اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ آج دنیا میں میڈیا
کی حیثیت ملکوں اور ریاستوں کے اہم ترین ستون کی طرح ہے ۔دنیا میں ہونے
والی ترقی سے میڈیا نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے اور میڈیا کی بدولت ہی
آج دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر دوسرے کونے کی بروقت خبر لی جاسکتی ہے۔
میڈیاکی مختلف شکلیں ہیں جن میں سماجی میڈیا (سوشل میڈیا) سر فہرست ہے پھر
ٹیلی میڈیا اور دیگر کا نمبر آتا ہے ۔ جہاں میڈیا معاشرے کی رہنمائی کے
اسباب پیدا کرتا ہے تو دوسری طرف اسکے کچھ منفی پہلو بھی سامنے آئے ہیں، جن
میں اکثر سنگین اور ملک سالمیت کے معاملات پر غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے ۔
عراق میں کسطرح سے امریکہ نے اپنے عزائم مسلط کرنے کی کوشش کی (جوکہ ابھی
تک جاری ہے ) ، کس نے لیبیا میں بغاوت کے علم بلند کروائے ، ترکی میں بغاوت
کو کس طرح سے شکست ہوئی، شام میں ہونے والے مظالم اور اسکے پیچھے پوشیدہ
حقائق میڈیا کی مرہونِ منت دنیا کے سامنے پہنچ رہے ہیں ، ساحل پر پڑی ایک
بچے کی لاش نے دنیا کو خون کہ انسو رلانے کی وجہ بھی میڈیا ، فلسطین میں
کیا کچھ ہورہا ہے ہمارے لئے طبعی طور پر جاننا تقریباً ناممکن ہے لیکن
میڈیا ہمیں بروقت آگاہ کرتا چلا جا رہا ہے ، آمریکہ کی ریاستوں میں آئے دن
طوفانوں کی پیشگی اطلاع اور پھر ان سے ہونے والی تباہی کے بارے میں معلومات
،آسٹریلیا کے جنگلوں میں لگنے والی آگ سے شناسائی ، کشمیر میں بھارتی مظالم
کی نا ختم ہونے والی ظلم و بربریت کی داستانوں تک رسائی میڈیا کے ہی مرہونِ
منت ہے۔ آگ اور گولیوں کے درمیان ایک تو فوج ہوتی ہے اور فوج کے اور جنگی
حالات سے آگاہ کرنے کیلئے یہ میڈیا کہ لوگ ہوتے ہیں جو فوج کو میدان جنگ
میں بھی تنہا نہیں چھوڑتے اور نا ہی گولیوں کی گھن گرج سے خوفزدہ وہوتے ہیں۔
میڈیا کے لوگوں نے میڈیا کو ممالک کا اہم ستون بنانے کیلئے اپنی جانوں کی
قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
جن ممالک کا میڈیا ذمہ دار ہے اس ملک کے داخلی و خارجی حالات کتنے ہی خراب
کیوں نا ہوجائیں میڈیا انہیں سنبھالنے میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے ۔
ایک طرف دفتر خارجہ و دفاع اپنی ذمہ داریاں نبہانے میں مصروف ہوتے ہیں تو
دوسری طرف میڈیا اپنا اہم ترین سفارتی محاذ سنبھالے ہوئے ہوتا ہے۔ میڈیا کی
بدولت آج ممالک کہ درمیان ہم آہنگی پیدا کی جاسکتی ہے ، میڈیا کی بدولت
بروقت اطلاعات بغیر وقت ضائع کئے بغیر دنیا تک پہنچا جاریتی ہیں اور میڈیا
ہی جنگی جنون کو ختم کرسکتا ہے کیونکہ میڈیا حقائق پر مبنی معلومات دنیا کے
سامنے پیش کرنے کی اہلیت رکھتا ہے (لوگ میڈیا کو اہمیت بھی دیتے ہیں )اور
ایسے لوگ جن کے نزدیک دنیا واقعی ایک گلوبل ویلیج ہوتی ہے تو انہیں اس
ویلیج میں فساد پھیلانے والے کی نشاندہی کرنا ہی پڑتی ہے چاہے وہ اپنا ہی
ملک کیوں نا ہو۔
جنگ اور تسلط میں فرق ہوتا ہے ، جنگ باقاعدہ ہوتی ہے جبکہ کوئی ملک اپنی
طاقت اور اپنے بڑے ہونے کے گھمنڈ میں کسی ملک پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے
اور قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے اپنی طاقت کا تسلط قائم کرنا کہتے
ہیں۔ عراق پر آمریکہ نے اپنا تسلط بنانے کیلئے اسے کھنڈر بنا دیا بلکل ایسی
ہی صورتحال کا سامناافغانستان کو ہے اور شام کی صورتحال بھی اس سے کچھ
مختلف نہیں ہے اور مسلط ہونے والا ملک امریکہ ہی ہے ۔ امریکہ نے دنیا میں
اپنے تسلط کو قائم کرنے کی بارہا کوشش کی ہے لیکن بد قسمتی لکھا جائے یا
کچھ اور سوائے ان ممالک کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔ امریکہ نے ایسا
کرنے کیلئے دنیا کے ان ممالک کو بھی اپنی ہاں میں ہاں کہنے کو کہہ رکھا ہے
جو ترقی یافتہ ممالک ہیں یعنی امریکہ نے اپنی سپر پاور کی حیثیت کو سب پر
مسلط کرنے کی کوشش کر رکھی ہے ۔بھارت کو بھی یہ گھمنڈ ہے کہ وہ کم از کم
ایشیاء پر اپنی حکمرانی قائم کرے جہاں اس کا سب سے بڑا حریف پاکستان ہے ،
بھارتی انتخابات ایک طرف لیکن بھارت کا یہ دیرینہ زعم ہے کہ وہ امریکہ کی
طرح دوسرے ممالک کیساتھ اپنی طاقت کے بل پر مسلط ہو جبکہ پاکستان کبھی بھی
اس کی اجازت نہیں دیگا۔
کسی بھی ملک کا ذمہ دار میڈیا ملک کے مفادات کا بھرپور ترجمان ہوتا ہے اور
وہ سرحدوں پر اپنی ذمہ داریاں نبہانے والے فوجی جوانوں کی طرح ملک کی اقدار
کی سرحدوں کے محافظ ہوتے ہیں ۔ یہ حالات کی سنگینی کو بھانپنے کی صلاحیت
رکھتے ہیں اور بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ دشمن کے زبانی کلامی گولہ باری
کا جواب کس طرح سے دینا ہے ۔ دور حاضر میں میڈیا ہی ملکوں کا ہر اول دستہ
ہوتا ہے جو سب سے پہلے حالات سے نبرد آزما ہونے کیلئے کمر بستہ ہوتا ہے ۔
ذمہ دار میڈیا حالات کو پیجیدگیوں سے نکالنے میں قومی امور میں کلیدی کردار
ادا کرتے ہوئے حالات کو انتہائی سے عمومی سطح پر لانے کی صلاحیت بھی رکھتا
ہے ۔ آج کیمرہ ، قلم اور الفاظ ساری صورتحال کا تعین کر رہے ہیں۔ اب
پاکستان اور بھارت کی موجودہ صورتحال میں دونوں ملکوں کا میڈیا اپنا کیا
کردار ادا کر رہا ہے اس پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں۔ تکنیک کی اس دنیا میں کسی
بھی ملک کے میڈیا تک رسائی بہت آسان ہے ایسے ہی بھارتی میڈیا تک رسائی بھی
حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ عوام اس جھنجھٹ میں نہیں پڑتی
اور صرف اپنے میڈیا کے توسط سے آنے والی اطلاعات کو ہی غنیمت جانتی ہے۔
بھارتی میڈیاپاکستان کے خلاف مغلظات بکنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے
دیتا۔پاکستان اور پاکستانی ہمیشہ دوسروں کیلئے خیر سگالی کا جذبہ رکھتے ہیں
۔یہ ہماری بطور قوم ایک بدقسمتی ہے کہ ہم اخلاقی طور پر بھارتی میڈیا سے
متاثرہیں یعنی ہمارے گھروں میں انکے ڈرامے، فلمیں اور گانے عام دیکھے اور
سنے جاتے ہیں۔ حکومت وقت نے بروقت میڈیا کے تعاون سے ایک بڑا احسن قدم
اٹھایا ہے کہ ایسے تمام چینلز اور سینماء گھروں کو ہدایات جاری کردی گئی
ہیں کہ وہ فوری طور پر بھارتی مواد کی نشر و اشاعت موقوف کردیں۔ گوکہ
بحیثیت ایک ذمہ دار قوم ایسے حالات میں تو ہمیں خود ہی ہر اس چیز کو نظر
انداز کردینا چاہئے جو ہمارے دشمن سے وابسطہ ہو۔
پاکستان کی حکومت ، افواج انتہائی بردباری کا مظاہرہ کرتے دیکھائی دے رہے
ہیں اور بھارت کیساتھ ہر ممکن بات چیت کی فضاء بنانے کی کوشش کر رہے ہیں
اور میڈیا اس عمل کو خوب بڑھوا بھی دے رہا ہے جو کہ اس بات کی گواہی ہے کہ
ہم وقت اور حالات کی نزاکت سے بہت اچھی طرح سے آگاہ ہیں اور حالات کی نوعیت
کو سمجھتے ہوئے اپنی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں ناکہ جذبات میں آکر کسی
قسم کا فیصلہ کرنا چاہ رہے ہیں ۔پاکستانی میڈیا کہ ایسے جنگی حالات میں بھی
مثبت کردار ادا کرنے کی گواہی اب تو ساری دنیا دے گی۔ بھارت کی جانب سے کی
جانے والی حد کی لکیر (لائن آف کنٹرول) کی خلاف ورزی اور دراندازی کرنے پر
بھی پاکستان کا کسی قسم کا کوئی عملی جواب نا دینا ہماری امن پسندی کا منہ
بولتا ثبوت ہے لیکن پاکستان اپنی سرحدوں کی خلاف ورزی کسی صورت برداشت نہیں
کریگا یہ بات پورے پاکستان نے ایک زبان ہوکر دنیا کو بتادی ہے ۔ آج پاکستان
کی سرحدی خلاف ورزی اور ہمارے ضبط کو آزمانے کی کوشش کرنے کا مزہ بھی
بھارتی ہوابازوں نے چکھ لیا ہے جس پر بھی ہمارے میڈیا نے اپنی ذمہ دارانا
روئیے کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے ۔
اب بین الاقوامی میڈیا کو دنیا کو حقائق سے آگاہ کر نے کی ذمہ داری اٹھانی
پڑے گی اور ان سچائیوں پر سے پردہ ہٹانا پڑے گا جنہیں بھارت نے جھوٹ میں
لپیٹ کر عرصہ دراز سے دنیا کے سامنے رکھا ہوا ہے ۔مجھے یقین ہے کہ اب
پاکستان اور بھارت کے درمیان لگی آگ پر قابو بھی پایا جائے گا اور کشمیر کی
آزادی کا اعلان بھی کرایا جائے گا۔
|