اسلام دشمن عناصر طلوع اسلام سے اس کے خلاف سازشوں میں
مصروف رہے ہیں۔ ہر زمانیمیں یہ سازشیں اپنا رنگ بدلتی رہی ہیں لیکن ان کا
مکمل خاتمہ کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکا۔ دور جدید میں اسلام مخالف سازشوں
میں توہین رسالت کو مرکزی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ اسلام مخالف اب گستاخانہ
خاکوں، وڈیوز اور مختلف مواقع پر بیانات کے ذریعے مسلمانوں کے صبر کو
آزماتے نظر آتے ہیں۔ چونکہ دور جدید میں تمام ترقی یافتہ ممالک غیر مسلم
ہیں اس لیے اسلام مخالفوں کی گفتگو سے یہ تاثر پیدا ہوتا رہتا ہے کہ وہ
مسلمانوں پر زندگی کے دروازے بند کرنا اور انہیں پھر سے پتھر کے دور میں
بھیجنا چاہتے ہیں۔
دور جدید کے کئی خوبصورت نعرے اسلام مخالفوں کے لیے آڑ کا کام کرتے ہیں۔
آزادی اظہار ایک ایسا ہی دلفریب نعرہ ہے جس کے دھوکے میں خود مسلمان بھی آ
جاتے ہیں لیکن ہر بات کہنے کی آزادی کے داعی بعض اوقات اخلاقیات سے عاری
محسوس ہوتے ہیں۔ کسی بھی دوسرے شخص کے جذبات کا خیال نہ رکھتے ہوئے اپنی
بات کہنا عام زندگی میں بھی نہایت بد تمیزی اور بد تہذیبی کی علامت سمجھا
جاتا ہے لیکن تہذہب و تمدن کے دعوے دار اسی آزادی اظہار کی چھتری تلے
مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب بنتے ہیں۔ افسوس اس وقت اور زیادہ ہو جاتا ہے
جب مسلمان ممالک سے بھی ان کے خلاف کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی جاتی اور
مسلمان ایک دوسرے کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیتیہیں۔
یقینا مسلمانوں کے اندرونی اختلافات اس قدر شدید ہیں کہ اسلام مخالف
مسلمانوں کی بڑی تعداد کے ردعمل سے بھی خوف زدہ نہیں ہوتے۔ مسلمانوں پر جنگ،
جہاد اور قتال کا الزام لگاتے ہوئے انتہا پسند ہونے کا الزام تو لگایا جاتا
ہے لیکن کوئی یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اگر مسلمان اتنے ہی انتہا پسند ہیں تو
پھر توہین رسالت کے مرتکب زندہ کیسے ہیں؟ اسلام ایک پر امن دین ہے لیکن
افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ ہم اپنے آپ کو ایک پر امن قوم کے طور پر پیش
نہیں کر پائے اور اب اسلام مخالف ہمیں مختلف رنگوں میں دنیا کے سامنے پیش
کرتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کی امن پسندی اور بے بسی کی ایک انتہا ہے کہ آئے روز
کہیں نہ کہیں سے توہین رسالت کے مواد کی اشاعت کے باوجود مسلمان صم بکم عمی
کی عملی تفسیر بنے ہوئے ہیں۔ یہ آزادی اظہار مسلمانوں کے دلوں کو چھلنی تو
کرتا ہے لیکن اس کے خلاف وہ کوئی موثر آواز پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
آج جب دنیا ایک عالمی گاوں میں بدل چکی ہے اور ہر گفتگو میں انسانیت کے
بلند و بانگ دعوے کئے جاتے ہیں تو ضروری ہے کہ اسلام مخالف اور مسلمان اپنے
رویے تبدیل کریں۔ معاشرے کے امن کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے
جذبات کا نہ صرف خیال رکھیں بلکہ ایک دوسرے کے لیے برداشت کا بھی مظاہرہ
کریں۔ آزادی اظہار کا نعرہ خوش کن ضرور ہے لیکن یہ طے کرنا بھی ضروری ہے کہ
اس آزادی کی حد کتنی اور کس قدر ہونی چاہیے؟ کسی کے بولنے سے زیادہ یہ
سمجھنا اورطے کرنا بھی ضروری ہے کہ کیا نہیں بولنا چاہیے۔ اپنے ملک و ملت
سے ہر ایک کو پیار ہوتا ہے لیکن دوسرے کے جذبات کا بھی احساس کرنا بھی
تہذیب کی علامت قرار دیا جانا چاہیے۔
شر پسند عناصر ہر معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور اسلام مخالفوں کا خبث باطن
کسی سے ڈھکا چھپا ہوا نہیں ہے اس لیے مسلمان ہونے کے ناطے ہماری زمہ داریاں
بہت بڑھ جاتی ہیں۔ اب یہ ضروری ہے کہ مسمان اپنی زندگیوں کو سنت کے مطابق
ڈھالتے ہوئے اسلام مخالفوں اور تمام غیر مسلمانوں کو اسلام کی صحیح تصویر
پیش کریں۔ اسلامی تعلیمات کی عملی تفسیر پیش کریں اور اپنی صفوں میں ایسا
اتحاد قائم کریں کہ اسلام مخالفوں کو کسی بھی خبث باطن کے اظہار سے پہلے
کئی بار سوچنا پڑے۔ |