مکتب میں جانے والا ہر طالب علم جس طرح علامہ اقبال کی
نظم ’لب پہ آتی ہے دعا ‘ جانتا ہے اسی طرح سوشیل میڈیا کےگدلے تالاب میں
تیرنے والی ہر مچھلی اس اقتباس سے واقف ہے: جب آپ عا’شی کے لے پسےی وقف
کرنا شروع کر دیتے ہںل تو آپ کے ارادے اور ادارے کمزور ہو جاتے ہںھ اور
آپکی دفاعی حکمت عملی زیرو ہو جاتی ہے اور مجھے پتہ تھا کہ میںیہ سب کچھ
اپنی قوم کے لئے کر رہی ہوں۔ مںئ نے کہں پڑھا تھا کہ مسلمانوں کے نبی(ﷺ) کے
گھر کی دیوار پر انتہائی فاقوں کے باوجود آخری وقت مں بھی تن تلواریں ٹانگی
ہوئی تھںب اور اسی واقعہ نے مجھ کو ہمت دی تھی کہ میںیہ ڈیل کروں. اور
نتجہئ آپ کے سامنے ہے‘‘۔ اگر سوال کیا جائے کہ یہ کس کا بیان ہے تو یقیناً
۹۹ فیصد لوگوں کا جواب درست ہوگا کیونکہ ہر سال دوچار بار اس کی بازگشت
سنائی دیتی ہے۔ اس کا لاحقہ و سابقہ تبدیل ہوتا رہتا ہے لیکن درمیان میں
گولڈا مائر کی یہ نصیحت جب نبی کریم ﷺ کے ذکر کے ساتھ سامنے آتی ہے تو بڑی
عقیدت سے پڑھی جاتی ہے ۔
ابھی حال میں اسے انتظار حسین کی کتاب’ دلی جو ایک شہر تھا‘ کے اقتباس میں
بہادر شاہ ظفر کےدسترخوان پر دیکھنے کا موقع نصیب ہوا تو اسرائیل میں وقوع
پذیر ہونے والے چند واقعات بے ساختہ یاد آگئے ۔ اسرائیل کی سابق وزیراعظم
اگر ان کو پڑھتیں تو نہ جانے ان پر کیا گزرتی۔ ۳ دسمبر ۲۰۱۸ کو اسرائیل کی
پولیس نےقومی اٹارنی جنرل سے سفارش کی کہ وہ وزیراعظم پربدعنوانی الزامات
کی عدالتی کارروائی شروع کریں۔ دس ماہ قبل فروری میں بھی پولیس نے نیتن
یاہو پر رشوت لینے کا الزام عائد کیا تھا۔اسرائیلی پولیس نے وزیراعظم
بینجمن نیتن یاہو اور اُن کی بیوی سارہ پر کرپشن میں ملوث ہونے، فراڈ اور
اعتماد شکنی کے الزامات لگائے ہیں ۔
پولیس کے مطابق وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے قابل اعتماد ساتھیوں نے ٹیلی
کام ادارے بیزیق کو ضابطے کے منافی رعایت دے کر لاکھوں امریکی ڈالر کی مالی
منفعت فراہم کی ہے۔پولیس کی تفتیش سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ وزیراعظم نے
اپنے ایک ارب پتی دوست سے تحائف وصول کیے ہیں جو منصب کے منافی ہے۔ الزامات
کی طویل فہرست میں ایک اخبار کو ناجائز فائدہ فراہم کر اس سے بے تحاشہ ذاتی
تشہیر حاصل کرنا بھی شامل ہے۔ ۱۰ ماہ میں تین مرتبہ اٹارنی جنرل سے یہ
گزارش کی گئی لیکن ہر بار ناکامی ہاتھ لگی ۔ اس دوران پاکستان کے وزیراعظم
نواز شریف کورشوت خوری کے الزام میں اول توعہدے سے معزول ہونا پڑا اور پھر
وہ اقتدار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ۔ اس کے باوجود مغرب زدہ دانشور اسرائیل
کو عظیم جمہوریت اور پاکستان کو ناکام ریاست قرار دیتے ر ہےی ہیں ۔
بنجمن نتن یاہو اگر سابق ہوتے تو ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتا جو سابق صدر
موشت کاتساف کے ساتھ ہوا۔۲۲مارچ ۲۰۱۱ کو اسرائیل کی عدالت نے سابق صدر
موشے کاتساف کو جنسی زیادتی کے الزام میں سات سال قید اور دو سال کی معطل
سزا سنا دی ہے۔ کاتساف ۲۰۰۰سے۲۰۰۷ تک اسرائیلی صدرکے عہدے پر فائز تھے
مگر مقدمہ سبکدوشی کے ۴ سال بعد چلا۔اس سے معلوم ہوا کہ اصل مسئلہ اقتدار
کا ہے۔عدالتنےکاتسافپراپنیماتحتخواتینکوجنسیطورپرہراساںکرنےاور انہیں جنسی
زیادتی کا نشانہ بنانے کے الزام میں مجرم قرار دیا تھا۔ کاتساف پر ۲۸ ہزار
ڈالر ہرجانہ بھی عائد کیا گیا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق، " ملزم ایک علامت ہے،
یہ حقیقت کہ انہوں نے یہ جرم ایک ایسے وقت میں کیا جب وہ اعلٰی رتبے پر
فائز تھے، ان کے فعل کو مزید سنگین بناتا ہے"۔خواتین کو جنسی زیادتی کا
نشانہ بنانے اور انہیں ہراساں کرنے کے یہ واقعات اس وقت رونما ہوئے، جب
کاتساف وزیر سیاحت اور اسرائیل کےصدر تھے۔ یہ واقعہ صہیونی ریاست کے اخلاقی
انحطاط کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
۲۶ فروری ۲۰۱۹ کو یروشلم کی ضلع عدالت نے سابق وزیر گونین سیگوو کو ایران
کے لئے برسوں تک جاسوسی کرنے کے معاملے میں قصوروار قرار پانے کے بعد ۱۱
سال قید کی سزا سنائی۔ایک سال قبل سیگوو کو گویانا سے اسرائیل لاکرگرفتار
کیا گیا تھا ۔ وہ دائیں بازو کی پارٹی جومیٹ کےرکن پارلیمان اور توانائی و
ڈھانچہ جاتی معاملوں کے وزارت پر بھی فائز ہوئے تھے۔ سیگوو نے جنوری میں
اسٹیٹ ٹریبونل کے سامنے قبول کیا تھا کہ وہ پانچ برسوں تک ایرانی خفیہ
ایجنسیوں کے رابطہ میں رہاہے اور اس دوران اس نے کافی خفیہ معلومات دشمن کو
بہم پہنچائی تھیں اور وہ دنیا کے متعدد لیڈروں سے ملا تھا۔ان واقعات کو درج
کرنے کا مقصد امت کے عیوب کی پردہ پوشی نہیں ہے۔غیروں کی کمزوریاں ہمیں
طاقتور نہیں بناسکتیں انہیں تو ہمیں خود دور کرنا ہوگا لیکن اسرائیل کے
حوالے سے جو غیر معمولی مرعوبیت پائی جاتی ہے اس کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔
ان میں سے ایک واقعہ میں وزیراعظم کےخلاف رشوت خوری کے شواہد ہیں ۔ پولس
بار بار اٹارنی جنرل سے سفارش کرتی ہے لیکن اقتدار کے سبب اس کا بال بیکا
نہیں ہوتا ۔ یہ تو ہوا قانون کی حکمرانی کا معاملہ۔ سابق صدر سے عصمت دری
کےکئی جرائم کا ارتکاب اخلاقی و معاشرتی صورتحال کا شاخسانہ ہے۔ یہودیوں کی
حب الوطنی کے بیان میں مبالغہ آرائی کی ساری حدود قیود کو پھلانگ دیا جاتا
ہے۔ سابق وزیر مملکت کا جاسوسی کرنا اس طلسم کو پارہ بارہ کرتا ہے۔ ان
واقعات کی روشنی میں کم ازکم امت کو صہیونیوں کا حوالہ دے کر عار دلانے کا
یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ حالیہ پیغام میں اس کا ذکر یوں کیا گیا ہے :
مسلمانوں کا شوتہ عالشی نہںق فقر اور غر ت ہے موجودہ فلسطیس۔ معاملے مںب
بھی بالآخر ( نعو ذ با ا اللہ ) جیت اسرائل کی ہی ہوگی کو نکہ ہمارے مسلمان
سربراہان کے ناپاک اجسام کو گندگی کے ڈھیر اور عایشی کے سامان امریکہ اور
اسرائلل ہی فراہم کرتے ہںل اور یہ اس کے بغرن رہ نہںک سکتے۔
اس موقع پر ناصح محترم یہ بات بھول گئے کہ جن مسلم سربراہان کا یہاں ذکر ہے
وہ اسرائیل سے جنگ ہی نہیں کرتے اس لیے ہار جیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
حماس کے مجاہدین جو اسرائیل سے برسرِ پیکار ہیں ان پر عیش و عشرت کا وہ
الزام صادق نہیں آتا جو گولڈامائر سے منسوب ہے ۔ آزادی کے جذبہ سے سرشار
ان مجاہدین اسلام تو رات کے راہب اور دن کے شہسوار ہیں ۔ ان کی زندگی کے
واقعات پڑھ کر ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ عیش و طرب میں تو صہیونی رہنماڈوبے
ہوئے ہیں ۔ ایسے میں اللہ کی مددو نصرت کس کے شامل حال ہوگی اور کامیاب و
کامران ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ معروف ترقی پسند شاعر فیض
احمد فیض کا مجاہدین فلسطین کی خدمت میں خراج عقیدت پڑھیے اور فیصلہ کیجیے
کہ کیا سارے ترقی پسند ویسے ہی تھے جیسا کہ لوگ سوچتے ہیں ؎
ہم جیتیں گے
حقا ہم اک دن جیتیں گے
قد جاء الحق و زھق الباطل
فرمودۂ رب اکبر
ہے جنت اپنے پاؤں تلے
اور سایۂ رحمت سر پر ہے
پھر کیا ڈر ہے
ہم جیتیں گے
حقا ہم اک دن جیتیں گے
بالآخر اک دن جیتیں گے
|