ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے؟

سائیں گیلانی نے کہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر حکومت دباﺅ کا شکار نہیں ہے اگر دباﺅ ہوتا تو ریمنڈ جیل میں نہ ہوتا لیکن کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ریمنڈ کے معاملے پر حکومت غلطی کرے اور انہیں آنے کا موقع ملے اس وقت ریمنڈ کا معاملہ عدالت میں ہے اور عدالت ہی اس کا فیصلہ کرے گی دوسری طرف امریکی سینیٹر جان کیری نے پاکستان کا ہنگامی دورہ کیا ہے اور میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ریمنڈ کا معاملہ عدالتی نوعیت کا نہیں ہے اسے استثنیٰ حاصل ہے جس کی بات رحمان ملک اور فوزیہ وہاب کر چکے ہیں ہم ریمنڈ کو امریکہ لے جاکر اس کے خلاف کاروائی کریں گے گزشتہ دنوں امریکی صدر باراک اوباما نے بھی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ریمنڈ سفارتکار ہے اور اسے ویانا کنونشن کے تحت استثنیٰ حاصل ہے اس لئے ریمنڈ کو رہا کیا جائے اس سے پہلے پاکستان میں امریکی سفارتخانے نے ریمنڈ کو سفارتخانے کا ایک رکن بتایا تھا جبکہ ہمارے سابقہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس سفارتکار نہیں ہے ۔

حضرت یوسف علیہ السلام والی مصر تھے ان کے بھائی اور خاندان کنعان میں قیام پذیر تھے جب قحط سالی شروع ہوئی تو یوسف ؑ کے گیارہ سوتیلے بھائی اور ایک سگا بھائی بنیامین امداد کے لئے مصر کے بادشاہ کے پاس گئے وہ نہیں جانتے تھے کہ مصر کا والی ان کا بھائی ہے لیکن یوسفؑ نے ان کو پہچان لیا اور بنے امین کو اپنے پاس ٹھہرانے کا ارادہ کیا اور تدبیر کرنے لگا کہ کس طرح بنیامین کو واپس نہ جانے دیا جائے تو یوسف ؑ کے ذہن میں ایک تدبیر آگئی اور انہوں نے بنیامین کے سامان میں سونے کا شاہی پیالہ رکھوا دیا جب ان بھائیوں کا قافلہ مصر سے کنعان کی طرف روانہ ہو ا تو پیچھے سے شاہی قاصد نے آواز لگائی کہ تم قافلے والے تو چور ہو ہمارا شاہی پیالہ چرا کر جا رہے ہو یوسفؑ کے بھائیوں کا غصہ آ گیا اور کہنے لگے ہم نبی کی اولاد ہیں ہم چوری نہیں کر سکتے آپ ہمارے سامان کی تلاشی لے لیں جس کے سامان میں سے شاہی پیالہ برآمد ہو جائے اسے کنعان کے قانون کے مطابق اپنے پاس قید کر لیا جائے چنانچہ جب تلاشی میں شاہی پیالہ بنیامین کے سامان سے برآمد ہو گیا تو سزا کے طور پر بنیامین کو اپنے پاس ٹھہرا لیا حالانکہ مصر کے قانون کے مطابق وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے،یہ واقعہ بتانے کا مقصود جان کیری کا وہ بیان بھی ہے کہ ہم ریمنڈ کے خلاف امریکہ میں کاروائی کر یں گے۔اگر بات کریں امریکہ کے قانون کی تو ہم اس کی مثال ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو لے لیتے ہیں کہ جس پر دو امریکیوں کے قتل کا بے بنیاد الزام لگا کر امریکہ میں چھیاسی سال کی سزا دی جارہی ہے اس لئے ریمنڈ کو پاکستانیوں کے قتل کے جرم میں پاکستان میں اسی نوعیت کی سزا دی جانی چاہئے،یہ تو میرا ذاتی نقطہ نظریہ ہے سزائیں سنانا اور دلوانا تو عدالتوں کا کام ہے ویسے سائیں گیلانی نے بھی کہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر عدالت ہی فیصلہ کرے گی ،ایک لمحے کے لئے سائیں گیلانی کی بات کو صحیح مان لیا جائے کہ ریمنڈ کے معاملے پر حکومت پر کو ئی پریشر نہیں ہے تو پھر پیپلز پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات کو کیا پڑی ہے کہ وہ ریمنڈ کی حمایت میں کتابیں اٹھائے پریس کانفرنس کر ڈالے اور ریمنڈ کے استثنیٰ کی بات کرے اگر امریکی صدر باراک اوباما کے بیان کو دیکھیں جس میں ان کا کہنا کہ ریمنڈ کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے اور پاکستان کو ویانا کنونشن کی پاسداری کرنا چاہئے ہماری حکومت کو اور عدالت کو یہ دیکھنا چاہئے امریکہ نے کتنے سفارتکاروں کو استثنیٰ دیا ہے بلکہ 1997ءمیں جارجیا کے نائب سفیر سے ٹریفک حادثے میں تین شہری زخمی اور لڑکی جاں بحق ہوگئی تھی تو امریکی عدالت نے اس سفیر کو سزا سنائی تھی جب جارجیا کے صدر نے استثنیٰ کی بات کی تو امریکی حکومت نے کہا کہ ہم عدالتی معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتے،اس لئے پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت کو عوامی جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی دباﺅ کو مسترد کریں اور یہی کہیں کہ امریکہ ہماری عدالتوں کے فیصلے کا احترام کرے،لگتا ہے ریمنڈ ڈیوس ،امریکہ کا کوئی خاص بندہ ہے جس کی وجہ سے پورے امریکہ میں کھلبلی مچی ہوئی ہے جس کی رہائی کے لئے پاکستان میں امریکی سفارتخانہ بھی تگ و دو میں لگا ہو ا ہے ،امریکی سینیٹر جان کیری بھی پاکستان میں ہنگامی دورے کر رہا ہے اور ملاقاتیں کر رہا ہے اور جس کی رہائی کے لئے اوباما بھی رہائی اور استثنیٰ کی بات کر رہا ہے،لیکن جمہوری حکومت کو عوامی جذبات اور توقعات کا بھی خیال کرنا چاہئے اور امریکی دہشت گرد کے ہاتھوں شہید ہونے والے فہیم کی مرحوم بیوہ شمائلہ کے مرتے دم کے الفاظ نہیں بھولنے چاہئے کہ مجھے انصاف چاہئے مجھے خون کے بدلے خون چاہئے،اگر ریمنڈ کو امریکہ کے حوالے کیا گیا تو امید ہے کہ یہ سوئی ہوئی قوم بیدار ہو جائے گی اور جب یہ بیدار ہوگئی تو پھر انقلاب کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا کیونکہ 2011ء انقلاب کا سال ہے۔
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 201550 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.