میں 1965ء میں بھارت کیسا تھ ہونے والی جنگ میں پانچویں
جماعت میں جبکہ 1971ء کی جنگ میں گیارہویں جماعت میں پڑھا کرتا تھا اس جنگ
کے نتیجے میں ہمارے ہی ساتھ مشرقی پاکستان میں رہنے والے ہمارے مسلمان
بھائی جنہوں نے پاکستان بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا وہ ہم سے جدا
ہوگیا۔ اور دنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش کی صورت میں ابھرا۔
میں نے جنگ کی تباہ کاریاں آورہولناکیاں دیکھی ہوئی ہیں۔ میرے کچھ دوست جب
میں انہیں ان جنگوں کی ہولناکیوں اور تباہیوں کے بارے میں بتاتا ہوں تو وہ
مجھے ڈرو کہتے ہیں اور میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ جو کچھ ہمارے بچے اپنی نصاب کی
کتابوں میں پڑھتے ہیں، ہمارے شدت سے بھرپور ڈرامے، فلم کی سکرین پر دکھاں ے
جانے والے دشمن سے لڑای کے سین۔ ہم اپنی نسلوں کو انسانیت سے محبت نہیں
بلکہ انمیں جنگی جنون، وحشت اور نفرت پیدا کر رہے ہیں۔ ہمارے نسیم حجازی کے
او راسی طرح کے دوسرے ناول جن میں قوت ایمانی، جذبہ اسلامی، شہید
اورغاززیوں کے بارے میں تو بتایا جاتا ہے۔ ہمیں اپنے دشمن کے بارے میں
لیکچر دئے جاتے ہیں۔ ہمارے بچوں کو بہادری پر لیکچربھی دئے جاتے ہیں مگر
کبھی ہمارے نصا ب میں جنگ کی تباہ کاریاں اور ہولناکیاں نہیں پڑھائی جاتیں۔
انسانیت سے محبت کے لیکچر نہیں دئے جاتے ہمارے بچوں کو اسلامی اور غیر
اسلامی محبت اور نفرت توپڑھائی جاتی ہے مگر یہ کبھی نہیں بتایا جاتا کہ جنگ
بچوں کو ماؤں سے محروم کر دیتی ہے، گھر تباہ ہو جاتے ہیںِ، انسان اپنے
اعضاء سے محروم ہوجاتے ہیںَ بھوک ننگ کا راج ہوتا ہے۔ ہر طرف تباہی اور
بربادی کا راج ہوتا ہے گدھ، چیلیں آور کوے بے بس زندہ انسانوں کے جسموں کا
ماس نوچ نوچ کر کھارہے ہٓوتے ہیں۔ سڑکیں سنسان ہوجاتی ہینَ، نطام زندگی
مفلوج نہیں تباہ ہو جاتا ہے، بھوکے اور ننگے لوگ لوٹ مار کا بازار گرم کر
دیتے ہیں، بینک، مالیاتی ادارے، تعلیمی ادارے، ہسپتال، کارخانے،
بازار،گلیاں اور روڈ سنسان ہو جاتے ہیں دعائیں چھین لی جاتی ہیں۔ منتر اور
جادو چلنا بند ہو جاتے ہیں اور انسانیت مر رہی ہوتی ہیے۔ جنگی جنون جو
حکومتوں کے سر پر سوار ہوتا ہے اسمیں غریب اور بے بس کام آتے ہیں امارت یا
تو ملک چھوڑجاتی ہے یا پھر اپنی سیسہ پلائی ہوئی بڑی بڑی محل نما عمارتوں
میں محفوظ ہو جاتی ہے۔ جب دشمن کے چھکے چھڑا دینے کے بارے میں اور اسکے
خلاف بچوں کے ازہان میں شدت پسندی کے نقشے کھینچے جاتے ہیں تو میرے دماغ
میں وہ سارے مناظر ایک فلم کی طرح چلنے شروع ہو جاتے ہیں اور میں انہیں
بھول کر موجودہ ایٹمی ہتھیاروں کی جنونینت کے بارے میں سوچ کر دم بخود رہ
جاتا ہوں۔ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملہ انسانی، حیوانی، چرند اور
پرند کی زندگیوں کا وہ ہولناک اور خونچکاں واقعہ ہے جو کم از کم انسانوں کی
زندگی میں ایک سبق آموز غیر انسانی اور حیوانیت کی بد ترین مثل ہے۔ جسے
صدیوں تک یاد رکھا جائیگا۔
ہیروشیما پر 6 اگست 1945 کو صبح کے سوا آٹھ بجے گرآئے جانے والے اس انسانی
تاریخ کے وحشیانہ ایٹمی بم نے آن واحد میں 3 لاکھ سے زیادہ جانوں کو نگل
لیا۔ اور یہ شہر پورے طور سے تباہ ہوگیا۔ عمارات کھنڈرات میں تبدیل ہو گئیں۔
ہر طرف انسانی، جانوروں اور چرند پرند کے مردہ اجسام بکھرے پڑے تھے ہر طرف
تعفن تھا ماحول انتہائی آلودہ تھا اورزندگی کا نام و نشان مٹ چکا تھا۔
انتہائی بھیانک حالات تھے مگر اسکے باوجود ہم تا حال ان ہتھیاروں کا سہارا
لیکر انسانیت کو ختم کرنے کے درپے ہیںَ۔
جو قومیں اپنے ماضی کے واقعات کو بھول جاتی ہیں اور ان سے سبق حاصل نہیں
کرتیں وہ ہمیشہ اور بار بار تباہی سے ہمکنار ہوتی ہیں مگرجاپان نے اپنی اس
تباہی سے سبق سیکھا اور اسنے اپنے بڑے نقصان کے بعد اپنی شکست کو مد نظر
رکھ کر ماضی میں کیے فیصلوں پر غور کیا۔ غلطیوں کی نشاندہی کی اور پھر کھبی
ویسا نہ کرنے کا عزم کیا۔ انہوں نے تعلیم کے میدان میں ترقی کی اور
سائنسدان انجینئرز دانشور پیدا کرنے کو اپنا ہدف بنا لیا۔ جاپان نے اپنے
تعلیمی نصاب اور درس گاہوں پر خصوصی توجہ دی ایسے معلم بھرتی کیے جنہوں نے
آنے والی نسلوں سے جنگی جنون اور انتقامی سوچ کو ختم کرنے پر کام کیا اور
آج جاپان دنیا کا ترقی یافتہ ملک ہے۔آج جاپان میں لڑائی کو ختم کرنے کے لیے
ایک مشہور جاپانی کہاوت ہے کہ آپس میں کبھی نہ جھگڑنا مل جل کر کام کرنا
اور اس کہاوت کو سنا کر صلح کر لی جاتی ہے۔ اکانومی کے لحاظ سے جاپان دنیا
کی صفِ اوّل کی طاقتوں میں شامل ہے۔ ایٹامک بم ڈوم (A-Bomb Dome) جو ایک
صنعتی فروغ سینٹر تھا اس کی عمارت کے ڈھانچے کو اس سانحہ کی یادگار کے طور
پر رکھا گیا ہے تاکہ ہم اس واقعہ کو نہ بھولیں اور ایسی فاش غلطی دوبارہ نہ
کریں۔ یہ ہے وہ قوم جو آج بھی اپنے ماضی کو یاد کرکے اپنے خوبصورت حال میں
رہتے ہوئے مستقبل کو روشن کئے ہوئے ہے،
ایٹم بم کسی بھی اعتبار سے ایک فوجی ہتھیار نہیں ہے۔ جو ہتھیار اسکول اور
اس میں بچوں کو جلاکر راکھ کر دے، اسپتال اور اس میں مریض اور ڈاکٹر، گھروں
میں معصوم لوگ ختم ہوجائیں وہ ہتھیار پوری طرح انسانیت کا دشمن ہے اور جب
تک ایسے ہتھیار دنیا سے ختم نہیں ہوجاتے یہ خطرہ ہمیشہ ہی رہے گا کہ کہیں
پھر نہ کوئی دوسرا ہیروشیما ہوجائے۔ ہمیں اس بارے میں تحریک چلا کر انسانیت
کو بچانا ہوگا۔ انسانیت مقدم ہے۔ ہم زمین پر بسنے والے سب ایک ہیں ہمیں آپس
میں محبت کرنا ہوگی نفرت تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ جنگ سے اجتناب ہی زمین پر
رہنے والوں کو ستاروں پر کمند ڈالنے کے قابل بنا سکتا ہے۔
ترکی شاعر ناظم حکمت کی مشہور نظم dead girl(متوفی لڑکی)کے کچھ حصہ کے ساتھ
ہی اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں۔
میں آتی ہوں اور ہر دروازوں پر دستک دیتی ہوں۔
لیکن میں نہیں دکھتی ہوں کیونکہ میں بہت پہلے ہیروشیما میں مرچکی ہوں۔
میں 7 سال کی ہوں کیونکہ جب بھی 7سال کی تھی۔
کیونکہ مجھ کو بتایا گیا کہ مرے ہوئے بچے بڑے نہیں ہوتے
ایکدم سے ہزاروں بجلی کی چمک اور سورج سے زیادہ گرم لہر چلی۔
پہلے میرے بال جلے آنکھیں مدھم ہوئیں اور میں اندھی ہو گئی۔
میں جل کر راکھ ہوئی اور تیز آندھی نے میری ہڈیوں کی راکھ بھی اڑادی۔
میں آتی ہوں اور خاموشی سے ہر دروازہ پر دستک دیتی ہوں۔
مجھ کو اپنے لئے کچھ بھی نہیں چاہیے، نہ کوئی پھل، نہ چاکلیٹ نہ چاول، نہ
روٹی۔
مجھ کو دنیا میں امن چاہیے تاکہ ہم بچے زندہ رہ سکیں، کھیل سکیں اور بلاوجہ
ہنس سکیں۔
(سید انیس احمد بخاری)
|