ہمارے ہاں عوام میں سیاست کا
مطلب دھوکہ اور فراڈ لیا جاتا ہے جبکہ سیاسی پارٹیاں اس کے نام کی وجہ سے
اس دھوکے اور فریب کو عبادت کا درجہ دیتی ہیں۔سیاسی پارٹیاں اپنے حریفوں کو
نیچا دکھانے اور عوام میں ان کا امیج خراب کرنے کے لئے ان پر سیاسی الزامات
بھی لگاتی ہیں اور سیاسی بیان بازی بھی ہوتی ہے سیاسی مقدمات بھی بنتے ہیں
اور سیاسی قتل بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح سیاست گھریلو مسائل میں بھی ہوتی ہے
تو سیاست گلیوں اور بازاروں میں بھی ہوتی ہے۔ ہر شعبہ ہائے زندگی بری طرح
سیاست کی جکڑ میں ہے۔ یہ سیاست جب چاہتی ہے کسی اچھے خاصے شریف آدمی کو
دہشت گرد تو کبھی کسی دہشت گرد کو مکے کا حاجی قرار دے دیتی ہے۔ اس کے
باوجود سیاست کی اہمیت سے فرار بھی ممکن نہیں ہے۔عام آدمی جو لاعلمی میں
سیاست کر رہا ہوتا ہے وہ عام آدمی ہی رہتا ہے لیکن کچھ خاص لوگ جو جانتے
ہوئے سیاست کرتے ہیں وہ سیاستدان کہلاتے ہیں۔
سیاستدانوں کے دو چہرے ہوتے ہیں ایک چھپانے کا ایک دکھانے کا جیسے ہاتھی کے
دانت۔ اکثر لوگ سیاستدانوں کے ان دو چہروں سے دھوکا کھا جاتے ہیں بات کی
نوعیت کو سمجھے بغیر وہ صرف شکل دیکھ کر اعتماد کر لیتے ہیں اور یہ نہیں
سمجھ پاتے کہ سیاستدان صاحب جس وقت یہ بات کررہے تھے وہ کون سا چہرہ لیے
ہوئے تھے۔چھپانے والا یا دکھانے والا۔ بات صرف سیاستدانوں تک محدود ہوتی تو
کوئی بات بھی تھی یہاں تو نام نہاد علامہ صاحبان اور مفتیان اتنے ہیں کہ
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کی بات کو سچ سمجھا جائے اور کس کی بات کو
جھوٹ۔ایسے ہی نام نہاد علامے سامنے بیٹھے ہوئے سادہ لوح اور ماننے والے
لوگوں کے سامنے بہت جذباتی اور طوفانی تقریر فرما رہے ہوتے ہیں لیکن ذرہ
مختلف نکتہ نظر رکھنے والے کے سامنے اسی بات کو اتنی فنکاری سے سمیٹتے ہیں
کہ جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔
وطن عزیز میں یہی دو خانوادے ایسے ہیں جن کی بات عوام کو مجبوراً سننا بھی
پڑتی ہے اور ماننا بھی پڑتی ہے یہ دیکھے بغیر کہ اس میں کس حد تک حقیقت ہے۔
تیونس اور مصر کے حالات کے بعد وطن عزیز میں بھی انقلاب کی صدائیں زور
پکڑنا شروع ہو گئی ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ پاکستان میں کسی انقلاب کے مستقبل
قریب میں کوئی آثار نہیں ہیں البتہ تیونس اور مصر کی طرح عوام کے سڑکوں پر
آنے یا حکمرانوں کو مار بھگانے کا کام کسی وقت بھی ہو سکتا ہے لیکن اس کا
انقلاب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس سے بھی بڑی بات کہ پاکستان میں منظر
عام پر ایسی کوئی شخصیت ہی موجود نہیں ہے جو انقلاب برپاکر سکے۔
نئے کاروباری قوائد و ضوابط کے مطابق جب ایک ملازم مخصوص تخمینے سے مہنگا
پڑنا شروع ہو جاتا ہے تو اسے ملازمت سے برخاست کر دیا جاتا ہے، مارکیٹ میں
موجود کنسلٹنٹ بھی آج کل کاروباری حضرات کو یہی تجویز کرتے ہیں کہ ایک
مخصوص عرصے تک کسی بھی ملازم کو مراعات سے نوازیں اور اس سے خوب کام لیں
لیکن جب اس کی مراعات اس قدر بڑھ جائیں اور وہ کام میں سہل ہو جائے تو اسے
کام سے فارغ کر دیں اسی قاعدے کے تحت عالمی سرمایہ دار اور ٹھیکیدار ایسے
پرانے ملازمین کو اب فارغ کر رہے ہیں اور ان کی جگہ نسبتاً کم تنخواہوں اور
مراعات پر کئی ملکوں میں نئے حکمرانوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
وطن عزیز میں ابھی تک ہمارے سیاستدان اپنے ہی عوام کو لوٹ کر کھا رہے ہیں
اس لئے ان کے لئے ڈھیل موجود ہے جس دن ان کی ڈیمانڈ امریکہ سے بڑھے گی اس
دن ریمنڈ ڈیوس جیسے شکنجے ہمارے لئے موجود ہیں۔ کچھ سیاستدان ریمنڈ ڈیوس کی
سزا کو ملک کی بقا اور سلامتی کے لئے لازمی قرار دے رہے ہیں اور کچھ اسے
باعزت امریکہ کے حوالے کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ عوام دونوں کی سیاست کو
سمجھنے سے قاصر ہیں اگر امریکہ چاہے تو اپنے کسی غیر اہم آدمی کے لئے بھی
اتنی ضد کر کے وطن عزیز کو مصر اور تینونس جیسے حالات سے دوچار کر سکتا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں حکومت مخالف سیاستدان عوام کے جذبات کو خوب ہوا
دے رہے ہیں اور یہ سب سے آسان ہے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بعد حالات یقیناً
حکومتی کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے اس کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں ۔
مہنگائی بے روزگاری اور بدامنی جیسے بے شمار مسائل نے عام آدمی کو گھیر
رکھا ہے عام آدمی بری طرح عاجز آ چکا ہے لیکن سیاست دان ہیں کہ مفاہمت
مفاہمت کھیل رہے ہیں اور غیر اہم مسائل میں الجھے ہوئے ہیں جن کے حل ہونے
یا نہ ہونے سے عام آدمی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ایسی صورت حال میں عوام کو
جہاں بھی موقع ملتا ہے وہ حکومت سے نفرت کا اظہار کرنے میں دیر نہیں لگاتے،
سب کی دکانداری چل رہی ہے لیکن عوام کو مستقبل کی راہوں کا انتخاب کرنے
والے لیڈر کی تلاش ہے۔کچھ سیاسی اور کچھ غیر سیاسی لوگ ریمنڈ ڈیوس کے کیس
کو استعمال کر کے عوام کو مشتعل کرنا چاہ رہے ہیں۔ عوام کا حکومت سے اعتماد
اٹھتا جا رہا ہے اور اگر ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنٰی دے دیا جاتا ہے تو
باقی کا اعتماد بھی ختم ہو جائے گا جو نہ صرف اس حکومت کے لئے خطرناک ہو گا
بلکہ ملک کے لیے بھی نقصان دہ ہو گا۔
حالات جو بھی ہوں عوام کو کسی کے بہکاوے میں نہیں آنا چاہیے جیسا کہ میں نے
شروع میں عرض کیا۔ کیونکہ بہت سے علماء ریمنڈ ڈیوس کو ہمارے ایمان کے ساتھ
نتھی کر چکے ہیں اور بہت سے سیاسی رہنما اسے قومی غیرت کا نام دے رہے ہیں۔
لیکن سچ یہ ہے کہ جس قوم کا چولہا آئی ایم ایف کے قرضے سے جلتا ہو کیا اسے
ایسے بلندوبانگ دعوے کرنے کا حق ہے؟ظلم بس ظلم ہے جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ
جاتا ہے فیصلہ کچھ بھی ہو اس کی آڑ میں ہمیں اپنے آپ کو تباہ نہیں کرنا
چاہیے، میں جس کل کو دیکھ رہا ہوں وہ ہمارے حکمرانوں سمیت ہم سب کا ایک کڑا
امتحان ہے کیا ہم اس امتحان میں پاس ہو جائیں گے؟بس کوشش کریں کہ کسی کی
اہلیت کو سمجھے بغیر اس کے بہکاوے میں نہ آئیں اور حکمرانوں پر عدم اعتماد
کی صورت میں صبر سے کسی بہترین راستے اور انتقام کا انتخاب کریں۔ ممکن ہے
وطن سے کچھ حاصل کرنے کے بجائے ملک کو کچھ دینے کا وقت ہو ہر ایک کو اپنے
اپنے حصے کا فرض سوچ سمجھ کر حوصلے اور صبر سے ادا کرنا ہو گا یہی سمجھ
داری ہے۔ |