذورہو جاتے ہیں۔ ایسے معذروں کے لئے بیوی بیساکھی بن جاتی ہے۔ اور پھر شوہر دوسری بیساکھی کی خواہش کرنے لگتا ہے۔بعض لوگ اپاہج ہوتے ہیں۔ ان کی شادیوں کاشمارکسی مناسب وقت پر کیا جائے گا۔تمہیدی جملے’’نیچے گرنا ایک حادثہ ہے اورنیچے رہنا مرضی‘‘۔کی تاثیر اگر گرم ہے تو’’کولڈ بلڈڈ‘‘حضرات حادثے کوواقعہ۔۔اور۔۔مرضی کوخواہش پڑھ سکتے ہیں ۔یوں جملے کی’’دوشیزگی‘‘ توچھن جائے گی لیکن تاثیر ٹھنڈی اورتفسیر قابل فہم ہو جائے گی۔تونیا جملہ یوں پڑھا جائے گاکہ ’’نیچے گرنا ایک واقعہ ہے اورنیچے رہنا خواہش‘‘۔
زندگی واقعات کا مجموعہ ہے اور واقعات رونما ہونے کے لئے ہوتے ہیں جبکہ خواہشات کی شکل انسانی اور حیوانی دونوں ہو سکتی ہیں۔ساری خواہشات دم توڑنے کےلئے جنم لیتی ہیں۔کچھ تشنہ لبیِ میں چند ایک سیراب ہو کر۔معاملہ خواہ کچھ بھی ہوپستی کی خواہش کوئی نہیں کرتا۔حتی کہ ملٹی سٹوری بلڈنگزکے علاوہ ہربندہ اوپررہنا چاہتا ہے۔ہم تخیل پرست ہیں۔ تخیل۔ سوچوں۔ خواہشوں اور خوابوں کی ’’آرام گاہ‘‘ہے۔ جس کی منزل لا مکاں ہے۔۔لیکن یہاں اتنے اوپر کا نہیں تھوڑا نیچے کا تذکرہ ہو رہا ہے۔حالانکہ ۔تھوڑا نیچے بھی خاصا اوپر ہے۔۔تھوڑا نیچے کے قریب ہی بلکل نیچے ہے اور پھر یہ راستہ زمین پر پہنچتا ہے۔اور تنزلی کا آخری سٹاپ’’ٹویہ‘‘ ہے۔نیچے رہنے کی مرضی کو ’’ٹوئے‘‘میں رہنے کی خواہش سمجھا جاتا ہے۔ میرا دوست شیخ مرید کہتا ہے کہ’’ خواہش غالب بھی ہو سکتی ہے اور مغلوب بھی‘‘۔مجھے قطعی حیرانی نہ ہوئی تو بولا۔’’ غالب ۔ فاتح بھی ہو سکتا ہے اور مفتوح بھی‘‘۔یہ منقسم سوچ ہے۔حیرانی والی۔ مجھے غیرمنقسم پسند ہیں۔وہ شیخ ہے کہتا رہتا ہے۔ اول فول۔میں کہا تفسیر میں کچھ ہے تو بولا۔جس طرح بعض بیویاں گھروں میں شوہر ہوتی ہیں اور بعض شوہر گھر میں بیوی۔
میں نے کہا ۔!
’’خواہش غالب بھی ہو سکتی ہے اور مغلوب بھی‘‘۔کے بارے میں کچھ کہو۔ بولا۔اس کی تاثیر مسلسل گرم ہے۔ کثافت نکالنے کے بعداس کی ہیئت میں نہیں کیفیت میں تبدیلی آئی ہے۔۔۔ !۔ حالات، واقعات اور کیفیات جو بھی ہوں۔ مرضی کو ہمیشہ مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ مرضی نیچے رہنے کی ہو تو اوپر رہنا ملٹی سٹوری بلنڈنگ کی آخری منزل پر رہنے جتنا مشکل ہو جاتا ہے۔
نیچے رہنا اور نیچے لگنا۔ دو الگ الگ کیفیات ہیں۔لیکن اوپر رہنا اکلوتی کیفیت ہے۔جس کا کوئی متضاد ہے نہ ہمزاد۔شادی شدہ دوستوں کی محفلوں میں اکثر ایسے تذکرہ ہوتے ہیں۔ برگر کلاس جسے نیچے لگنا کہتی ہے۔ پراٹھا کلاس اسے کہتی ہے تھلے لگا۔ میں نے آج تک کسی سے نہیں سنا کہ’’فلاں اوپر لگا ہے‘‘۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی صدی ہے۔ دنیا کو گلوبل ویلج کہا جاتا ہے۔اس ویلج کے سارے شوہر تھلے نہیں لگے۔کچھ نیچے بھی لگے ہیں۔ ویلج سائنسی ترقی کے زیر اثر ہے ۔کوئی مانے یا نہ مانے ماڈرن پیار کی پیمائش کیلکولیٹر سے ہوتی ہے۔پھول کی پتیاں توڑ کر۔’’لومی اورلو میں ناٹ ‘‘کا دور پرانا ہو چکا ہے اور چوڑیاں توڑ کر ہاتھ پر۔ ست نکالنے والا دور پاٹا پرانا۔یہاں ’’سائنٹیفک لو‘‘ کا چرچا ہے۔ لیکن اس گلوبل ویلج کاکوئی فیثاغورث، کوئی نیوٹن یا کوئی سٹیفن ہاکنگ پتہ نہیں کر سکا کہ نیچے لگنے کا عمل کب شروع ہوتا ہے۔ انسان کتنا نیچے لگ سکتا ہے۔اور لوگ کیسے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ فلاں نیچے لگ چکا ہے۔
کئی برس ہوئے گھروں میں لوہے کی بالٹیاں اورتگاریاں ہوا کرتی تھیں۔ پانی کی کثافت کی وجہ سے بالٹیوں کےپیندے کو زنگ کھاجاتا تھا تو کہا جاتاکہ بالٹی کو تھلہ لگوا لیں۔تھلہ لگنےسے بالٹی دوبارہ قابل استعمال تو ہو جاتی۔ لیکن بالٹی میں لگا ہوا تھلہ ہمیشہ نمایاں رہتا۔میرا دوست مریدتھلے لگا ہوا تھا۔ انتہائی نمایاں۔پراٹھا کلاس
۔۔ اسے اپنی مرضی سے نیچے رہنا پسند ہے۔جھوٹا کہتا ہے اوپر مجھے ٹھنڈ لگتی ہے۔ حالانکہ ہمیں پتہ ہے۔بلوچستان کی طرح مرید بیچارے کے سارے حقوق غصب کئے جا چکے ہیں۔ اور اس کی سگی بیوی نصیبو۔۔غاصبہ نکلی تھی۔ جو وفاق بن کر بیچارے کےوسائل پر قبضہ کئے بیٹھی تھی۔ حتی کہ آمدنی سے رائلٹی بھی کبھی کبھار ہی ملتی تھی ۔مرید کے سالے۔ نصیبو کا عسکری ونگ تھے۔وہ جب چاہتی ہے’’رینجرز‘‘ کو بلا لیتی اور ’’رینجرز‘‘ کے قیام میں من چاہی توسیع بھی کر دیتی۔ گھر میں زبردستی امن وآشتی کا ماحول قائم کیا گیا تھا۔آغاز حقوق بلوچستان پر ایک بار بھی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
کہتے ہیں کہ شوہر اگر دو جگہ پر خاموشی اختیار کر لے تو اس کی زندگی خوشگوارہو سکتی ہے۔
نمبر ایک: جب بیوی بات کررہی ہو خاموش رہے اور
نمبر دو:جب بیوی خاموش ہو تو خاموش رہے۔
لیکن جاپان کے شہر ٹوکیو کا رہائشی 35 سالہ آکی ہائیکو خاموش نہیں رہ سکتا۔ اس نے خوشگوار زندگی کے لئےایسی لڑکی سے شادی کر لی۔ جس کا دنیا میں کوئی حقیقی وجود ہی نہیں۔ورچوئل دلہن۔ شادی پر تقریبا 18 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ دلہے اسے شادی کی انگوٹھی بھی پہنائی ۔اوراپنی دلہن ’’‘ہیتسونے‘ کوبہترین رفیقِ حیات قرار دیا۔’ہیتسونے‘ ایک ورچوئل۔ ہولو گرام۔ دلہن ہے۔جس کی ہیت کھلونے جیسی ہے۔ ہولو گرام بنانے والی کمپنی نے شادی کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کردیا ہے۔جس پر لکھا ہے انسان اورہولوگرام آپس میں شادی کرسکتے ہیں۔جو زمان و مکان اور جہتوں سے ماورا ہوتی ہے۔دلہاکہتا ہے کہ ورچوئل دلہن انہیں ہر وہ خوشی دے گی۔ جس کی توقع کسی حقیقی عورت سے کی جاسکتی ہے۔
اللہ ہی جانے۔؟
کہتے ہیں کہ جن کے پاس حل نہیں ہوتے۔ وہ لوگ مسائل کی تعریف کرتے ہیں۔ اور پھر مسائل کے ساتھ خوش گوار زندگی گذارتے ہیں۔مریدکو۔ورچوئل دلہن کا آئیڈیا بہت اچھا لگا۔اسے حل تو مل گیا تھا لیکن وہ نصیبو کے ساتھ ہی خوش رہنا چاہتا ہے۔خواہ لوگ کہتے رہیں کہ’’نیچے گرناایک حادثہ ہےاورنیچے رہنا مرضی‘‘۔

Ajmal Malik
About the Author: Ajmal Malik Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.