بلیک ہول کے کسی نامعلوم مقام پر
’ٹپ‘ کی آواز کے ساتھ پانی کی ایک بوند گری اور اپنی فطری رفتار کے ساتھ
سپاٹ بساط پر پھسلتی چلی گئی۔بلیک ہول کی فضا میں ہلکا سا تموج پیدا ہوا
اور پھر’ ھُو‘ کا عالم اپنی جگہ بحال ہوگیا۔وقت نے ایک قدم بڑھایا اور ایک
عالیشان عمارت میں داخل ہوگیا۔ یہاں ایک شخص تجربہ گاہ میں مصروفِ عمل
تھا۔ان دنوں اس کے اعصاب پر کھوئے ہوؤں کی جستجو کا خمار سوار تھا۔اس نے سر
اٹھا کر دیکھا، اسے لگا جیسے ٹھنڈے پانی کی کوئی بوند اس کے سلگتے ہوئے
بھیجے میں گری ہے۔اس نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر بلیک ہول کی لامحدود
گہرائیوں میں کھو گیا۔
دوپہر بعد وہ تاریخ کی کتابوں میں کھویا ہوا تھا۔ایک ایک دودو اور پھر ایک
کے بعد ایک اور پھر کبھی کبھار یگبارگی کئی ساری کتابیں نکالتا اور بے صبری
کے ساتھ ورق الٹنے پلٹنے لگتا۔اور جب بھوک اور تکان سے نڈھال ہوجاتا تو
ٹھنڈے پیروں پر زور دے کر اٹھتا اور لائبریری کی آرٹ گیلری میں پینٹ کی
جیبوں میں ہاٹھ ڈالے ٹہلنے لگتا۔
اور پھر ایک دن جب شام کا دھندلکا ہوچلا تھا اور سرد رات اپنے پاؤں پسار
رہی تھی وہ انٹرنیشنل لائبریری کے آرکائیو سیکشن میں بیٹھا مطالعہ میں
مصروف تھا ایک یخ بستہ رات کے سوا اس کے اردگرد اور کوئی نہیں تھا ایک
ٹھنڈی اکیلی اور خاموش رات اس نے آہستہ سے کتاب بند کی ، میز کا سہارا لے
کر کھڑا ہوا اور ایک کھوئے ہوئے نقش کے ہمزاد کی تخلیق کا عزم اپنے سینے
میں پختہ کیا۔
وقت نے ایک قدم اور بڑھایا اور اکیسویں صدی کے چوراہے پر آ کھڑا ہوا۔اس کی
عقابی نظر جانے انجانے چہروں کو عبور کرتے ہوئے گزر رہی تھی ہانپتے کانپتے
اور دوڑتے بھاگتے چہروں کو قطع کرتے کرتے بالآخر ایک چہرے پر مرکوز ہو گئی۔
یہ ایک نوجوان تھا،جسے کھوئے ہوؤں کی جستجو میں دیوانے سائنسدان نے برسوں
کی محنت سے کلوننگ کے ذریعہ ’نقشِ وجود‘ کا جامہ پہنایا تھا اور اسے ہمزاد
کا نام دیا تھا۔ دبلا پتلا ، خوش شکل ،کشادہ پیشانی اور بڑی بڑی آنکھوں
والا نوعمر لڑکا،لمبے لمبے قدم رکھتا ہوا اپنی راہ چلا جارہا تھا۔اجنبیوں
کی طرح چپ چاپ اپنی سوچوں میں غرق۔ ایک لمحے کو اسے خیال آیا کہ اس نے اس
کو کہیں دیکھا ہے۔شاید پچھلے کسی وقت میں ، اس نے صدیوں کے دو موٹے موٹے
ورق الٹے اور اگلے صفحہ کے پیراگراف کو بغور پڑھنے لگا ”تقریبا دو سو سال
پہلے ایک شخص اس ویرانے میں آیا تھا۔ وہ دوسرے لوگوں سے کچھ مختلف تھا۔ اس
کی سوچ بھی مختلف تھی اور اس نے زندگی کرنے کی جو خاص روش اپنائی تھی وہ
بھی بظاہر مقامی تہذیب کی نمائندگی کرنے کے باوجود کچھ کچھ بلکہ بہت کچھ
مختلف تھی۔ ایک تو یہی بات حیرت میں ڈالنے والی تھی کہ دوسرے تمام لوگوں کے
برعکس جب وہ پیدا ہوا تو وہ رویا نہیں دائی نے اس کو جھنجوڑا مگر وہ پھر
بھی نہیں رویا شاید اس لیے کہ اس کو زندگی بھر جو رونا تھا دائی نے ایک بار
پھر جھنجوڑا اور پھر اس خوف سے کہ لوگ بدشگونی نہ لیں اس کے گال پر ایک چپت
لگایا اور وہ چلا اٹھا عورتوں نے نیک شگون لیا ایک جواں سال خادمہ اپنے
دوپٹے کو اپنے سینے پر سنبھالتی ہوئی اس کے باپ کو خوشخبری دینے کے لیے دوڑ
پڑی اور بیٹے کی خوشخبری سنانے کے صلے میں سونے کی ایک انگوٹھی پاکر خوشی
سے پاگل ہوگئی حالانکہ اس کا رونا صرف رونا نہیں تھا بلکہ اس میں ایک طرح
کا احتجاج تھا دائی کے ہاتھوں اپنی اس بے عزتی پر چونکہ وہ اس وقت ایک چوزے
کے مانند تھا اور احتجاج کی صرف ایک ہی شکل تھی اور وہ یہ تھی کہ وہ روئے
وہ اس وقت کیا رویا کہ پھر زندگی بھر روتا ہی رہا یوں تو بہت سارے لوگ روتے
ہیں مگر اس کی خصوصیت یہ تھی کہ جب وہ روتا تھا تو اس کے ساتھ ایک زمانہ
روتا تھا درودیوار سے ہزارہا وحشتیں ٹپکتی تھیں اور بستیاں ویرانوں میں بدل
جاتی تھیں
یوں ہی گر روتا رہا غالب تو اے اہلِ جہاں!
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہوگئیں“
ایک خفیف سی طنزیہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔” ہوں! ہو نہ ہو یہ
اِسی شخص کا نقشِ ثانی ہے ؟ وہی چال اور وہی رنگ ڈھنگ“وہ زیر لب
بڑبڑایا۔ٹنوں بھاری کتاب اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر دھپ سے زمین پر گری اور
وہ کتاب اور غبار کو پھلانگتا ہوا اس کے تعاقب میں چل پڑا۔
ہمزاد نے جب وقت کی آنکھوں سے نکلے ہوئے تیر اپنی ناک کی سیدھ میں آتے ہوئے
دیکھے تو اس نے آہستہ آہستہ اٹھتے ہوئے قدموں کی رفتار تیز کردی۔کچھ دور
تیزتیز قدموں سے چلتا رہا اور پھر پوری طاقت سے دوڑنے لگا،کسی انجانی سی
سنسان سڑک پروقت کی تیز نظریں اب بھی اس کا تعاقب کررہی تھیں اور وہ سرپٹ
بھاگا جارہا تھا بدحواسی کے عالم میں سنسان سڑک کے آخری کنارے پر پتھر کے
مجسمے کی کرسی سے جا ٹکرایا۔ تازہ لہو کی ایک پھوار نے مجسمے کے قدموں کو
رنگ دیا اور ایک پتلی سی لکیر دیوار پر دو بالشت نیچے تک رینگ گئی کچھ دیر
بعد جب اس کے حواس بحال ہوئے تو اس کا داہنا ہاتھ بے اختیار اس کی پیشانی
پر گیا ۔پیشانی کی بائیں جانب بالوں کے پاس خون کی پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔
وہ خوف سے کانپنے لگا اس نے ادھر ادھر دیکھا اور مجسمے کی کرسی پر جمے ہوئے
خون کی لمبی لکیر دیکھ کر پھر سے بے ہوش ہوگیا۔
ابھی کوئی دس منٹ گزرے ہوں گے کہ اپنے کاندھے پر نرم وگداز ہاتھوں کا لمس
محسوس کرکے آنکھیں ملتا ہوا اٹھا ۔اور دزدیدہ نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھا
ذرا اوپر نگاہ اٹھائی تو خود کو پتھر کے مجسمے کے پاس پایا۔دونوں ہاتھوں سے
اپنے خدوخال کو ٹٹولہ اور پھر مجسمے کے پچاس ساٹھ سالہ بوڑھے چہرے کو غور
سے دیکھنے لگا ”یہ تو ہو بہو میرے جیسا ہے یہ اپنے بچپن میں بالکل میرے
جیسا رہا ہوگا یا پھر میں بڑھاپے میں اس کے جیسا دکھائی دینے لگوں گا
یقیناً اس کے چہرے پر میری شبیہ ہے پر یہ ہے کون اور یہاں کیوں کھڑا ہے کب
سے کھڑا ہے اور پھر یہ اکیلا کیوں ہے؟ اور ہم دونوں کے بیچ کیا رشتہ ہے؟“
اس کے ذہن میں سوالات کی بارش ہونے لگی۔اس نے اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں
تھام لیا درد سے اس کا سر پھٹا جارہا تھا۔
”یہ غالب ہیں انیسویں صدی کے مشہور شاعر،بہادر شاہ ظفر کے استاد اور تم ان
کے نقشِ ثانی ہو اس وقت تم اکیسویں صدی میں ہو “وقت مجسمے کے پیچھے سے گھوم
کر اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔
”کون غالب کیسا شاعر کون ظفر انیس ،اکیس کیا ہے یہ سب اور اور تم کون ہو
اور تم میرا تعاقب کیوں کر رہے ہو؟“
اس نے ہاتھ بڑھا کر مجسمے کی کرسی کی جڑ سے اپنی ٹوپی اٹھائی اور اسے سر پر
منڈھتے ہوئے کھڑا ہوا۔
”یہ دیکھوادھر داہنی طرف“
وقت نے کہرے کے پیچھے سے جھانکتی ہوئی قلعہ کی برجیوں کی طرف اشارہ کیا۔اس
کے لہجے میں ہمدردی اور اپنائیت تھی۔
”اور ادھر دیکھو بائیں طرف“
اس کا سر اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر مخالف سمت میں گھما دیا۔
اس بار اس کی نگاہیں جدید طرز کی بلند عمارتوں کے عقب سے بلند ہوتی ہوئی
دومیناروں پر پڑیں۔ اپنی مخروطی انگلیوں کی پشت سے آنکھوں کو زورزور سے
مسلا۔بالائی اور زیریں پلکوں کو جس حد تک پھیلا سکتا تھا پھیلا یااور بڑے
بڑے دیدے ادھر ادھرنچانچاکر ہونقوں کی طرح دیکھنے لگا۔
”کچھ یاد آرہا ہے؟“
”نہیں کچھ نہیں مجھے کچھ یاد نہیں آرہا مگر گزشتہ رات میں نے خواب میں ان
جیسی برجیاں ، میناریں دیکھی تھیں اور بڑے بڑے دروازے، ہاتھی گھوڑے، نیزے
،بھالے ،بندوقیں اور بڑی بڑی توپیں بھی دیکھی تھیں میں نے“
”اچھاتو بتاؤ کیا تھا تمہارا وہ خواب“ وقت کا اشتیاق دیدنی تھا۔
”ایک بہت بڑا سفید رنگ کا ہاتھی تھا۔“ اس نے قدرے ہچکچاہٹ کے بعد کہنا شروع
کیا۔
”اس کی پیٹھ پر کجاوا کسا ہواتھا، اس پر ریشمی پردے لٹک رہے تھے ، ان پردوں
میں سونے اور چاندی کے تاروں سے کڑھائی کی گئی تھی۔اس کجاوے کے اندرپچاس
ساٹھ سال کا ایک بوڑھا آدمی بیٹھا ہوا تھا ، اس کے سر پر تاج تھا جس میں
قیمتی ہیرے جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ہاتھی جھومتا ہوا چل رہا تھا۔ اس کے
اردگرد ہزاروں لوگوں کا قافلہ تھا، کچھ لوگ پیادہ پا تھے اور کچھ گھوڑوں پر
“
ہمزاد ابھی اپنا خواب پورا نہیں کرپایا تھا کہ ایک فرلانگ کے فاصلے پر کھڑے
ایک پرانے درخت نے اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔
”بولو،بولو رک کیوں گئے“ وقت نے لقمہ دیا۔
”ہاں!اور اس لشکر میں پردیسی ملک کے کچھ سپاہی بھی تھے جو لال رنگ کی وردی
پہنے ہوئے تھے میں دور کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا کہ ہاتھی او ر تمام لشکر
ایک بڑے سے محراب نما دروازے میں داخل ہوگئے۔“
ہمزاد کہتے کہتے رک گیا۔
”آگے کیا ہوا؟“
”پھر مجھے ایک خوفناک آواز سنائی دی اور میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا میں نے
آنکھیں کھولیں اور خود کو نرم بستر پر لیٹا ہوا پایا میں نے ادھر ادھر
دیکھا، میں اکیلا تھا، کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔میں دبے پاؤں اٹھا اور اس
عمارت کے عقب میں ایک پتلی سی سنسان گلی میں کود کر بھاگ نکلا“
”مگر آپ کون ہیں؟“ ہمزاد نے متجسس نگاہوں سے دیکھا۔
”شاہد میں شاہد ہوں تمام اگلے پچھلوں کا“
”اگلے پچھلوں کا شاہد تو تم خضر ہو“
نہیں!میں خضر کا بھی شاہد ہوں عینی شاہد!“
”ا س کا مطلب ہے کہ تم نے ان کو دیکھا ہے“
”ہاں“ اس نے عرش کے دوسرے کنارے پر خیالی منظر کی بے رنگ تصویروں کو گھورتے
ہوئے کہا۔
ہمزاد اس کی طرف بے تابی کے ساتھ لپکا اور اس سے پہلے کہ وہ قدم بوسی کے
لیے جھکتا اس نے اپنا اگلا قدم اٹھایا اور پچھلے قدم سے دو فٹ پیچھے رکھ
لیا۔ ہمزاد کی جبینِ نیاز میں ہزاروں سجدے تڑپ اٹھے۔ ہمزاد ہوکر اس کا رویہ
بالکل جدا تھا جب وہ غالب ہوکر اس دنیا میں آیا تھا تو اس نے صاف کہا تھا
کہ خضر کی بزرگی اپنی جگہ مگر ہم انہیں راہنما بھی کریں یہ لازم تو نہیں۔
”میں وقت ہوں تمام اگلے پچھلوں کا گواہ“
”وقت! تو پھر آپ میرے بارے میں بھی بہت کچھ جانتے ہوں گے“
وقت نے کچھ جواب نہ دیا ، ہمزاد کا ہاتھ پکڑا اور ایک طرف کو چل دیا۔
”یہ تو وہی جگہ ہے جہاں کہاروں نے پالکی روک کر پانی پیا تھا ۔“
بابا عطار کے ٹیلے پر آم کے پرانے درخت کو دیکھ کر ہمزاد کے ذہن کے تمام
خلئے ایک ایک کر کے روشن ہونے لگے۔تو کیا میں پہلے یہاں اس دنیا میں آچکا
ہوں۔
غالب کی حویلی، لال قلعہ ،قطب مینار، جامع مسجد،ہمایوں کا مقبرہ،آگرہ کا
تاج محل،رام پور اور کلکتہ کی یادگار عمارتیں میوزیم اور لائبریریاں قدیم
تہذیب وتمد ن کے باقیات ،شاہوں اور مہاراجاؤں کی تصویریں، قرآن،تورات ،
انجیل اور گیتا کے قدیم نسخے، رومی،حافظ،سعدی، معری،شیفتہ ، میر اور غالبِ
خستہ کا بوسیدہ اور خستہ سا دیوان وقت نے تمام اہم مقامات کی سیر کروائی
،انیسویں صدی کے تمام نوادرات کا مشاہدہ کروایا اور پھر آخر میں خود اس کے
مزار کے سامنے لاکر کھڑا کردیا۔اب وہ پوری صورت حال سے آگاہ ہوچکا تھا۔یہ
بڑا عجیب وغریب منظر تھا کہ بیس سالہ نوجوان خود اپنی ڈیڑھ سو سال پرانی
قبر کے سامنے کھڑا ہوا تھا۔
اس کا جی چاہ رہا تھا کہ ابھی اسی لمحے اس کا وجود بکھر جائے اور وہ بھی
اسی میں سما جائے یا اس کے تکیہ سے سر دے دے مارے اور زور زور سے چلائے اس
کے ذہن میں آندھی وطوفان امڈے پڑ رہے تھے۔ بادلوں کی گھن گرج اور تیز ہوا
کی سرسراہٹ سے کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔اس کے سارے جسم پر
رعشہ طاری تھا اور آنکھوں سے دجلہ وفرات بہہ رہے تھے۔اس نے اپنی قبا کے ایک
چاک کو ایک طرف سرکایا اور دوزانوں ہوکر بیٹھ گیا۔عین اسی وقت ایک پچیس
سالہ عورت اپنے ہاتھوں میں شمع لیے نمودار ہوئی اس کے پیچھے نوعمر لڑکے
لڑکیاں تھیں،بوڑھے مرد اور عورتیں، سب کے سب مزار کے احاطہ میں داخل
ہوئے۔عورت نے اپنے بائیں پیر کے سہارے پہلے داہنا سینڈل اتارا اور پھر
داہنے پیر کے سہارے سے دوسرا سینڈل اتارا، باقی تمام افراد نے اس کی پیروی
کی۔دھول میں اٹے ہوئے لال پتھر وں پر آہستہ آہستہ،نزاکت اور احترام کے ساتھ
قدم بڑھاتے ہوئے مزار کے پاس آئی اور اس کے سرہانے دونوں بازؤں کے پاس
شمعیں رکھ دیں، پھر اسی نزاکت سے دو قدم پیچھے ہٹی اور باادب کھڑی ہوگئی ،
اس کے تمام ساتھیوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ہمزاد ان کے چہروں کو ٹک ٹک دیکھے
جارہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ آج کی دنیا میں شاعروں کا مستقبل زیادہ روشن
ہے ۔میں نے اپنی شاعری کو جہاں چھوڑا تھا اب مجھے وہیں سے ابتدا کرنی چاہئے
اور جوک لام صرف اس لیے قلم زد کردیا تھا کہ وہ اس وقت کی ذہنی سطح سے بلند
تھا آج اس کو بازیاب کرنا ہوگا۔بیس پچیس لوگوں کا یہ قافلہ کچھ دیر
سرجھکائے کھڑا رہا پھر کوئی آہٹ کئے بنا دبے پاؤں احاطہ سے باہر نکل گیا۔
آج ۷۲ دسمبر تھی اور مرزا غالب کا یوم پیدائش تھا۔سرکاری اور غیر سرکاری
سطح پر دنیا کے کئی ممالک میں رنگا رنگ تقریبات کا اہتمام کیا جارہا تھا،
تعلیم گاہوں،اکادمیوں اور عام شاہراہوں پر بھیڑ امنڈ آئی تھی۔ غالب کے صد
انداز پر ہزارہا انداز سے روشنی ڈالی جارہی تھی۔وقت نے ہمزاد کا ہاتھ پکڑا
اور ایک نیم تاریک کمرے میں لاکر بٹھا دیا۔کمرہ جدید طرز کے فرنیچر سے سجا
ہوا تھا، مغربی دیوار سے کتابوں سے بھری ہوئی لکڑی کی تین الماریاں
تھیں۔عقب کی کھڑکی سے سمندر کی طرف سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا آرہی تھی، کمرے کے
ایک کونے میں ٹی وی رکھا ہوا تھا، یوم غالب کی وجہ سے تمام نیوز چینلز غالب
سے متعلق دنیا بھر میں ہونے والے پروگراموں کو خصوصی کوریج کے ساتھ پیش
کررہے تھے۔کہیںسیمیناروں کا انعقاد کیا جارہا تھا ، کہیں پر ڈرامے پیش کئے
جارہے تھے اور کہیں غالب کا منتخب کلام نئی دھنوں پر گایا جارہا تھا۔
ہندوستان سے لے کر امریکہ،کنیڈا،یورپ اور سعودیہ تک دنیا بھر میں قائم اردو
کی نئی بستیوں میں الگ الگ انداز سے کلام غالب کا جائزہ لیا جارہا تھا۔
ہمزاد اپنے وجود کو اٹھائے انیسویں صدی کے وسط میں پہونچ چکا
تھا۔حیرت،استعجاب اور مسرت کے ملے جلے اثرات کی لہریں اس کے سراپا پر اس
طرح چڑھ اتر رہی تھیں جیسے ساحل کے سینے پرسرکش موجیں چڑھتی اترتی ہیں۔
وقت نے ایک بٹن دبایا اور دفعتا مدہم مدہم سریلی آواز اس کی سماعتوں سے
ٹکرائی۔ہمزاد خیالوں کی دنیا سے باہر آیا ،اس نے دیکھا کہ ایک سترہ اٹھارہ
سال کی دوشیزہ خوش رنگ آواز میں گارہی ہے
”آہ کو چاہئے ایک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
دام ہر موج میں ہے حلقہ صدکامِ نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
عاشقی صبر طلب، اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک“
شعر کے آخر میں’تک‘ کی آواز پر وہ کچھ اس طرح لے توڑتی کہ ہمزاد اپنی جگہ
ہل کر رہ جاتا۔
وہ چست کپڑے پہنے ہوئے تھی،اس کے جسم کا ہر عضو نمایاں ہورہا تھا جو حصے
خود بخود نمایاں نہیں ہوسکتے تھے ان کو وہ ادھر ادھر گھوم پھر کر اور ہل جل
کر نمایاں کررہی تھی۔
”غمِ ہستی کا‘ اسد کس سے ہو جز مرگ ‘علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک“
جب اس نے آخری ’تک‘ پر ایک خاص انداز سے کمر اور سر کو ایک ساتھ چھٹکا دے
کر چڑھی ہوئی آواز کی تان توڑی تو ہمزاد بے اختیار اچھل پڑا اور ایک بار
پھر سے اپنے پہلے دور میں پہونچ گیا۔وہ بدحواسی کے عالم میں دروازے کی طرف
لپکا، مگر وہاں نہ کوئی فقیر تھا جو چمٹا لئے دردر مانگتا پھررہا ہو اور نہ
ہی سامنے والی منزل میں کوئی طوائف جو پیروں میں گھنگرو باندھے گنکنا رہی
ہو۔اسے اس حماقت پر ہنسی آئی ، دروازہ بند کیا اورالٹے قدم چلتا ہوا پھر
صوفے پر گر گیا۔
”انیسویں صدی میں اگر گلی کے فقیر اور کوٹھے کی طوائف نے میرے شعر کو زندہ
رکھا تو آج اکیسویں صدی میں یہ نازنیں بہت کافی ہے جو مجھے اگلے دوسو سال
تک زندہ رکھ سکے گی“ اس نے دل میں سوچا اور مشروب کا گلاس اپنے ہونٹوں سے
لگالیا۔
اپنی پچھلی زندگی کا یہ شہر ہ دیکھ کر ہمزاد کویقین ہوچلا تھا کہ یہ صحیح
وقت ہے کہ اسے صحیح طور پر بلکہ مکمل طور پر سمجھا جا سکے گا۔جدید فکر اور
ٹیکنالوجی نے لوگوں کو اتنا روشن دماغ بنا دیا ہے کہ اب وہ ہر سطح کی چیز
قبول کرنے کے اہل ہوگئے ہیں۔
ہمزاد چادر اوڑھ کر لیٹ گیا اور فکر شعر میں سر کھپانے لگا، صبح سوکر اٹھا
تواس کے کمربند میں آٹھ دس گرہیں لگی ہوئی تھیں۔
”تم اکیسویں صدی کے ہمزاد ہو انیسویں صدی کے غالب نہیں اکیسویں صدی اور یہ
گرہیں ہی ہی ہی“
اسے اپنے آپ پر ہنسی آنے لگی۔
وہ ایک ایک گرہ کھولتا جاتا اورایک ایک شعرٹائپ کرواتا جاتا، جب پوری غزل
ٹائپ ہوگئی تو اس نے بہت خوبصورت انداز میں ڈیزائن کروایا۔کل جس دوشیزہ کو
اس نے اپنی غزل گاتے ہوئے سنا تھا اس کی ایک پری پیکر تصویر انٹر نیٹ سے
حاصل کرکے بیک گراؤنڈ میں اس طرح لگوائی جس طرح بچے اپنی فوٹو کے بیک
گراؤنڈ میں تاج محل کی تصویر لگواتے ہیں۔غزل پر غزل کچھ اس طرح کا سماں پیش
کررہی تھی جیسے آسمان سے پریاں قطاراندر قطار اتر رہی ہوں۔
اس کام سے فارغ ہوکر اس نے دنیا بھرمیں جہاں جہاں اردو کے مداح اور قارئیں
موجود تھے ، جتنی سائٹس اور رسائل دنیا بھر سے نکل رہے تھے سب کو میل کے
ذریعہ بھجوادی۔اور اگلے لمحے پیغامات آنے شروع ہوگئے۔
”یہ اکیسویں صدی میں کون دوسرا غالب پیدا ہوگیا“
”واہ،واہ، کیا خوب رنگ جمایا ہے“
”غالب کی زبان میں یہ کون غزل سرا ہے“
”کوثروتسنیم سے دھلی ہوئی زبان ہے۔یہ تو کسی استاد ہی کا کلام ہوسکتا ہے“
اس طرح کے سینکڑوں خوبصورت پیغامات موصول ہوئے۔رسائل اور اخبارات جیسے نئی
دنیاپرانی دنیاپہلی دنیادوسری تیسری اور چوتھی دنیااور اللہ جانے کون کونسی
دنیاکے مدیروں نے بھی حوصلہ افزا جوابات ارسال کئے۔ ہمزاد کا سینہ چوڑا
ہوگیا اور وہ ایک بار پھر فکر شعر میں کھوگیا۔
اشعار،غزلیں،قطعات اور قصائد ہمزاد کی کارگہہ فکر میں ڈھل ڈھل کر نکلتے رہے
اور اہل سخن سے دادپاتے رہے۔ ہمزاد جیسے جیسے دن اور رات کے سلسلے کو قطع
کرتا جارہا تھا اس کی فکر میں اسی طرح گہرائی اور معنویت اپنا رنگ وروپ
نکھار رہی تھی۔ہمزاد شعری نشستوں اورمشاعروں کی روح بن گیا تھا۔
ہر سال کی طرح امسال بھی لال قلعہ کے دیوان خاص میں ایک عالمی مشاعرہ کا
انعقاد ہوناطے پایا، ملک وبیرونِ ملک کے تمام مشہور ومعروف شعراءکو بذریعہ
ڈاک اور بذریعہ ای میل دعوت نامہ ارسال کردیا گیا تھا۔یہ مشاعرہ چونکہ غالب
کی دوسو پچاسویں سالگرہ کے موقع سے منعقد کیا جارہا تھاخاص اس لیے بھی
شعراءاور ناظرین کے دلوں میں اس کی قدر تھی۔ہمزاد کو ’غالب کا نقشِ ثانی‘
کا خطاب عطا کیا جا چکاتھا، اس لیے ہمزاد خود بھی اس مشاعرہ کو لے کر پرجوش
تھا اور دیگر تمام اہل علم وقلم بھی ہمزاد کی شرکت کو باعث خیر تصور کررہے
تھے۔
سورج اور چاند کروڑوں برس کی عمر کو پہونچ چکے تھے،اور ابتدائے آفرینش سے
یکساں انداز کی مصروفیت اور لگے بندھے اصولوں کی موٹی موٹی زنجیر یں ان کے
پیروں میں پڑی ہوئی تھیں۔بساطِ کائنات کا ہر زرہ اپنے اپنے مخصوص چکر میں
گرفتارتھا۔سورج اور چاند روز کی طرح غروب اور طلوع ہورہے تھے مگرہمزاد کو
جس دن سے لال قلعہ کے مشاعرہ میں صدرِ مشاعرہ کی حیثیت سے دعوت نامہ ملا
تھا وہ اپنے اندر بڑی تبدیلیاں محسوس کررہا تھا ۔اس کے اپنے مکان کی چھت
اور ا س کے اپنے سر کی اوٹ لے کر گزرتے ہوئے سورج اور چاند کو اس نے بارہا
دیکھا تھامگر جو خاص بات اور نیا پن ان دونوں میں اس وقت محسوس ہورہاتھا وہ
ہمزاد نے آج سے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔اسے لگتا جیسے یہ سورج اور
چاند عربوں لوگوں کی بھیڑ میں خاص اس کو اہمیت دیتے ہیں اور ہردن اور ہررات
اس کے گھر کی چھت سے گزرتے وقت اسے سلام کرتے ہیں۔ہمزاد ابھی یہ سوچ ہی
رہاتھا کہ چودھویں کا چاند اپنا نصف دائرہ قطع کرتا ہوا اس کے سر پرآپہونچا
اور ہمزاد کا نکلتا ہوا قدبادشاہ کے سلام کا جواب دینے کے انداز میں کمان
ہوگیا۔
آج ۷۲ دسمبر تھی، لال قلعہ غالب کی دوسو پچاسویں سالگرہ کی تقریب کے جشن
میں بقعہ نور بنا ہوا تھا۔دیوان خاص سامعین سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا، تمام
مہمانانِ خصوصی اور شعرائے کرام تشریف لاچکے تھے۔ہمزاد نے صدرِ مشاعرہ کی
حیثیت سے اپنی مرکزی نشست سنبھال لی تھی۔تلاوت ِ قرآن اور حمدونعت کے بعد
اناؤنسر نے شعراءکو اپنے مخصوص انداز میں یکے بعد دیگرے بلانا شروع
کیا۔سامعین اتنے پرجوش تھے کہ وہ رات بھر سننے کے موڈ میں دکھائی دے رہے
تھے۔ادھیڑعمر کا اناؤنسر اپنے سابقہ تجربات اور سامعین کی نفسیات کی روشنی
میں ایسے پینترے بدل بدل کر مشاعرہ کی کارروائی کو آگے بڑھا رہا تھا کہ
سامعین کا جوش وخروش لمحہ بہ لمحہ اس طرح بڑھ رہا تھا جس طرح بارش کے دنوں
میں سیلاب کا پانی چڑھتا ہے اور چڑھتے چڑھتے چھتوں پر چڑھ جاتا ہے۔ وہ ایک
بار کسی شاعر کو آواز دیتا اور دوسری بار کسی شاعرہ کو، ایک بار ایسے
شاعریا شاعرہ کو بلاتا جو فکر وآگہی اور حکمت وموعظت کے موتی رولنے میں
لاثانی سمجھی جاتی تھی تو دوسری بار کسی ایسے مزاحیہ شاعر کو کہ سامعین اس
کی شکل دیکھ کر ہی قہقہے لگانے لگتے۔ہمزاد ماشاءاللہ، بہت خوب بہت خوب ،
کمال کردیا،واہ بھئی واہ اور مکرر ارشادکہہ کر داد دے رہاتھا۔
ناظم مشاعرہ نے ہمزاد کو ایسے وقت کے لیے چھوڑ رکھا تھا جب گرمیِ بزم اپنی
انتہا کو پہونچ جائے ۔اور بالآخروہ گھڑی آہی گئی جس کا اناؤنسر کو انتظار
تھا، بلکہ تمام شعراءاور سامعین کو انتظار تھا۔اس نے بڑی بے تابی سے پہلو
بدلا،غالب کے دیوان سے منتخب اشعار کی مدد سے ایک سماں باندھا۔اس نے اپنی
یادداشت پر زورڈالا اور جتنے خوبصورت اور حسین الفاظ اس کی یادداشت میں
محفوظ ہوسکتے تھے وہ سب ہمزاد کی تعریف پر صرف کردیئے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ
زمین وآسمان کی قلابے ملانا بس وہی ۔ہمزاد کو ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے
باہر آسمان سے ہن برس رہا ہے۔
”اب میں بڑے احترام کے ساتھ دعوت دے رہا ہوںحضرتِ ہمزاد کوجو منفرد لب
ولہجے کے شاعر ہیں انہوں نے اپنی الگ شناخت قائم کی ہےاستادغالب کے خاص
مفکرانہ اورفلسفیانہ انداز اور اسلوب کو انہوں نے اپنی شاعری میںبہت سلیقے
اور ہنرمندی کے ساتھ برتا ہے اور اسی لیے انہیں غالب کے نقشِ ثانی کا خطاب
دبئی میں منعقد عالمی مشاعرہ میں دیا گیا تھا۔ہم سب کے لئے آنے والی نسلوں
کے لیے اردو زبان کے لیے بلکہ ساری دنیا کے لیے بہت غنیمت ہے ان کا وجوداور
قیمتی سرمایہ ہیں ان کی تخلیقی کاوشیں
غزل کی آبرو،اردو کی شان،ہر دل عزیز ، سب کی پسند ’غالب کے نقشِ ثانی‘صدرِ
مشاعرہ جناب ہمزادصاحب آئیں تشریف لائیں اور سامعین کو اپنے خوبصورت کلام
سے نوازیں“
اناؤنسر کی آواز تالیوں کی گڑگڑاہٹ میں دب کر رہ گئی ،اس نے صدرِ مشاعرہ کی
مرکزی نشست کی طرف مڑ کر دیکھامگرہمزاد تو کبھی کاڈائس پر پہونچ چکا تھا۔
”گھر ہمارا، جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا“
ابھی تالیوں کی گڑگڑاہٹ کی بازگشت کی صوتی لہریں دیوانِ خاص کی فضامیں
ارتعاش پیدا کرہی رہی تھیں کہ دفعتا ایک منحنی سریلی آوازہمزاد کے حلقوم سے
نکلی اور اس سے پہلے کہ وہ شعر مکمل کرپاتا دیوان خاص ایک بار پھر تالیوں
کی آواز سے گونج اٹھا۔
”بحر گربحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا“
”تڑاتڑتڑاتڑ، تڑاتڑواہ واہ واہ کیا بات ہے گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو “
سامعین جیسے ہوش کھورہے تھے۔
”آداب آدابنوازشنوازش“ہمزاد نے اتنی مسرتیں اپنی زندگی میں کبھی بھی محسوس
نہیں کی تھیں۔
”تنگیِ دل کا گلہ کیا، یہ وہ کافر دل ہے
کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا“
”تڑاتڑتڑاتڑاتڑواہ واہ واہکیابات ہےتنگ نہ ہوتاتو پریشاں ہوتا “
ہمزاد اب اپنی جگہ لینا چاہتا تھا مگر سامعین کی طرف سے ایک تازہ غزل کے
شدید اصرار نے اسے ایسا کرنے سے باز رکھا۔
ایک تازہ غزل آپ حضرات کی محبتوں اور عنایتوں کے حوالے کرتاہوں۔ہمزاد نے
گھوم کر پھر مائک دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔جیسے یہ اس کی نجی ملکیت ہو
اور اسے خوف ہو کہ اسے کوئی چھین لے جائے گا۔
”تپش سے میریِ وقفِ کش مکش‘ ہر تارِ بستر ہے
مِراسررنجِ بالیں ہےِ مِراتن بارِ بستر ہے“
واہ واہ اورتالیوں کی دبی دبی گڑگڑاہٹ ہلکے سر کی طرح اٹھی اور ایک آخری
ہچکی لے کر دم توڑ گئی۔ہمزاد نے نظر اٹھائی اور اگلا شعر مائکروفون کے توسط
سے سامعین کی سماعتوں کے حوالے کیا۔
”سرشکِ سربہ صحرادادہ، نورالعینِ دامن ہے
دلِ بے دست وپا اُفتادہ برخوردارِ بستر ہے“
ہمزاد نے محسوس کیا کہ سامعین کے جوش پر اوس گررہی ہے۔مگر اس نے کلام سنانا
جاری رکھا
”خوشااقبالِ رنجوری! عیادت کو تم آئے ہو
فروغِ شمعِ بالیں، طالعِ بیدارِ بستر ہے“
یہ شعر بھی پچھلے شعر کی طرح میڈِن اوَر[Maiden Over] کی طرح سروں سے گزر
گیا۔
ہمزاد نے پیچھے اسٹیج پر بیٹھے اساتذہ ادب وفن کی طرف مڑکر دیکھاوہ آپس میں
گھسر پسر کررہے تھے
”توجہ چاہتا ہوںجناب“
”ارشادارشاد “سرگوشیاں کرنے والے سٹپٹا کر رہ گے جیسے ان کی چوری پکڑی گئی
ہو۔وہ سنبھل کر بیٹھ گئے اور خجالت کے احساس سے خد وخال کا بگڑا ہوا نقشہ
’ارشادارشاد‘کے غازہ میں چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگے۔
ہمزاد نے رخ موڑا اور سامعین کے چہروں پر سیاہ حلقوں میں جھانکا ، یہاں ھُو
کا عالم تھا ،ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، وہ آپس میں کانا پھوسی
کررہے تھے۔ہمزاد کے رخسار،پیشانی اور گردن کی دونوں جانب کے مسامات سے
شبنمی قطرے پھوٹ نکلے۔اس نے پہلو بدلا اور عرقِ پریشانی کے تین چار قطرے
سینے کے بالوں کی لکیر کے سہارے ناف تک اتر آئے اور ناف کے گڑھے کو بھر
دیا۔
”بہ طوفاں گاہِ جوشِ اضطرابِ شامِ تنہائی“
”مصرع اٹھائیں جناب“ ہمزاد اساتذہ سے مخاطب تھا۔اس کے لہجے میں یاسیت کا
بانکپن نمایاں ہورہا تھا۔
”بہت بھاری ہے میاں کرین منگوانی پڑے گی“
دیوانِ خاص کے ایک نیم روشن کونے سے بھدی سی آواز ابھری اور ایک کبڑا جسم
تاریک حصہ کی طرف رینگ گیا۔
ہمزادکی آنکھوںسے وحشت ٹپکنے لگی اور مسرتوں سے بھرے جذبات کی گرم بھٹی دم
کے دم میں سرد پڑگئی۔
”قبر میں سوتے رہنے میں جو عزت ہے وہ قبر سے باہر آنے میں نہیں“
اس نے دل میں سوچا اور اس سے پہلے کہ یہ الفاظ آہ بن کر لبوں تک آتے وہ
سوکھے پیڑ کی طرح پشت کے بل اسٹیج پر گرپڑا۔ |