عمران خان نے ابی نندن کی رہائی کا اعلان کرتے ہوئے دو
اہم باتیں کی تھیں پہلی یہ کہ انڈیا کو پاکستان کے بارے میں مس کیلکولیشنز
نہیں کرنی چاہئیں دوسری یہ کہ اگر حالات اس نہج پر گئے تو ہم بہادر شاہ ظفر
نہیں بلکہ ٹیپو سلطان بنیں گے یعنی زندگی پر موت کو ترجیح دینگے مگر بھارت
یاد رکھے کہ ہم اپنے اس فوجی جوان سپاہی مقبول حسین کو ہر گز نہیں بولے جسے
ہندوستان نے 1965 کی جنگ میں گرفتار کیا۔ لیکن ویانا کنونشن کی خلاف ورزی
کرتے ہوئے پاکستان کو خبر تک نہ دی۔ بلکہ شدید تشدد کیااس کی زبان بھی کاٹ
دی۔ پھر 45 سال بعد نیم مردہ حالت میں لاوارثوں کی طرح چھوڑ دیااور اب
ہندوستان اپنے دہشتگرد کلبھوشن اور ابھے نندن کو بھی پاکستانی قید میں ایک
نظر دیکھ لے کیونکہ ہم انسانیت دشمن نہیں ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر میں معصوم
انسانوں کا قاتل مودی اور اسکے پیروکار بلخصوص ہندوستان کی نئی جنریشن نے
جنگ کو صرف بالی وڈ کی فلموں میں دیکھاہے جو ہدا یت کار کے کہنے پر شروع
اور پھر ختم ہوجاتی ہے جبکہ ہم نے اور ہماری جنریشن نے تو اپنی آنکھوں سے
پاک افواج کو ان دیکھے دشمن سے لڑتے دیکھا اور کئی سالوں سے ہم حالت جنگ
میں ہیں اس جنگ میں ہزاروں فوجی اور سولین جام شہادت نوش کرجکے اور کتنے
لوگ اپنے زخموں کے نشانوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اب جبکہ انڈین جنریشن
نے اصل بم گولے چلتے دیکھے تو پتہ چلا جنگ کیا چیز ہے جنگ صرف اور صرف
تباہی کی علامت کے سوا کچھ نہیں دونوں طرف کی تباہی جانوں اور مال ہر چیز
تباہ ہو جاتی ہے اور ملک برسوں پیچھے چلے جاتے ہیں قوم تباہ حال ہوجاتی ہے
نسلیں محتاج ہوجاتی ہیں ہندوستان سمیت جنگ کے شوقین اگر جنگ کرنا چاہتے ہیں
تو اپنے ملک کے اندر ایسی جنگ لڑیں جو کرپشن کے خلاف ہو غربت کے خلاف ہو
عدل و انصاف کی فراہمی کے لیے ہو تعلیم اور صحت کے میدان میں بہتری کے لیے
لڑی جائے اور بہت سے ایسے میدان ہیں جن میں ملک اور قوم کی فلاح کی خاطر
جنگ لڑی جاسکتی ہے اور ایسی جنگیں تمام ممالک کے لیے سود مند ثابت ہوسکتی
ہیں اب وہ وقت نہیں ہے کہ جنگیں تلواروں اور بندوقوں کی طاقت سے لڑی جائے
اب میزائل ٹیکنالوجی کا دور ہے وڈیو گیم اسٹائل میں جنگ لڑی جاتی ہے کمانڈ
اینڈ کنٹرول کے بٹنوں کے ساتھ گھنٹوں میں ملک کے شہر در شہر اور اسکے رہنے
والے لوگ ملیا میٹ ہوجاتے ہیں تمام ممالک کو اس بات کا شدت سے احساس بھی ہے
لیکن کچھ شدت پسند اور جنونی بلکہ سیدھے لفظوں میں پاگل اور فاطر العقل
عناصرہوتے ہیں جو ملک اور قوم کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں پھر وہ
بچی کچھی نسل کے ذہنوں میں ساری زندگی ایک ناسور کی طرح رستا رہتا ہے اب
بھی وقت ہے کہ تمام اقوام عالم کو مل کر اس معاملے پر سنجیدگی سے سوچنا
ہوگااور ہتھیاروں کی تجارت سے ہٹ کرزریعہ آمدن کے دوسرے زرائع تلاش کرنے
ہونگے کیونکہ ہتھیار ہمیشہ دشمن ہوتے ہیں رکھنے والوں کے بھی چلانے والوں
کے بھی اور بیچنے والوں کے بھی اس لیے جنگ سے نفرت کرتے ہوئے ہمیں امن اور
پیار سے رہنا ہوگا جبکہ چند میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈیا نے پاکستان پر
میزئیل سٹرائیکس کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا جس کا حوالہ عمران خان نے اپنی
تقریر میں بھی دیا اور بھارت نے حملے کے لیے پاکستان میں کل 9 جگہوں کا
انتخاب کیا گیا تھا جن میں سے شائد ایک یا دو جگہ پر سٹرائیک کرنی تھیں
پاکستانی ائر فورس کی تازہ پرفارمنس کے بعد جہازوں کا حملہ انڈین ائر فورس
نے ناممکن قرار دے دیا تھا اس خفیہ اجلاس کی تمام تر تفصیلات پاکستان کے
حساس اداروں نے اسی وقت حاصل کر لیں تھیں جس کے بعد پاکستان نے بھی انڈیا
کے اندر 12 جگہوں کو ٹارگٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا یہ کرنے کے بعد ایک " بڑے
ملک " کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا گیا کہ پاکستان کسی صورت جوابی حملہ
کرنے سے نہیں رکے گا اور ساتھ میں ان 12 جگہوں کی نشاندہی بھی کر دی گئی جن
کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ " بڑے ملک" نے فوری طور پر انڈیا کو
تمام صورت حال سے آگاہ کیا اور یہ بھی کہ پاکستان لازم جواب دے گا جس کے
بعد دونوں ممالک کے پاس سوائے نیوکلئر جنگ کے اور کوئی آپشن نہیں بچے گااور
اس ممکنہ نیوکلیئر جنگ سے آدھی سے زیادہ دنیا نے متاثر ہونا تھا جس قسم کے
ایٹمی ہتھیار دونوں ممالک کے پاس ہیں تب انڈیا کو اپنا حملہ روکنا پڑاورنہ
نقصان دونوں ممالک کی عوام کا ہوتا اور مودی جیسے سیاستدان ملک سے ایسے
غائب ہوجاتے جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں اب بھارتی عوام کو بھی
سمجھنا ہوگا کہ غربت کی دلدل میں دھکیلنے والے انکے مکار حکمران انہیں اب
موت کی وادی میں بھی دھکیلنا چا رہے ہیں پاکستان دوستی کا ہاتھ بڑھا کر
دونوں ملکوں سے غربت کے اندھیرے ختم کرنا چاہتا ہے اسی لیے تو وزیراعظم
عمران خان نے متعدد بار کہا کہ بھارت اگر دونوں ممالک کی خوشحالی کے لیے
ایک قدم آگے بڑھاتا ہے تو ہم دو قدم آگے بڑھیں گے مگر بدقسمتی سے بدامنی کے
زریعے الیکشن جیتنے کے خواہش مندمکار مودی جیسے نام نہاد سیاسی رہنما بھارت
میں امن نہیں چاہتے مگر بھارتی عوام نے پاکستان کی طرف سے جذبہ خیر سگالی
تحت نندن کی رہائی پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور امید ہے کہ اب بھارتی بھی
پاکستان کے ساتھ قدم ملا کر علاقے میں ترقی اور خوشحالی کا نیا باب رقم
کرینگے۔ |