پاک امریکہ تعلقات کے وکیلوں کو
نوید ہو کہ ان کے آقا و مولا کا کار خاص انتہائی تزک و احتشام اور خیر و
عافیت کے ساتھ واپس روانہ ہونے کو ہے۔خیرات کے ٹکڑوں پہ پلنے والے دانشور
اور امریکہ کو اپنا خدا ماننے والی این جی اوز کچھ عرصہ مزید حرام کے ان
ڈالروں سے مستفید ہوتے رہیں گے۔آج ہی کے اخبار میں چھپنے والی ایک خبر کے
مطابق وزارت خارجہ نے وزارت قانون کو ایک سمری ارسال کی ہے جس میں کہا گیا
ہے کہ یہ مشٹنڈہ سفارتکار ہے اور اسے ویانا کنونشن کے تحت سفارتی استثناء
حاصل ہے۔یہی سمری اب پنجاب حکومت کو بھیجی جائے گی۔اس کے مدارالمہام اسے
عدالت میں پیش کریں گے اور عدالت کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں
رہے گا کہ وہ ریمنڈ کو واپس امریکہ کے حوالے کرنے کا حکم دے دے۔یوں ہمارے
آقا کا یہ کارندہ صحیح سلامت واپس امریکہ لوٹ جائے گا۔رہا خون خاک نشیناں
تو اس کا تو مقدر ہی خاک ہے اس لئے اس کا مذکور ہی کیا۔
حکومت کیا پاکستانی اشرافیہ اس سے ہمہ جہت فوائد حاصل کرے گی۔عالمی سطح پہ
اس کے ماتھے پہ ایک اور کلغی کا اضافہ ہو جائیگا کہ اس نے ایک بڑے بین
الاقوامی تنازع کو کس خوبصورتی سے حل کر لیا۔امریکی اور عالمی مالیاتی
بدمعاش بھی کچھ عرصہ مزید اپنی مہربانیوں کا رخ ان لٹیروں کی طرف کئے رکھیں
گے اور داخلی طور پر نون غنوں کو بھی سبق سکھا دیا جائے گا۔ امریکیوں کو تو
یہ باور کرا ہی دیا گیا ہے کہ یہ نون غنے عالمی برادری کے معاہدوں کا
احترام کرنے کے قابل نہیں۔ رائے عامہ بھی سب سے زیادہ انہی کے خلاف ہو گی
کہ براہ راست پنجاب سے اس غنڈے کا چھوٹنا عوام الناس میں پنجاب حکومت کی ہی
کمزوری سمجھا جائے گا۔یوں اس کی رہائی کے خلاف جلسے جلوس ہونگے اور پنجاب
میں امن وامان کی صورت حال خراب کر کے پنجاب حکومت کو نااہل اور نالائق
ثابت کیا جائیگا۔جہاں تک حکومت سے باہر سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے تو وہ اس
معاملے کو کچھ عرصہ اپنا ووٹ بنک بڑھانے کے لئے استعمال کریں گی اور پھر ان
کے ہاتھ کوئی اور حادثہ لگ جائیگا کہ پاکستان جب سے بنا ہے ایک کے بعد
دوسرا مسئلہ ان پیران تسمہ پا کی وجہ سے پاکستان کے گلے کا ہار رہا ہے۔
اس کے ساتھ عدالت کی چڑھی ہوئی گڈی پہ بھی ڈھانگری ڈل جائیگی۔ جب یہ مشہور
کیا جائے گا کہ یہ عدلیہ بھی ہمارے اوپر ہی شیر ہے ۔ جہاں اس کا معاملہ کسی
دانتوں والے سے آپڑے اور اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں یا اس کا اپنا مفاد
ہو تو وہاں یہ عدلیہ اسی طرح بکری بن جاتی ہے جیسے پاکستان کی دوسری
اشرافیہ۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ عدالت جذبات پہ نہیں شہادتوں پہ فیصلے کرتی
ہے۔ لیکن یہ قانونی موشگافیاں یا تو وکیل جانیں یا جج۔ عوام کو تو بس اس سے
غرض ہوتی ہے کہ فیصلہ کیا ہوا۔لوگ ویسے بھی جسٹس رمدے کے معاملے میں اپنائے
جانے والے دوہرے معیار پہ گلی گلی محلے محلے یہ کہتے پائے جا رہے ہیں کہ
کنٹریکٹ پہ کام کرنے والے باقی افسران تو برے ہیں لیکن جب خود جج کا معاملہ
ہو تو قانون مو م کی ناک بن جاتا ہے۔مانا کہ جسٹس رمدے اچھے ہی نہیں بہت
اچھے جج ہیں لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اسلام میں قوم کی قیادت کرنے
والے کو اتنی بھی رعایت نہیں ملتی جتنی کہ عام لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔اسے
اپنے لمبے کرتے کا بر سر عام جواب دینا پڑتا ہے۔
عوام تو کالانعام ہوتے ہیں ان کے لیڈر ہی انہیں اپنی عقل و دانش سے کسی
متعین منزل کی طرف لے جایا کرتے ہیں۔عوام کا س معاملے میں کیا قصور ، ا
نہوں نے تو گلیوں اور بازاروں میں آکے اپنے جذبات کا اظہار کر دیا ۔انہوں
نے ان غبی لیڈروں کو یہ پیغام دے دیا کہ وہ امریکی دھونس اور دھاندلی پہ
لعنت بھیجتے ہیں۔ انہیں بھوکا رہنا منظور ہے لیکن عوام کرے بھی تو کیا کرے
کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں فیصلے کا اختیار ہے انہیں سوائے اپنی باریوں اور
اپنے مفادات کے اور کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔عوام اس ساری اشرافیہ کو بھی
آزما چکی ۔عوام نے آمریتیں بھی دیکھ لی ہیں عوام اب کس پہ اعتبار کرے؟وزیر
اعظم فرماتے ہیں کہ مصر کے اور ہمارے حالات میں بہت فرق ہے۔جناب والا کوئی
خاص نہیں اور اگر ہے تو بس اتنا کہ وہ ابھی اس منحوس نظام کو گرانے کی پہلی
سیڑھی پہ ہیں اور ہم آخری پہ۔وہ اب جن کو آزمانے چلے ہیں ہم ان کو کب کے
بھگت چکے۔جو مصریوں نے التحریر سکوائر میں کیا ہم وہ سب کچھ اس دن کریں گے
جس دن ہمیں کوئی میڈ ان پاکستان اور میڈ فار پاکستان لیڈر نصیب ہو گا۔جس کا
جینا مرنا سب پاکستان کے لئے ہو گا اور جس کے دامن پہ کوئی داغ نہ ہو گا۔ہم
آج وہ ،کام کریں گے تو پھر آپ ہی جیسا کو یہ ہمارے کندھوں پہ آسوار ہو گا۔
آپ کی مسکراہٹ جائز ہے۔ آپ میری اور میرے جیسے اٹھارہ کروڑ احمقوں کی اس
خواہش پہ کھل کے ہنس سکتے ہیں لیکن جناب وزیراعظم ۔ایک دن ہمیںسمجھ آہی
جائے گی کہ ہمیں کون، کہاں ،کس کے ہاتھ اور کس قیمت پہ بیچ رہا ہے۔جس دن
ہمیں سمجھ آگئی اس دن پھر فیض کی زبان میں تاج اچھالے جائیں گے اور تخت
گرائے جائیں گے اور پھر راج کرے گی خلق خدا لیکن اس خلق خدا سے اس دن آپ کو
اور آپ کے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو بیک قلم خارج کر دیا جائے گا۔ خداکی
پناہ !بھوکے ننگے کچلے ہوئے اٹھارہ کروڑ لوگ اور دو فیصد وہ اشرافیہ ان کی
حکمران جن کے کتوں کو بھی ہم سے اچھی خوراک ملتی ہو۔ بھوکے کی بھوک اور
ننگے کے ننگ کو بھوکا اور ننگا ہی سمجھ سکتا ہے۔ ہمیں ایک بھوکا اور ننگا
لیڈر چاہیے کہ ہم سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ ہمارا لباس آپ نے اتار دیا ہے
اور اپنی غیرت۔ریمنڈ تو چلا ہی جائیگا لیکن پاکستان کو کچھ نہ کچھ مل ہی
جائے گا۔اشرافیہ کو تھوڑا سا راتب اور بھوکے ننگوں کو بھوکا ننگا ہونے کا
احساس۔اور جناب والا یہ احساس ہی ایک دن ہماری طاقت بنے گا۔ |