آسام کی صعوبت ، کشمیر کی اذیت

پلوامہ حملے کے بعد بی جے پی کے سربراہ امیت شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ مودی کی حکومت آسام کو ایک اورکشمیرنہیں بننے دے گی، اس لئے سٹیزنز بل لایا گیا ہے ۔اس تقریر کو سننے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا آسام اور کشمیر یکساں مسائل سے نبردآزما ہیں حالانکہ دونوں مقامات پر متضاد صورتحال ہے۔ کشمیر کا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں خودمختاری کی تحریک چل رہی ۔ کڑی فوجی کارروائی کی مدد سے اس پر قابو پانے کے لیے وہاں سے کشمیری پنڈتوں عارضی طور پر نکالا گیامگر انہیں پھر سے بسایا نہ جاسکا حالانکہ حریت بھی ان کو واپس آنے کی دعوت دےچکی ہے ۔ حالات اس قدر کشیدہ ہوچکے ہیں کہ وہ لوٹنا نہیں چاہتے ۔ اس کے برعکس آسام کے مقامی لوگوں کو باہر سے آکر بسنے والوں سے شکایت ہے ۔ ایک زمانے میں آسام کے سرکاری اداروں میں زیادہ تر مغربی بنگال کے افسران تھے۔ اس لیےان بنیادی طور پر بنگالیوں کےخلاف مقامی عوام کا غم و غصہ بھڑکا ۔ ابتداء میں یہ علاقائیت کی جنگ فرقہ پرستی سے پاک تھی لیکن پھر اسے بنگلا دیش سے آنے والے دراندازوں کا معاملہ بنادیا گیا اور نیلی کے خونیں فسادات ہوئے۔

وزیراعظم راجیوگاندھی کی موجودگی ۱۵ گست ۱۹۸۵؁ کو آسام معاہدہ طے ہوا ۔ اس معاہدے کی روُ سے غیر ملکیوں کی شناخت کے لیے یکم جنوی ۱۹۶۶؁ کی تاریخ طے کی گئی یعنی جو اس تاریخ سے پہلے آسام میں آکر بس گیاوہ ہندوستانی شہری ہے۔ ۱۹۶۶؁ سے ۱۹۷۱؁ کے درمیان آنے والوں کی شناخت کے بعد ۱۰ سال تک رائے دہندگی کے حق سے محروم کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن وہ پھر انہیں اپنا نام درج کرانے کا موقع دیا گیا ۔ ۱۹۷۱؁ کے بعد آنے والوں کو ان کے ملک بھیج دینے کی شق اس میں شامل کی گئی۔ اس معاہدے کے بعدوہ ۶ سالہ کشمکش ختم ہوگئی۔ آسو نے اے جی پی بناکر انتخاب جیتا اور اقتدار سنبھال لیا ۔ اس معاہدے پر عمل کرتے ہوئے۳۱ مارچ ۲۰۱۶؁ تک ۷۵۴۸۹ لوگوں کو غیر ملکی قرار دیا گیا ۔ اس میں سے ۳۳۱۸۶ تو ۱۹۷۱؁ سے پہلے آنے والوں میں سے تھے اور ۴۲۳۰۳ بعد میں آنے والے۔ یہ انکشاف بھی ہوا کہ ۱۹۸۶؁ تا ۲۰۱۴؁ کے دوران صرف ۱۴۳۲ درانداز آسام میں آئے۔ ایک معمر بی جے پی رہنما نے اعتراف کیا کہ گزشتہ ۱۰ سالوں میں کوئی نہیں آیا۔

آسام میں مہاجرین کے حوالے سے عدالت عظمیٰ میں فی الحال سابق آئی اے ایس افسر اور معروف سماجی کارکن ہرش مندر کی داخل کردہ ایک مفاد عامہ کے مقدمہ کی سماعت جاری ہے۔ اس دوران اپنی شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے منصف اعظم رنجن گوگوئی نےحکومت آسام کی پیروی کرنے والے وکیل تشار مہتا سے سوال کیا ’’آسام میں این آر سی سے ۴۰ لاکھ لوگوں کا نام نکال دیا گیا ہے یعنی بظاہر وہ غیر قانونی تارکین وطن ہیں لیکن غیر ملکی ٹریبونل نے صرف ۵۲ ہزار لوگوں کو غیر ملکی قرار دیا گیا ہے۔اور ان ۵۲ ہزار میں سے صرف ۱۶۶ کو ملک بدر کیا گیا ؟ اتنے برسوں سے آخر آ پ لوگ کیا کررہے ہیں ؟ اس افراتفری کے عالم میں آپ کی حکمرانی پر کون اعتماد کرے گا؟ مدعی کی جانب سے پیروی کرتے ہوئے پرشانت بھوشن نےبتایا کہ کئی لوگ ۲۰۱۰؁ سے قید میں ہیں۔ اس پر عدالت کا کہنا تھا اتنے طویل عرصہ تک کسی کو روکے رکھنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ مہاجرین کو انسانی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا اس لیے ان کو کم سے وقت عقوبت خانوں رکھنا چاہیے۔ عدالت نے مرکزی اور صوبائی حکومت کو اس بابت گفت و شنید کرکے مسئلہ حل کرنے کی تلقین کی۔

عدلیہ نے مدعی کی جانب سے پیش کیے گئے بنیادی مسئلہ یعنی عقوبت خانوں میں جینے کی دگرگوں سہولیات پر تشویش کا اظہار کیا تو مدعا علیہ کے وکیل تشار مہتا نے بتایا کہ وہ ذاتی طور دورہ کرچکے ہیں ۔ وہاں جیل جیسا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہاں پر تفریح کے لیے کھیل کود اور ٹیلیویژن وغیرہ کی سہولیات موجود ہیں۔ اس پر منصف اعظم نے طنز کیا کہ آپ نے پہلے سے اپنی آمد کی اطلاع دے دی ہوگی ۔ اس لیے وہ آپ کے خیر مقدم کے لیے تیار تھے۔ عدالت کے پیش نظر دوسرا سنگین مسئلہ طویل عرصہ تک غیر ملکی کی حیثیت سے شناخت کیے گئے افراد کو قید رکھنے کا جواز تھا جنہیں آئین کی غیر ملکی دفع ۱۹۴۶؁ کے تحت ملک بدر کیا جانا ہے۔ پرشانت بھوشن نے عدالت کو بتایا کہ مہاجرین کو فوج کی نگرانی میں ٹرین کے ذریعہ سرحد تک لاکر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس پر عدالت نے اعتراض کیا کہ ہماری معلومات کے مطابق ہند بنگلادیش سرحد تک ریل نہیں جاسکتی ۔ کس رپورٹ میں یہ حوالہ دیا گیا ہے؟ اس سوال کی تشار مہتا نے وضاحت کی کہ ٹرین کے بعد انہیں سڑک کے ذریعہ سرحد تک پہنچایا جاتا ہے۔ حکومت ہند انہیں بھیجتی رہتی ہے اور وہ لوٹتے رہتے ہیں۔ عدالت سب سے نازک سوال یہ بھی کردیا کہ اس وقت کیا ہوگا جب لوگوں کی قومیت طے ہوجائے گی مگر متعلقہ ملک انہیں لینے سے انکار کردے گا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے اس لیے کہ فی الحال بنگلا دیش کے سوا سبھی پڑوسی ممالک سےہندوستان کے تعلقات کشیدہ چل رہے ہیں؟

آسام سرکار کے وکیل نے تسلیم کیا کہ این آر سی میں درج سار ے۴۰ لاکھ لوگ جو غیر قانونی تارکین وطن نہیں ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آسام کے اندربہت سارے بنگالی زبان بولنے والے غرباء و مساکین کو محض اس لیے غیر ملکی قراردیا گیا کہ وہ اپنی شہریت ثابت کرنے کے کی خاطر معقول دستاویز پیش نہیں کرسکے ۔ اندراج کے رجسٹر میں سابق فوجیوں تک کو غیر ملکی بتایا گیا اور خاندان کے ایک فردکو دیسی تو دوسرے کو بدیسی بنادیا گیا۔ یہ عجیب معاملہ ہے کہ شہریت کا قانون بنا کر آسام میں باہر سے آکر بسنے والے ہندووں کو شہریت دی جارہی ہے اور ملک بھر میں رہنے اور بسنے والے کشمیری تاجروں کو واپس جانے کی دھمکی دی جارہی ہے۔ اس کام میں بجرنگ دل کے دہشت گردوں کے شانہ بشانہ میگھالیہ کے گورنر تتھاگت رائے کھڑے ہوئے ہیں ۔انہوں نے اپنے ٹویٹ میں ہندوستانی فوج کے ایک سبکدوش کرنل کی تائید میں لکھا : کشمیر نہیں جائیں، اگلے دو سال تک امرناتھ یاترا نہیں کریں۔ کشمیری دوکانوں یا سردی میں آنے والے کشمیری تاجروں سے سامان نہیں خریدیں۔ کشمیر کی ہر چیز کا بائیکاٹ کریں۔ ‘

کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئےکہا،میگھالیہ کے گورنر کا بہت ہی تکلیف دہ بیان آیا ہے۔ حکومت ہندانہیں فوراً برخاست کرے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس کو ان کی خاموش تائید کررہےہیں اور اس کا استعمال ماحول کو بگاڑنےکی انتخابی حکمت عملی کے طور پر کیا جارہا ہے۔ معروف صحافی سہاسنی حیدر نےلکھا کہ میگھالیہ کے گورنر سے ہندوستانی آئین کی دفعہ ۱۵۹ کے تحت حلف برداری کی خلاف ورزی سرزد ہوئی ہے۔ صدر کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ ‘ان اعتراضات سے رائے صاحب کچھ گھبرائے ضروراور اپنی صفائی میں لکھا کہ، یہ ایک ریٹائر کرنل کامیڈیا اور کئی دیگر لوگوں کو دیا گیاعدم تشدد پر مبنی مشورہ ہے۔ سیکڑوں لوگوں کے ذریعے ہمارے فوجیوں کے قتل اور ساڑھے تین لاکھ کشمیری پنڈتوں کو باہر نکالنے کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا رائے صاحب اور مذکورہ سابق کمانڈر کشمیری شہریوں کو اپنے ملک کا باشندہ سمجھتے ہیں؟ اس تناظر میں امیت شاہ کا بیان ’’ہم آسام کو دوسرا کشمیر نہیں بننے دیں گے‘‘ بالکل بے معنیٰ اور بچکانہمعلوم ہوتا ہے؟ رائے جیسے لوگ کشمیر کو آسام بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔

آسام کی پیچیدہ سیاسی صورتحال کو بگاڑنے کے لیے حکومت نے شہریت کانیا قانون بنایا ہے۔اس کے مطابق جنوبی ایشیا ء سے آنے والا ہر غیرمسلم کوشہریت کے حقدارقرار دیا گیا ۔ اس قانون کے خلاف تما م شمال مشرقی صوبوں میں شدید غم و غصہ ہے۔ جو لوگ خود اپنے ملک کے دیگر ریاستوں سے آنے والے کو غیر سمجھتے ہیں ان کے لیے کسی غیر ملکی کا اپنا سمجھنا بے حد مشکل ہے۔ اس لیے وہاں پر لوگ احتجاج کررہے ہیں۔ حکومت کی دلیل یہ ہے کہ ہم مظلومین کی مدد کررہے ہیں لیکن پھر مذہب کی بنیاد پر تفریق و امتیاز کیا معنیٰ؟ شمال مشرقی ایشیاء میں سب سے زیادہ مظلوم تو روہنگیائی باشندے ہیں لیکن حکومت کو ان پر رحم نہیں آتا کیونکہ وہ مسلمان ہیں ۔ اس کے برعکس بنگلا دیش سے آکر بسنے والے ہندووں کو شہریت سے نوازنے کا اعلان کیا جارہا ہے تاکہ وہ احسانمندی میں وفادار ووٹر بن جائیں لیکن حکومت کی یہ چال الٹی پڑی ہے اور اس نے خود اپنی جڑیں کھود لی ہیں۔

مئی ۲۰۱۶؁ کے صوبائی انتخاب میں پہلی مرتبہ کامیابی حاصل کرنے کے بعد وزیراعظم مودی نے کہا تھا ’’ آسام میں بی جے پی کی حکومت بننے سے کئی لوگوں کو اسی طرح حیرت ہوئی ہے جس طرح جموں کشمیر میں اس کے حکومت میں حصہ دار بننے پر ہوئی تھی‘‘۔ جموں کشمیر میں بی جے پی اقتدار گنوا چکی ہے اور بعید نہیں کہ شہریت بل پر اصرار بی جے پی کے اندر ایسی بغاوت برپا کردے کہ اس کی طغیانی میں بی جے پی کی ریاستی سرکار بہہ جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مرکز کے اندربی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد بہت سارے اے جی پی رہنما بی جے پی میں شامل ہوگئے جن میں وزیراعلیٰ بھی شامل ہیں۔ اے جی پی شہریت بل پر بی جے پی سے دورہوگئی ہے ۔ دہلی میں اگر پھر سے بی جے پی کی حکومت نہیں بنتی تو اے جی پی کے پرانے لوگوں کی گھر واپسی ہو جائے گی یا وہ کوئی نئی جماعت بنالیں گے اس لیے شہریت بل کے چلتے انتخاب میں شکست یقینی ہے۔آسام کے ساتھ ہی بی جے پی رہنماوں کو نہ جانے کیوں جموں کشمیر یاد آجاتاہے۔ ایسا شاید اس لیے ہوتا ہے کہ دونوں صوبوں میں مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی ہے اور یہ لوگ مسلم فوبیا کا شکار ہیں ۔ ان کو خواب میں بھی مسلمان نظر آتے ہیں اور یہ ڈر کر اٹھ بیٹھتے ہیں۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223614 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.