او آئی سی کا سبق آموز آئینہ اور ایل او سی کے عوام

او آئی سی کا سبق آموز آئینہ اور ایل او سی کے عوام

آزاد جموں وکشمیر و مقبوضہ جموں وکشمیر کو جدا کرنے والی منحوس خونی لکیر لائن آف کنٹرول کے نام سے پہچان رکھتی ہے جس کے دونوں اطراف کشمیریوں کی آبادی برس ہا برس سے آمنے سامنے حسرت بھری نظروں سے انتظار کی سولی پر سوار کرب الم سے دوچار چلے آ رہے ہیں کہ کب یہ خونی لکیر ختم ہو گی اور ہم ایک بار پھر اپنے عزیز و اقارب دوست احباب کے گھروں میں آنے جانے اور خوشی غمی میں شریک ہونے کے پہلے جیسے مواقعوں سے ہمکنارہوں گے مگر یہ خونی لکیر اقوام متحدہ اور انسانیت انسانی حقوق کے محافظ کہلانے والے ممالک اداروں کے قول و فعل کے تضاد کا جیتا جاگتا المیہ ہے اور واضح ثبوت ہے کہ عالمی ادارے بااثر ممالک کے مزاج کے تابع ہیں ‘ ان کی اپنی زبان باتوں اور نشست برائے نشست سے بڑھ کر کوئی اہمیت افادیت نہیں ہے ان عالمی اداروں اور ممالک سے گلہ ہی کیا خود مسلم شناخت کی بنیاد پر قائم او آئی سی نے موجودہ پاک بھارت کشیدہ حالات کے باوجود بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو بطور گیسٹ آف آنر بلا کر اور استقبال میں جپھی ڈال کر بتا دیا ہے کہ اب ساری دنیا میں مذہب تاریخ تہذیب ثقافت رشتے ناطے سب محض شاعری کی طرح کہنے سننے کی باتیں ہیں حقیقت صرف اور صرف مارکیٹ ہے کمرشل ازم ہے جس کی جتنی بڑی مارکیٹ ہے وہ اتنا ہی معتبر اور دوست ہے معیشت اُصول طاقت مذہب تہذیب ‘ ثقافت رشتے ناطے تعلقات کا مختصر نام ہے جس کی زندگی اپنے اپنے مفادات سے منسلک ہے یہ وہ آئینہ ہے جسے سامنے نہ رکھتے ہوئے مذہب تاریخ تہذیب تعلقات توقعات کی بنیادوں پر اُترانا ملک ملت کو بھنور میں پھنسانے چلے جانے کے تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے جس کا ادراک ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف تک وہ سب راہنما اور دانش حکمت رکھنے والے رکھتے تھے کہ پہلے پاکستان کو معاشی لحاظ سے اسی قدر طاقت ور بنانا ہے کہ یہ ملک لینے والے نہیں دینے والے بڑے ناموں میں قدرومنزلت حاصل کر جائے اور اس کی بات مسلمہ حقیقت کا روپ اختیار کر جائے اور یہ حقیقت بھی سمندر کی طرح گہری اور سچائی کی بلندی ہے کہ ایک اقتصادی معاشی طاقت کے طور پر پاکستان کشمیریوں کی حق خودارادیت کی تحریک کو کامیابی دلانے کا ضامن بن سکتا ہے ایسے میں جنگ و جدل اور جذبات کے بجائے عملی اور طویل وقتی وطن عزیز کو معاشی طاقت بنانے اور کشمیریوں کو قتل عام سے بچاتے ہوئے ان کی جمہوری جدوجہدکو تسلسل کے تقاضوں کو اول و آخر معیار بنانا ہو گا جس کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان ‘ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ‘ آصف علی زرداری سمیت قومی قیادت اور دفاعی حکام کا موقف و کردار فیصلے ہر لحاظ سے قابل قدر ہیں اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر ہی اپنے مقاصد کو عملی شکل دی جاسکتی ہے یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ ستر سال خصوصاً گزشتہ چار عشروں سے کنٹرول لائن کے عوام کو اپنے گاؤں اور گھروں میں دشمنی کی گولہ باری فائرنگ کا مقابلہ کرتے ہوئے صحت ‘ تعلیم سمیت بنیادی سہولیات اور محفوظ پناہ گاہ کے جامع منصوبہ پر آج تک غور نہیں کیا گیا ہے جن کا معاش اپنے زرعی رقبوں پر چلتا ہے ‘ محنت مزدوروی ان کا سہارا ہے ‘ چیف سیکرٹری مطہر عباس رانا نے وزارت اُمورکشمیر کو مکتوب تحریر کیا ہے ‘ سیز فائر لائن کے ساتھ مقیم تمام خاندانوں کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کارڈ دیئے جائیں یہ ان کا اخلاص ہے مگر امداد کے بجائے ان کو محفوظ مکانیت بنکرز ‘سکولز ‘ہسپتال ‘ بجلی ‘ پانی ‘ غلہ کا جامع منصوبہ درکار ہے جس کے لیے سیاسی انتخابی بنیادوں پر ترقیاتی فنڈز کو اس کے تحت تعمیر سکیموں کا چھ ماہ سال کے اندر ہی تباہ و برباد ہونے کا سلسلہ ختم کرتے ہوئے اس مقصد کے لیے بروئے کار لانا چاہیے یہ امداد ہی ہے جس کے ہاتھوں مسلم کہلانے والے عرب حکمرانوں نے ہماری بات سننے کے بجائے بھارت کو مسلم فورم پر مہمان بنایا ہے یہ قدر قیمت ختم کر کے سچے اُصولی موقف کو بھی بے وزن کر دیتی ہے اس لیے ترکی ‘ ایران کی طرح اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے سچے باعمل راستے کو ملک کا مقصد بھی بنائیں اور عام آدمی کا بھی ان بنیادوں پر تحفظ یقینی بنائیں ۔
 

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 131824 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.