وہ مظلوم وبے بس اور لاچار وبے کس خاتون ،جس کے سینے میں
رب کی لاریب کتاب قرآن مجید محفوظ ہے،جس کو اﷲ تعالی نے بلا کی ذہانت عطا
فرمائی ،کہ وہ فزکس میں اس ملک کا نام عالم میں روشن کرسکتی تھی،اس حافظہ
قرآن سائنس دان کا آخر کیا جرم تھا،کہ ایک خوں خوار درندے اور مطلق العنان
حکم ران نے،صرف اسلام دشمنوں سے ڈالر بٹورنے کے لیے بچوں سمیت کراچی سے
اسلام آباد جاتے ہوئے اغوا کروایا،اس کے معصوم بچوں کا کیا قصور تھا،بچوں
کے حقوق کا تو ہر معاشرہ داعی ومناد رہا ہے،پھر سالوں بعد اس کا سراغ
افغانستان کی جیل میں ملا،وہاں سے اس کو امریکا منتقل کیا گیا،اور ایک
جھوٹے مقدمے میں اسے اسی سال سے زاید کی سزا سنا کر پس دیوار زنداں کردیا
گیا،جہاں وہ روز جیتی اور روز مرتی ہے،اس سے اس کی آزادی کس جرم میں سلب کی
گئی؟ ظلم وستم اور جبر وتشدد کا وہ کون سا حربہ ہے،جواس کے ساتھ مغرب کے
درندے روا نہیں رکھے ہوئے ہیں؟کیا عافیہ صدیقی کے ساتھ بزعم خود سپرپاور
امریکا میں کیا جانے والا یہ ظلم انسانی حقوق کے دعوؤں پر بدنما داغ نہیں
ہے؟اس کو جھوٹے مقدمے میں سزا سنا کر انصاف کا خون کیا گیا ،اس پر عالمی
برادری کیوں حرکت میں نہ آئی؟تب سے اب تک،کئی سال بیت چکے،ہماری یہ مظلوم
ومعصوم بہن،صرف مسلمان ہونے کی پاداش میں جرم بے گناہی کی سزا کاٹ رہی
ہے،جس کا ہر مسلمان اور ہر پاکستانی مجرم ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کوئی عام خاتون نہیں،قوم کااثاثہ تھی۔وہ اعلی تعلیم
یافتہ اور بہترین تحریری و تقریری صلاحیتوں کی مالک تھی۔ دین کے علم کی
پیاس بجھانے وہ خاص طور پر امریکہ سے پاکستان آئیں۔ شوق کے ساتھ قرآن حفظ
کیا۔ قرآن اور دینی علوم سے دل چسپی اور ان پر عبور اس کی اضافی قابلیت تھی۔
گلستان شاہ لطیف اسکول سے لے کر ایم آئی ٹی برینڈیز جیسی امریکہ کی بہترین
جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول تک، اس کا تعلیمی ریکارڈ نہایت شاندار
رہا ۔ اعلی تعلیم کے لیے اس کا مضمون ’’ایجوکیشن‘‘ تھا۔ وہ اسلامی نظامِ
تعلیم کے ذریعے معاشرے میں انقلاب لانے کی جستجو میں رہتی تھیں۔ وہ ایسا
جدید نصاب تیار کر رہی تھیں جو کم وقت میں دل چسپی کے ساتھ بچوں کی سمجھ
میں آ سکے۔ ان کا مرتب کردہ نصاب اسلام کے محور سے مربوط تھا۔تعلیم کے
ذریعے دنیا میں مثبت تبدیلی عافیہ صدیقی کا خواب تھا۔
یونی ورسٹی سرگرمیوں میں دیگر مختلف تنظیمیں اپنی دل چسپی کے اسٹالز لگاتی
تھیں،جن میں عافیہ کا بھی اسٹال ہوتاتھا، جس پر لکھا ہوتا: ’’فری انسائیکلو
پیڈیا فار یور لائف‘‘۔ اس میں وہ اپنے جیب خرچ سے قرآن کے تراجم خرید کر
مفت تقسیم کیا کرتی تھیں، لوگوں کے پوچھنے پر جواب ہوتا، یہ آپ کی زندگی کا
مکمل انسائیکلو پیڈیا ہے۔اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے موضوع پر تحقیق
کی۔’’پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ اور خواتین پر اس کے اثرات ‘‘کے
موضوع پر تحقیق کی اور کیرول وِلسن ایوارڈ حاصل کیا۔بچوں سے محبت کی وجہ سے
خصوصی طور پر ان کے لیے تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا۔ معاشرے کی مثبت
تبدیلی اور خوش حالی اس کا خواب تھا جس کی تعبیر کے لیے ہمہ وقت مصروفِ عمل
تھیں۔بزرگ خواتین سے محبت اور ان کی خدمت، عافیہ کے خمیرمیں شامل تھی، وہ
اولڈ ہومز میں جا کر ان کی اعزازی خدمت کر کے سکون محسوس کرتیں۔ امریکہ کے
عدالتی فیصلے میں ان کو دی جانے والی سزا کو’’ سیاسی سزا ‘‘کہا گیا ،جس
کاتقاضاتھا کہ اس کو سیاسی کیس کے طور پر ڈیل کیا جاتا، مگر سیاست کے
ایوانوں میں اس کیس کے لیے کوئی ڈیل تاحال نہیں کی جاسکی ہے۔ پرویزمشرف نے
اس کی گرفتاری کے عوض ڈالرز وصول کیے، اور اپنی کتاب میں اس کا شرم ناک
تذکرہ بھی کیا۔ حسین حقانی نے بیوہ اور غمزدہ ماں کے ساتھ، ان کی بیٹی کو
واپس لانے کا جھوٹا مذاق کیا، حکومت سے پیسے بٹورنے کے باوجود عافیہ کو
ٹارچر سیل کے حوالے کیا۔ آصف زرداری نے امریکہ سے آئی ہوئی کیس کی اہم
دستاویز پر دستخط صرف اس وجہ سے نہ کیے کہ بقول ان کے، یہ عافیہ کو بھیجنے
والوں کا کام ہے۔ غرض یہ کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہویا میاں نواز شریف کی ،کسی
حکومت نے عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں کوئی فیصلہ کن پیش رفت نہیں کی ۔اب
قوم کی نگاہیں تبدیلی کی دعوے دار عمران حکومت پر لگی ہوئی ہیں،لیکن یہ
حکومت بھی ’’تیل دیکھواور تیل کی دھار دیکھو‘‘کی پالیسی پر گام زن ایک قدم
اگر آگے کی سمت بڑھاتی ہے،تواگلے دو قدم پیچھے کی جانب اٹھاتی نظر آتی
ہے۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ اسے بھی قوم کی مظلوم بیٹی پرہونے والے مظالم
اوراس کی بیوہ بوڑھی غم زدہ ماں کے دکھوں سے کوئی دل چسپی نہیں ہے!
عافیہ موومنٹ کے محمد ایوب صاحب بتارہے تھے:’’ ہم قانونی جنگ لڑرہے ہیں،اگر
اوباما کی ریٹائرمنٹ کے دنوں میں ہمارے حکم ران ایک خط ان کے نام عافیہ کی
رہائی کے لیے لکھ دیتے،تو آج ہماری مظلوم حافظہ قرآن بہن آزاد فضا میں سانس
لے رہی ہوتی،لیکن بے حمیت حکم رانوں سے،جنھوں نے ووٹ بھی عافیہ کے نام پر
لیا تھا،اتنا نہ ہوسکا۔ہم پاناما پاناماکھیلتے رہ گئے اور موقع ہاتھ سے نکل
گیا۔‘‘
۲ مارچ عافیہ بہن کا یوم پیدائش ہے،اس دن کی مناسبت سے مارچ کو عافیہ کے
نام کیجیے ۔ہم میں سے ہر شخص،تنظیم اور ادارے کو اپنی بساط بھر کوشش کرنی
چاہیے،کہ یہ ہم سب کا اجتماعی المیہ اور اس حوالے سے اپنا اپنا کردار ادا
کرنا ہم سب کا اجتماعی فریضہ ہے ۔اپنی قیدی بہن کے حق میں عالمی برادری کے
سامنے احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے اپنی تحریری ،تقریری،ابلاغی،دعوتی،نثری
اور شعری صلاحیتوں کوبروئے کار لائیے۔ اﷲ کرے، اہل وطن کو وہ دن جلد سے جلد
دیکھنا نصیب ہو،جب ہماری یہ مظلوم ،بے بس ،بیمار ولاچار مگر عظیم بہن ہمارے
درمیان آزاد فضاؤں میں سانس لے رہی ہو۔
ایں دعا ازمن واز جملہ جہاں آمین باد!
|