پی پی 5 کے عوام کہاں جائیں

بلدیاتی اداروں کے فعال نہ ہونے کی وجہ سے جہاں بلدیاتی نمائندوں میں اضطراب پایا جاتا ہے وہاں علاقہ میں ترقیاتی کاموں کی رفتار بھی بلکل رک چکی ہے اس حلقہ سے منتخب اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے بھی خاموشی کا روزہ رکھ لیا ہے عوامی فلاح و بہبود کے کام جیسے ان کی پالیسیوں کا حصہ ہی نہیں ہیں تحصیل کلرسیداں اور اس کے نواحی علاقہ جات میں مسائل کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے یہ تمام مسائل چیخ چیخ کر اپنے منتخب نمائندوں کو پکار رہے ہیں کہ ہماری طرف بھی دھیان دو لیکن ان کی طرف دیکھنے والا کہیں بھی کوئی نظر نہیں آ رہا ہے حکومت نے اعلان کیا تھا کہ بہت جلد نئے بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں گئے لیکن نہ تو ننیا بلدیاتی نظام آیا ہے اور نہ ہء پہلے سے موجود بلدیاتی کو فعال کیا گیا ہے جس وجہ سے موجودہ منتخب نمائندے سخت پریشانی کا شکار ہیں اور وہ یہ تصور کر رہے ہیں کہ انہوں نے الیکشن جیت کر شاید کوئی بہت بڑی غلطی کر ڈالی ہے جس کی ان کو سزا مل رہی ہے اور اب ان کو اس بات کا پتہ ہی نہیں چل رہا ہے کہ وہ منتخب بلدیاتی نمائندے ہیں یا کوئی عام شخص ہیں اور ان کی حثیت کیا ہے جب وہ اس بارے میں سوچتے ہیں تو ہر طرف سے جواب نفی میں ہی آتا ہے دوسرا ان کو سب سے بڑا نقسان یہ پہنچ رہا ہے کہ حکومت ان کو اپنے آپ سے بلکل الگ کر چکی ہے لیکن یو سی کے عوام اب بھی ان کو اپنی چیرمین و وائس چیرمین سمجھ کر ان کو اپنے کاموں اور اپنے مسائل کا حل سمجھ کر ان کے سامنے اپنے مطالبات پیش کر رہے ہیں جس وجہ سے بلدیاتی نمائندوں کو سوائے شرمندگی کے اور ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہے دوسری طرف اس حلقہ کے ایم این اے اور ایم پی ایز الیکشن جیتنے کے بعد روپوش ہو گئے ہیں اگر کہیں نظر آتے ہیں تو وہ صرف کسی ایسی تقریب میں جہاں پر ترقیاتی کاموں کا کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا ہے جس وجہ سے مسائل گھنٹے کے بجائے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں اس وقت کلرسیداں اس علاقہ کیلیئے سب سے بڑا مسئلہ گیس کی فراہمی ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ پوری تھصیل کلرسیداں میں گیس کے حوالے سے کام جاری ہیں لیکن یو سی غزن آباد ،بشندوٹ،اور گف میں اس حوالے سے کوئی خاص پیش رفت ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے جس وجہ سے عوام علاقہ شدید تذبذب کا شکار ہیں اور ان کو اس بات کی سمجھ ہی نہیں آ رہی ہے کہ وہ کس کے سامنے اپنے مسائل پیش کریں اگر منتخب چیرمین و وائس چیرمینوں سے بات کی جائے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہماری کوئی بھی سنتا نہیں ہے اور جب وہ اپنے ایم این اے کے بارے میں سوچتے ہیں تو سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کو تلاش کہاں کیا جائے اور جب وہ ایم پی اے کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کے ایم پی اے کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے وہ نہ تو خود ایم پی بننے کیلیئے تیار ہیں اور نہ ہی یہ نشست چھوڑنے کیلیئے تیار ہیں جس وجہ سے پی پی 5کے عوام سخت پریشانی کا شکار ہیں ایم پی اے کا ہونا بہت ضروری سمجھا جاتا ہے کیوں کہ کسی بھی ایم این اے کے پاس پہنچنا عام شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے لیکن ایم پی اے تک عام آدمی رسائی حاصل کر سکتا ہے وہ اس صورت میں کہ اگر ایم پی اے موجود ہو تو لیکن ہمارے اس حلقہ میں ایم پی اے کا صرف نام ہی سنا جا رہا ہے ان کا وجود کہیں نظر نہیں آ رہا ہے جو کہ عوام حلقہ کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے ایم پی اے لیول کے کام کیلیئے وہ کس کے آگے رکھیں کسی کو کوئی تھانہ میں کام پڑ جاتا ہے کسی کی ٹرانسفر کا مسئلہ ہوتا ہے کسی کا کہیں ہسپتال میں کوئی کام ہوتا ہے اور اس طرح کے تمام کام ایم پی اے ہی کر سکتا ہے پی پی پانچ کے عوام کا کیا قصور ہے انہوں نے تو اپنے ایم پی اے کو منتخب کیا اگر دوسرے حلقوں کے عوام نے ان کو مسترد کر دیا ہے تو اس میں پی پی پانچ کے عوام کو کیوں سزا دی جا رہی ہے حالانکہ پی پی پانچ کے عوام کا یہ دھن جگرا ہے کہ انہوں نے ایک ایسے ایم پی اے کو منتخب کر ڈالا ہے جس کو اپنی پارٹی اور اپنے آبائی حلقہ کے عوام نے بری طرح مسترد کر دیا ہے ان حلقوں سے شکست کا بدلہ وہ ہم سے کیوں لے رہے ہیں ہم نے تو ان کو عزت دی ہے چوھدری نثار علی خان کا یہ اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے یا تو ایم پی اے کا حلف اٹھائیں یا پھر وہ استعفی دے کر عوام حلقہ کو اپنا کوئی نیا لیڈر منخب کرنے کا موقع دیں یہ ان کا ہم پر احسان ہو گا ان کے اس طرز عمل سے حلقے کے عوام کو نقصان سے دوچار کر رہا ہے جو کہ سرا سر زیادتی کے زمرے میں آتا ہے چوھدری نثار علی خان سے بھر پور گزارش ہے کہ وہ حلقہ کے عوام کو مزید نقصان سے دوچار ہونے سے بچائیں اور ان کو اپنا کوئی لیڈر منتخب کرنے کا حق دیں دوسری طرف حکومت کو چاہیئے کہ وہ یا تو نیا بلدیاتی نظام لائے یا پہلے سے منتخب شدہ نمائندوں اور اداروں کو فعال بنائے تا کہ عوام کی مشکلات میں کمی ممکن ہو سکے
 

Muhammad Ashfaq
About the Author: Muhammad Ashfaq Read More Articles by Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 169442 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.