عالم اسلام کے خلاف نیا امریکی گریٹ گیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مغربی استعمار کی سرپرستی میں سوڈان کی تقسیم

جنوبی سوڈان عنقریب دنیا کا ایک آزاد اور خودمختار ملک بننے جارہا ہے،جس کا اب صرف رسمی اعلان باقی رہ گیاہے،9جنوری سے 15 جنوری 2011ءتک ہونے و الے استصواب رائے میں جنوبی سوڈان کی عیسائی آبادی کی 99فیصد اکثریت نے شمالی سوڈان سے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈالے،سرکاری ریفرنڈم بیورو کے مطابق علیحدگی کی مخالفت میں صرف سولہ ہزار ایک سو انیس ووٹ پڑے،امریکی قیادت میں مغربی استعمار کے زیر اثر ہونے والے ریفرنڈیم کے نتائج کے بعد براعظم افریقہ کی سب سے بڑی اسلامی مملکت سوڈان کے دولخت ہونے کی اب صرف رسمی کاروائی ہی باقی رہ گئی ہے،جو 9جولائی 2011ء کو ایک الگ ملک کے باقاعدہ اعلان کے بعد پوری ہوجائے گی،اِس کاروائی کے بعد دنیا کے نقشے پر سوڈان کے جنوب میں انڈونیشیا کی طرح مشرقی تیمور کی طرز پر ایک اور عیسائی ریاست وجود میں آجائے گی،جو دنیا کی ایک سو تیرانوے (193) اور براعظم افریقہ کا چونواں( 54)ملک ہوگا ۔

سوڈان نے یکم جنوری 1956ء کو مصر سے آزادی حاصل کی،متحدہ سوڈان میں سترفی صد مسلمان،5فیصد عیسائی اور باقی 25فی صد بت پرست آباد ہیں،جبکہ عیسائیوں کی اکثریت جنوبی حصے اور عرب مسلمانوں کی اکثریت شمالی حصے میں آباد ہے،1972ء میں جنوبی صوبے میں عیسائیوں کی خانہ جنگی اور بغاوت کی وجہ اسے داخلی خودمختاری دے کر پہلی بار سوڈان کو غیر مستحکم کیا گیا،امریکہ اس وقت سے جنوب کے سوڈانی عیسائیوں کی پشت پناہی کررہا ہے،1980کی دہائی میں جنوب میں دوبارہ خانہ جنگی اور بغاوت پھوٹ پڑی،1989ءمیں جنرل عمر البشیر کی فوجی حکومت نے متعدد بار جنوب کے باغیوں کو معافی اور امن کی پیشکش کی اور خانہ جنگی کے خاتمے کےلئے اقدامات کئے،مگر امریکی ڈالر کے ساتھ اسلحہ و بارود کی فراوانی و فراہمی اور مغربی و صہیونی پشت پناہی کے باعث جنوب میں امن قائم نہیں ہوسکا ۔

دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ جاری رہنے والی اِس خانہ جنگی میں20 لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے،دراصل امریکہ یہی چاہتا تھا کہ جنوب میں عیسائی باغیوں کی بغاوت کی آگ بجھنے نہ پائے،امریکہ کی اِس ناپاک اور مذموم کاروائی کے پس پردہ دو بڑے اور اہم مقاصد ہیں،اوّل،امریکہ کی ناپاک نظریں سوڈان کے قدرتی اور معدنی ذخائر آئل،گیس اور سونا چاندی،سلیکون،کاپر اور جپسم جیسی معدنیات پر لگی ہیں،دوسرے یہ کہ سوڈان نے چین کے تعاون سے اپنے قدرتی وسائل کو ترقی دے کر ملک میں ترقی اور خوشحالی کے جو نئے امکانات پیدا کئے ہیں،وہ امریکہ اور اسرائیل کے اسٹرٹیجک مفادات کے خلاف ہیں،اِس لیے ضروری تھا کہ وہ افریقہ بالخصوص سوڈان میں اپنے قدم جمائے اور دیگر بیرونی طاقتوں کو سوڈان میں آنے سے روکے تاکہ بلا شرکت غیرے سوڈان کے وسائل خود ہڑپ کر سکے ۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ 1898ءمیں سوویت یونین کی افغانستان میں شکست اور وسط ایشیاء سے پسپائی کے بعد امریکہ کو گریٹ گیم کیلئے کھلا میدان مل گیا،لیکن یہ گریٹ گیم صرف افغانستان میں نہیں ہورہا بلکہ امریکہ یہ کھیل دنیا کے کئی ممالک میں کھیل رہا ہے اور اِس کھیل کے زیادہ تر میدان مسلم اکثریتی علاقے چنے گئے ہیں،ایسا ہی ایک کھیل افریقہ کے سب سے بڑے مسلم ملک سوڈان میں برسوں سے کھیلا جارہا ہے،جس کے اب بدترین نتائج سامنے آنے والے ہیں،سوڈان کی تقسیم کا فیصلہ تو بہت پہلے ہوچکا تھا،اب آخری کیلیں ٹھونکنے کی تیاری کی جارہی ہیں،بظاہراِس کھیل کی تکمیل کیلئے امریکہ اور اُس کے حواریوں نے استصواب رائے کا حربہ استعمال کیا،لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے باوجود یہ استصواب رائے کا حق آج تک کشمیر میں کشمیریوں کو نہیں دیا گیا،آج سوڈان کی تقسیم میں صلیبی و صہیونی سازشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسرائیل کے ایماء پر امریکہ اور اُس کے صلیبی حواری جنوبی سوڈان میں عیسائیوں کی جو علیحدہ ریاست بنوانے جارہے ہیں،وہاں عیسائیوں کو اکثریت حاصل نہیں ہے،جنوبی سوڈان سات لاکھ مربع کلو میٹر پر محیط اور اِس کی آبادی 80 لاکھ ہے جس میں 18 فیصد مسلمان اور صرف 17 فیصد عیسائی ہیں،باقی بت پرست ہیں،یعنی وہاں مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں سے زیادہ ہے،لیکن صلیبی طاقتوں کو صرف سوڈان کی تقسیم سے غرض ہے،جس کی اصل وجہ جنوبی سوڈان میں تیل ومعدنیات کی بیش قیمت دولت ہے ۔

یہاں یہ جغرافیائی حقیقت بھی قابل ذکر ہے کہ جنوبی سوڈان کے پڑوسی افریقی ممالک ایتھوپیا(حبشہ)کینیا،یوگنڈا،ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگواورسنٹرل افریقی جمہوریہ عیسائی ممالک ہیں،صرف اُس کے شمالی اور مغربی پڑوسی مصر،لیبیا اور چاڈ مسلم ملک ہیں،اِن عیسائی ملکوں نے امریکہ،برطانیہ اور اسرائیل کی مدد سے سوڈان کے عیسائیوں کو بغاوت پر اکسایا اور مسلح بغاوت کے لئے اُن کی مالی اور فوجی امداد بھی کی،امریکہ اور اسرائیل،جنوبی سوڈان کے پڑوسی عیسائی ملکوں کے ذریعے ہمیشہ عیسائی باغیوں کی مدد کرتے رہے اورانہیں جدید اسلحے اور گولہ بارود سے لیس کرتے رہے،طرفہ تماشہ دیکھئے کہ اِن مغربی ممالک نے جنوبی سوڈان کے علیحدگی پسندوں اور باغیوں کو دہشت گرد اور باغی کہنے کے بجائے انہیں اپنی آزادی کی جائز جدوجہد کرنے والا قرار دیا،جبکہ مسلمانوں کی طرف سے یہی جدوجہد کشمیر ،فلسطین،چیچنیا اور داغستان وغیرہ میں بغاوت اور دہشت گردی شمار کی جاتی ہے ۔

یہاں بھی مغرب نے اپنی اُس روایت کو زندہ رکھا جو مسلمان اور عیسائیوں کیلئے علیحدہ علیحدہ معیار، پیمانے اور اصول رکھتی ہے انہوں نے مسلم اکثریتی ملک انڈونیشیا کے عیسائی باغیوں کے ساتھ جو دوستانہ سلوک کیا،وہی رویہ مسلم سوڈان کے عیسائی باغیوں کے ساتھ اپنایا،جس طرح برسوں کی مسلح بغاوت کے بعد20مئی 2002کو ریفرنڈم کے ذریعے مشرقی تیمور ایک آزاد عیسائی ملک بن گیا،بالکل اُسی طرح 9جولائی 2011 کو قدرتی وسائل سے مالامال جنوبی سوڈان دنیا کا ایک نیا اور آزاد عیسائی ملک بننے جارہا ہے ۔

آج اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ 1990 سے 2011 کے درمیان کے اکیس برسوں میں دنیا کے نقشے پر33نئے ممالک وجود میں آئے جن میں سے 24عیسائی اورصرف 9 مسلم ریاستیں ہیں،خیال رہے کہ یہ سب کے سب شمالی ایشیاء اور مشرقی یورپ کے کمیونسٹ بلاک سوویت یونین اور یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کہ وجہ سے وجود میں آئے تھے،اِس میں بھی بوسنیا کے مسلمانوں کو مکمل آزادی نہیں دی گئی، بلکہ اقلیتی سربوں کو بھی اقتدار میں شامل کردیا گیا،مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی طرح ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی مسلم اکثریتی اور جغرافیائی خطے کو ان کی مسلح جدوجہدآزادی یا بغاوت کے نتیجے میں آزادی یا خودمختاری نصیب ہوئی ہو،لیکن خود مسلم اکثریتی ممالک کو توڑنے اور اُس کے حصے بخرے کرنے کا عمل ہمیشہ جاری رہا،عراق اور سوڈان کی تقسیم اِس کا بین ثبوت ہے ۔

عراق کے شمالی حصے کو کسی ریفرنڈم کے بغیر ہی عملاً ایک آزاد کردِستان میں تبدیل کردیا گیا،لیکن چیچنیا اور داغستان (روس)مغربی میانمار،جنوبی تھائی لینڈ،جنوب مغربی چین (سینکیانگ) اور دیگر خطوں میں اقوام متحدہ میں وعدوں کے باوجود نہ صرف یہ کہ کبھی مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی طرح ریفرنڈم کے لئے راستہ ہموار نہیں کیا گیا بلکہ متذکرہ خطوں کی آزادی کی جدوجہد کرنے والوں پر علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کا لیبل بھی لگا دیا گیا،اگر ریفرنڈم ہی تمام مسائل کا حل ہے تو آخر یہ علاقے اقوام متحدہ کی اِس حکمت عملی سے کیوں محروم ہیں؟ہمارے اس سوال کا سب سے بہتر جواب اسرائیل کے وزیر برائے امور سلامتی ”AVIDICHTER “کے اُس بیان سے ملتا ہے جو اُس نے 4ستمبر 2008 ءکو ایک اسرائیلی یونیورسٹی میں لیکچر دیتے ہوئے دیا تھا،کہ ”ہمارا مقصد سوڈان کے حصے بخرے کرنا اور وہاں خانہ جنگی کی آگ بھڑکائے رکھنا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو یہ علاقہ اپنی وسیع وعریض سرزمین بے تحاشہ قدرتی معدنی اور زرعی وسائل اور اپنی بڑی آبادی کے ذریعے ایک طاقتور علاقائی طاقت سکتی بن سکتا ہے ۔

اِس لیے کہ اگر سوڈان میں استحکام رہا تو اپنے وسائل کے ذریعے ایسی قوت بن جائے گا جس کا مقابلہ ممکن نہیں رہے گا،لہٰذا سوڈان سے یہ صلاحیت چھین لینا اسرائیل کی قومی سلامتی کے لئے ناگزیر ہے،ہم نے سوڈان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے اُس کی پڑوسی ریاستوں ایتھوپیا،یوگنڈا،کینیا اور زائر میں سوڈان مخالفت کے بڑے مراکز قائم کیے اور اُن کو فعال رکھا تاکہ سوڈان عالم عرب اور افریقہ میں کوئی فعال کردار ادا نہ کر سکے ۔“

یہی اسرائیلی وزیر برائے داخلی سلامتی امور مزید کہتے ہیں کہ ”1968ءسے 1970ءکے درمیان میں جب مصر اور اسرائیل حالت جنگ میں تھے تو سوڈان نے مصری فضائیہ کی اصل قوت اور بری افواج کے تربیتی مراکز کے لئے اپنی سرزمین فراہم کی تھی،اِس صورتحال کے اعادہ سے بچنے کے لیے اسرائیلی ذمہ داران کا فرض تھا کہ وہ سوڈان کے لیے ایسی مشکلات کھڑی کریں جن سے نکلنا ممکن نہ رہے اور سوڈان عالم افریقہ میں کوئی مرکزی حیثیت حاصل نہ کرسکے،دارفر میں ہماری موجودگی ناگزیر تھی اِس کی تجویز وزیراعظم ایریل شیرون نے دی کہ وہاں بحران کھڑا کیا جائے،اِس پر عمل کیا گیا اور عالمی برادری خاص طور پر امریکہ اور یورپ نے ساتھ دیا اور دارفر کے بارے میں ہمارے طے شدہ اہداف و مقاصد اب تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں ۔“

قارئین محترم کیا یہ کھلا اعتراف اِس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ امریکہ اور اُس کے حواری کس کے لئے کام کر رہے ہیں،صاف ظاہر ہے کہ یہ سب صرف اسرائیل کے تحفظ کے لیے کیا جارہا ہے،کیونکہ امریکہ نہیں چاہتا کہ اُس کے لے پالک کے لئے خطے میں کوئی خطرہ موجود رہے،یہ ہے وہ ناپاک صہیونی و صلیبی منصوبہ جس کو امریکہ اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر پایہ تکمیل تک پہنچا رہا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ سوڈان کی تقسیم اور جنوب میں عیسائی ریاست کا قیام امریکی نوآبادیاتی منصوبے کا تسلسل اور مسلم ممالک کی طاقت کو پاش پاش کرنا ہے،ہماری نظر میں سوڈان کی تقسیم مسلم ممالک کی سیاسی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ سوڈان کے بعد کس اسلامی ملک کی باری آتی ہے؟چاڈ کے صدر ادریس دیبی کی یہ تنبہہ کہ” سوڈان کی علیحدگی کا نتیجہ بہت خطرناک نکلے گا اور اِس کا اثر پورے افریقہ تک پہنچے گا۔“ دیگر افریقی ممالک اور مسلم حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے ۔

جب تک مسلم ممالک کے حکمران اپنے پڑوسی اسلامی ممالک کی مذہبی،لسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم پر خاموش تماشائی بنے رہیں گے،امریکہ اُس کے حواری اِسی طرح مسلم ممالک کی تقسیم در تقسیم کا کھیل کھیلتے رہیں گے،واضح رہے کہ امریکی نوآبادیاتی سازشی منصوبہ کم و بیش تمام مسلم ممالک میں مختلف طریقوں سے جاری ہے،عراق،افغانستان،یمن، سعودی عرب اور پاکستان میں آزاد بلوچستان بھی اِسی سازشی منصوبے کا حصہ ہیں،حقیقت یہ ہے کہ فوجی جرنیلوں،خاندانی بادشاہتوں،شخصی آمریتوں اور ایجنٹ امریکی حکمرانوں نے مسلم ممالک کی آزادی اور وسائل کو امریکہ اور مغربی استعمار کی چراگاہ بنا دیا ہے ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357711 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More