ریمنڈ ڈیوس سے شاہ محمود قریشی تک

ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنٰی حاصل ہے یا نہیں؟ ہمارے خیال میں یہ بحث ہی فضول ہے کیونکہ جس ملک کے حکمران بے حس اور عوام لکیر کے فقیر ہوں وہاں تین چھوڑ تین سو شہریوں کو بھی کسی ”سپر پاور“ کا کوئی بھی ایجنٹ قتل کردے، نتیجہ کچھ بھی نہیں نکل سکتا۔ہمیں جس طرح ریمنڈ ڈیوس کے سفارتی استثنٰی ہونے یا نہ ہونے سے کوئی مطلب نہیں ویسے ہی یہ ٹینشن بھی نہیں کہ قاتل ہونے کے باوجود اسے رہا کیا جاتا ہے یا نہیں؟البتہ اس اہم ترین معاملے پر بھی اپنے حکمرانوں اور سیاسی قائدین کے طرز عمل پر اعتراض ضرور ہے کہ وہ یہاں بھی حسب سابق اور حسب روایت ایک ایک اینٹ کا مندر بنائے اپنا اپنا بھجن الاپ رہے ہیں۔معلوم نہیں ان کا مطمع نظر خود کو بیوقوف بنانا ہے یا پھر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا کہ نتائج اور اس کیس کے انجام کا علم ہوتے بھی ناممکن کو ممکن میں تبدیل کرنے کے دعوے تھمنے میں ہی نہیں آرہے۔ صرف حکومت اور اپوزیشن ہی نہیں سیاست کے میدان کا ہر کھلاڑی لاہور میں مبینہ امریکی سفارتکار کے ہاتھوں تین بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں پر نوحہ کناں انکل سام کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں کر رہا ہے اور وہ بھی اس ڈھٹائی کے ساتھ کہ ہر ہر لفظ میں جھوٹ اور ہر ہر دعوے میں فریب کا عنصر انتہائی نمایاں دکھائی دیتا ہے۔

حکومت کے حوالے سے دیکھیں تو وزیر قانون بابر اعوان کی ”ریمنڈ کے بدلے عافیہ“ کے الفاظ پر مشتمل بڑھک کی بازگشت شاید ابھی ملکی سرحدوں سے بھی باہر نہیں نکلی تھی کہ انہی کی جماعت کی سیکرٹری اطلاعات فوزیہ وہاب نے ڈیوس کو نہ صرف استثنٰی حاصل ہونے کا ڈھول پیٹ دیا بلکہ اس کی گرفتاری کو بھی ناجائز قرار دے مارا۔ کویت میں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی جانب سے کیس کا فیصلہ عدالتوں کے کرنے کی بات ابھی”بریکنگ نیوز“ کی پٹیوں سے بھی نہیں نکلی تھی کہ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے ریمنڈ کو سفارتکار تسلیم کئے جانے کی افواہیں گردش کرنے لگیں اور پھر صورتحال اس وقت تو بالکل ہی واضح ہوگئی جب وائٹ ہاﺅس میں صدر اوباما اور لاہور میں سینٹر جان کیری کی پریس کانفرنس نے تمام دعوؤں کو ریت کی دیوار ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ اس معاملے پر سیاست برائے سیاست کا پول بھی کھول دیا۔

حکومت لاکھ کہتی پھرے کہ اس پر امریکی اہلکار کی رہائی کے لئے دباﺅ نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ حکمران حسب سابق” کہو کچھ اور کرو کچھ “کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ قانونی لحاظ سے یہ کیس انتہائی پیچیدہ ہوچکا ہے لیکن حکومت اس پیچیدگی میں جان بوجھ کر مزید اضافہ کر تی جارہی ہے جس کا مقصد سیاسی مقاصد کے حصول کے سوا کچھ بھی نہیں۔صرف حکومت ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی کچھ ایسا ہی وطیرہ اپنائے ہوئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے معاملے پر سیاست کا آغاز یوں تو روز اول ہی ہوگیا تھا لیکن اس میں تیزی کابینہ کی تبدیلی کے بعد شاہ محمود قریشی ،بابر اعوان اور پھر فوزیہ وہاب کے بیانات کے وقت آئی۔ کہنے کو تو ان تینوں نے الگ الگ مؤقف اپنا رکھا ہے اور اسی صورتحال کو بعض مبصرین حکمران جماعت کے اختلافات بھی قرار دے رہے ہیں لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور اصل حقیقت یہ ہے یہ سب ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت ہی ہورہا ہے۔ ہوا دراصل یہ تھا کہ جب امریکہ کی طرف سے پاکستانی حکومت پر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لئے دباؤ بڑھنے لگا تو پیپلز پارٹی نے کابینہ کے اختصار کو تائید غیبی جان کر سب سے پہلے شاہ محمود قریشی کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔سابق وزیر خارجہ چونکہ دو سال بعد ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد پنجاب کی وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں لہٰذا پیپلز پارٹی نے کمال سیاسی چال چلتے ہوئے عوامی جذبات کا فائدہ اٹھانے کے لئے انہیں میدان میں اتارا تاکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت عظمیٰ کے لئے راہ ہموار ہوسکے ۔جب اس چال نے کچھ الٹا رنگ دکھانا شروع کیا توامریکہ کو راضی رکھنے کے لئے فوزیہ وہاب کا انتخاب کیا گیا۔ فوزیہ وہاب پیپلز پارٹی کی سیکرٹری اطلاعا ت اور قومی اسمبلی کی رکن تو ہیں لیکن وہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئی ہیں اور ان کا کوئی بھی حلقہ انتخاب بھی نہیں لہٰذا ان کو کسی بھی قسم کے سیاسی نقصان کا قطعاً اندیشہ نہیں، یوں پیپلز پارٹی نے ایک تیر سے دو شکار کئے ۔ایک طرف تو شاہ محمود قریشی کو ہیرو بناکر آئندہ عام انتخابات کے لئے سرمایہ کاری کی جبکہ دوسری جانب فوزیہ وہاب کے نعرہ مستانہ کے ذریعے امریکی خوشنودی کا سامان بھی کردیا۔

رہ گئی وزیر قانون بابر اعوان کی بات تو یہاں بھی عوامی سے زیادہ سیاسی عنصر نمایا ں ہے ۔بابر اعوان چونکہ پہلے ہی اکھاڑے کے پہلوان مشہور ہیں لہٰذا انہیں اس کیس کے مرکزی فریق پنجاب حکومت کو نیچا دکھانے کا ٹاسک سونپا گیا تھا اور اسی ٹاسک کے حصول کے لئے انہوں نے پنجاب حکومت کے بعض زعماء کی جانب سے کیس کے حوالے سے مرکز پر تنقید کا جواب انہی کی زبان میں دیکر گویا ان کے منہ ہی بند کردیئے۔ یہ کھیل ابھی بھی جاری ہے اور پیپلز پارٹی ایسے ہی بیانات فریبوں کا سہارا لے کر معاملے کو لٹکانے کی خواہش مند بھی ہے۔ اندازہ یہی ہے کہ باراک اوباما کی ”بینتی“ اور سینٹر جان کیری کی پاکستان آمد کے باوجود ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرنے کے بجائے اس ایشوء کو انتخابی تیاریوں کے لئے استعال کرے گی۔ کہنے والے تو جہاں تک کہہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی نہ صرف اس معاملے کو الیکشن کے حوالے سے کیش کروائے گی بلکہ اپنی ساکھ بچانے کے لئے اس گھنٹی کو آنے والی حکومت کے گلے باندھنے کی کوشش بھی کرے گی ۔معاملہ چونکہ عدالت میں ہے لہٰذا اس پر کھل کر تبصرہ ممکن نہیں لیکن آئیں ، بائیں ،شائیں کا سہارا لینے کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت عدالتی کاروائی کو بھی بنیاد بنا کر وقت گزاری کی کوشش کرے گی ۔

پنجاب حکومت چونکہ اس معاملے میں بنیادی فریق ہے اور وہی کیس کو عدالت بھی لے کر گئی ہے لہٰذا صوبائی حکمران بھی کسی بھی طرح وفاق سے پیچھے نہیں۔ مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت نے اگرچہ اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے لیکن درمیانے درجے کے رہنماﺅں کا کندھا ضرور استعمال کیا جارہا ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ صوبائی مشینری بھی متحرک ہے جس کا ایک ثبوت لاہور کی کوٹ لکھپت جیل جہاں ریمنڈ ڈیوس کی حفاظت کے لئے رینجرز تک تعینات ہیں سے دوران تفتیش امریکی اہلکار کی پولیس اہلکاروں کے ساتھ روا رکھی گئی بدسلوکی اور بد تمیزی کی ویڈیو کا منظر عام پر آنا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف عوام میں ریمنڈ کے خلاف نفرت کو بڑھانا اور ایک خاص حد تک قاتل کے لئے نرم گوشہ رکھنے والی مرکزی حکومت کو نیچا دکھانا ہی تھا جس میں خفیہ ہاتھ بڑی حد تک کامیاب بھی رہے شاید اسی لئے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو احساس ہوا کہ مخالفین ان سے کوئی غلطی کروانا چاہتے ہیں اور اسی احساس کے بعد ہی حکومت نے سینیٹر جان کیری کے ساتھ بات چیت میں بھی قدرے محتاط رویہ اپنایا اور جان کیری کو خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑا۔ امریکی سینیٹر تو اس امید کے ساتھ واپس پدھار گئے کہ معاملہ چند دن میں حل ہوجائے گا لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ بقول میاں نواز شریف مس ہینڈلنگ نے کیس آسانی کے حل کرنے کے چانس بھی مس کردیئے ہیں لہٰذا پاکستانی حکومت بھی ”بلا“ ایک بار ٹل جانے کے بعد قدرے شیر دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہی کرے گی جو سیاسی طور پر اس کے مفاد میں ہوگا خواہ اس کے لئے اسے کسی کو شاہ محمود قریشی بنانا پڑے یا پھر فوزیہ وہاب ۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 54852 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.