مختلف تاریخی حوالوں اور پختون روایات سے پتہ چلتا ہے کہ
نیازی قبائل کا تعلق افغانستان کے جنوب مشرق میں واقع غزنی کے ایک گاؤں
شنگر سے ہے۔ یہ قبیلہ غلزئی قبیلے کی شاخ ہے۔ جس کااصل نام نیازئی تھا جو
بگڑ کر نیازی بن گیا نیازئی کا اصل نام لوڈے (Loday) تھا جو شاہ حسین غوری
اور بی بی مٹو کا بیٹا تھا۔
دیگرپٹھان قبیلوں کی طرح نیازیوں نے بھی دربدری کے طویل ادواردیکھے ۔ شنگر
میں نیازی کبھی حکمران حیثیت میں نہ رہے اور نہ ہی کسی بڑے معرکے میں حصہ
لے سکے گو کہ تاریخ میں اسکا ذکر نہیں مگر روایات میں ہے کہ شنگر کا اصل
نام شین عزر تھا جس کا مطلب سفید پہاڑ ہے ۔بعد کے ادوار میں بارکزئی قبائل
نے نیازیوں کوشنگر یا پھر شین غر سے مار بھگا یا تو نیازی غزنی اور قندہار
کے علاقوں میں جا بسے ۔نیازیوں نے ترک جرنیلوں سے اچھے روابط قائم کیے اور
سلطان محمود غرنوی کی فوج میں بھرتی ہونے لگے ۔ سلطانی دور میں نیازی کسی
بڑی جاگیر یا عہد ے پر فائز نہ ہو سکے مگر مختلف جنگوں میں بہادری اور
دلیری سے لڑے ۔ سلطان محمود ترینوں کی نسبت نیازیوں پر زیادہ اعتماد کرتا
اور انہیں فرنٹ لائن پر لڑانے کی ترغیب دیتا تھا۔ سلطانی عہد میں ترین
قبائل انتظامی امور چلاتے تھے اور ہمیشہ ذخیرہ (ریزرو) فوج کا حصہ ہوتے تھے
۔ یہی وجہ ہے کہ ترینوں نے کبھی دریائے سندھ عبور نہیں کیا مگر بعد کے
ادوار میں وہ دریائے سندھ کے مشرقی کناروں پر آباد ہوئے۔ سلطانی عہد کے بعد
نیازیوں نے جلال الدین خواررزم شاہ کا ساتھ دیا اور ھلا کو خان کے خلاف کئی
محاذوں پر بے جگر ی سے لڑے ۔ خوارزم شاہ کو شکست ہوئی تو نیازی فوجی دستے
افغانستان کے مختلف علاقوں میں بکھرگئے اور مدت تک کسی ایک مقام پر اکٹھے
نہ ہو سکے ۔ 1221ء میں جلال الدین کی فوج کا بڑ احصہ نیاز ی لشکروں پر
مشتمل تھا جنہوں نے تاتاریوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
14ویں صدی میں نیاز ی تیمور کی فوج کا حصہ بنے اور پہلی بار انہیں عزت کا
بڑ امقام ملا ۔ ملک حیب خان نیازی پہلا نیازی چیف تھا جس کی حیثیت جرنیل کے
برا بر تھی۔
15ویں صدی میں نیازیوں نے غلزئی کے علاقوں میں حکمران حیثیت اختیار کی مگر
جلد ہی انہیں ترک سکونت کر کے دیگر علاقوں کا رخ کرنا پڑا ۔15ویں صد ی میں
ہی وہ ٹانک ، عیسیٰ خیل اور ٹل کے علاقوں میں آباد ہوئے۔
1452ء میں سلطان بہلول لودھی نے کوہ سیلمان کے دونوں اطراف بسنے والے
پٹھان قبیلوں کو سلاطین شرقی جون پور کے خلاف لڑنے کی دعوت دی تو دیگر
پٹھان قبیلوں کے ہمدوش نیازی بھی میدان جنگ میں آئے ۔لودھی سلطان نے دعوے
کے مطابق نیازیوں کو نہ تو کوئی بڑی جاگیر عطا کی اور نہ ہی کوئی بڑا عہدہ
دیا ۔1480ء میں نیازیوں پر پھر برا وقت آیا جب مروت قبائل نے نیازیوں کو
بنوں ،لکی اور ٹانک کے علاقوں سے مار بھگا یا مگر جلد ہی نیازی سرداروں نے
ان علاقوں پر اپنا اثر ورسوخ قائم کرلیا۔ مروت ،نیازی اور دیگر قبائل کے
درمیان امن کا معاہدہ طے پایا اورنیازی قبائل اپنے خالی کردہ علاقوں میں
آباد ہوگے۔
1505ء میں بابر لکی اور عیسیٰ خیل کے علاقوں سے گزر ا جس کی تفصیل تزک
بابری میں موجود ہے۔ بعض مصنفین نے لکھا ہے کہ عیسیٰ خیل کا نام ھیبت خان
نیازی کے بڑے بھائی عیٰسی خان نیازی کے نام پر رکھا گیا جو شیر شاہ سوری
اور اسلام شاہ سوری کا معتبر درباری تھا مگر یہ بات درست نہیں شیر شاہ سوری
اور اُس کے بیٹے اسلام شاہ کے اقتدار کا زمانہ بابر کے بعد کا ہے۔ اگر
عیٰسی خیل کا نام عیٰسی خان نیازی سے منسوب ہوتا تو بابر اسکا ذکر کرتا ۔
ملک حبیب خان نیازی کے بعد نیازیوں کا دوسرا بڑا سردار ھیبت خان نیازی ہے ۔
ھیبت خان نیازی عیسیٰ خان نیازی کا چھوٹا بھائی تھا جو 1453ء میں پیدا
ہوا۔ شیرشاہ سوری کے عہدمیں ھیبت خان نیازی نے نیازی قبائل کو یکجا کیا
اورنیازی لشکر تشکیل دیا۔ شیر شاہ کے حکم پر وہ ملتان پرحملہ آور ہوا اور
حاکم ملتان فتح شیر جٹ کو قتل کر ڈالا ۔ یہ واقعہ 1543ء کا بیان کیا جاتا
ہے ۔ دوسرا تاریخی بیان ہے کہ شیر شاہ نے اُسے 1541ء میں پنجاب کا گورنر
مقرر کیا اور سندھ، ملتان اور کشمیر فتح کرنے کا حکم دیا ۔ ملتان اور ملحقہ
سندھ کے علاقہ جات فتح کرنے پر ھیبت خان نیازی کو اعظم ہمایوں کے خطاب سے
نوازا گیا ۔ شیر شاہ نے اُسے چالیس ہزار کا لشکر بھرتی کرنے کے علاوہ وسیع
جاگیر اور شاہی خیمہ نصب کرنے کی اجازت دی۔ سلا طین افغانیہ کامصنف احمد
یاد گار لکھتا ہے کہ بلبن نے سرکش افغانوں کو ہندوستان میں بسانا شروع کیا
توافغان پٹھانون کو کوہ سلیمان سے باہر کے علاقوں اور میدانوں میں بسنے کی
عادت ہوگئی بابر نے لودھیوں کی طاقت کم کرنے کا منصوبہ بنایا اور بی بی
مبارکہ کی خوشنوی کی خاطر یوسفرئی پٹھانوں کو زیر تسلط ہندوستان میں
جاگیریں عطا کیں اور صوبیدار یاں دے کر انہیں اپنی فوج کا حصہ بنایا ۔
لودھی دور میں غلزئی قبیلے کے سروانی اور لو ہانی پٹھان ہندوستان آئے جو
بہار اوربنگال جا کر آباد ہوئے شیر شاہ کے دور میں فارمولی بھی آئے مگر
تعداد انتہائی کم تھی۔ لودھیوں کے لیے افغانی پٹھان درد سر بن گئے۔ اُنکے
آپسی اختلافات او ربغاوتوں میں حصہ داری حکمرانوں کے لیے عذاب سے کم نہ تھی
۔ عباس مخزن میں لکھتا ہے کہ شیر شاہ سے پہلے عیٰسی خیل غلزئی کے علاوہ
کوئی پٹھان قبیلہ پنجاب میں آباد نہ ہوا۔ ھیبت خان ملتان کی فتح کے بعد
طویل عرصہ تک پنجاب میں ہی مصروف عمل رہا رائے سین کے قلعے کے محاصرے کے
دوران شیر شاہ نے ھیبت خان کو بھی طلب کیا۔
رائے سین کے قتل عام میں ھیبت خان نیازی نے اہم کردار ادا کیا اور پورن مل
کو اس کے خاندان سمیت قتل کیا ۔ ہسٹری آف انڈیا کا مصنف ایلفنسٹن لکھتا ہے
کہ ھیبت خان نیازی بدعہدی اور سفاکی میں شیر شاہ سوری سے بھی دو قدم آگے
تھا۔ مخزن کا مصنف عباس نعمت اﷲ اور تاریخ سلاطین افغانیہ کا مصنف احمد
یادگار اسے درست قدم قرار دیتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ شیر شاہ اور ھیبت خان
نیازی نے شیخ سید رفع الدین کے فتوے کے مطابق پورن مل کا قتل کیا اور اسلام
کا نام روشن کیا۔ دیگر مصنفین نے لکھا ہے کہ قیدیوں کا قتل اسلام میں درست
نہیں اور نہ ہی اﷲ اور اُسکا رسول ﷺ اس کی اجازت دیتے ہیں۔
جادو ناتھ سرکار اور پروفیسر ڈی سی سرکار کے مطابق خواص خان نہیں چاہتا تھا
کہ ھیبت خان نیازی کو پنجاب ، ملتان اور سندھ کے شمالی علاقوں کاگورنر مقرر
کیا جائے اور اسے اعظم ہمایوں کا خطاب دیا جائے ۔شیر شاہ نے اس کشمکش کو
سنجیدگی سے ختم کیا اور خواص خان کومفتوحہ علاقوں سے واپس بلا لیا۔ قلعہ
رائے سین کے واقعہ کے بعد ھیبت خان نیازی منظر سے ہٹ گیا اور کسی بڑے معرکے
میں اُسکا نام نہ آیا۔
شیر شاہ کی فتوحات کا رخ جنوب مشرقی ہندوستان کی طرف ہوا تو نیازیوں کی جگہ
برمازید گور کا نام سامنے آیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں بھی گوڈیا گور ہندو
راجپوتوں نے بھر پور حصہ لیا مگر نیازیوں کی شمولیت کے آثار نہیں ۔ گوڈ
ہندو تھے مگر شیر شاہ کی حمایت میں لڑے ۔ ھیبت خان نیازی لاہور تک محدود
رہا اور پنجاب کا نظام اچھے طریقے سے چلاتا رہا۔ 1545ء میں پانچ سالہ
حکمرانی کے بعد شیر شاہ سوری کا لنجر کے مقام پر انتقال ہوا تو اُس کے
بیٹوں عادل شاہ اور جلال شاہ کے درمیان اقتدار کی جنگ شروع ہوئی ۔ جلال شاہ
نے کالنجر میں ہی تاج شاہی پہن لیا جبکہ اس کے باپ کی لاش ایک خیمے میں
رکھی ہوئی تھی۔ جلال شاہ نے اسلام شاہ کا لقب اختیار کیا اور شیر شاہ کو
امانتاً کالنجرمیں دفنا دیا۔ بعد میں اسے سہسرام کے مقبرے میں منتقل کیا
گیا۔اور یہ کام رازداری سے کیا گیا ۔
اسلام شاہ انتہائی مکار اور خونخوار حکمران تھا۔ اس نے بڑے بھائی عادل شاہ
سوری کو ذرہ بھر اہمیت نہ دی تو شیر شاہ کے اہم جرنیل اور اتحاد ی قبائل
ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو گئے ۔ شیر شاہ نے اودھ کے فارمولی پٹھانوں اور
شمال مغربی پنجاب اور ملحقہ علاقوں کے نیا زیوں کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش
کی چونکہ دونوں قبیلے اُسکی جنگی ضرورتوں کے لیے اہمیت کے حامل تھے۔
جلال شاہ سوری( اسلام شاہ) نے بادشاہت کا اعلان کیا تو پٹھان سرداروں اور
دیگر قبیلوں کے جرنیلوں نے شیر شاہ کی سلطنت کو خون ریزی سے بچانے کی تدبیر
کی تاکہ دونوں بھائیوں ( عادل شاہ اورجلا ل شاہ) میں صلح ہو جائے ۔ اسلام
شاہ کی ہٹ دھرمی اور خونخواری کو دیکھتے ہوئے سرداروں نے عادل شاہ کو صلح
پر مجبور کیا کہ وہ روا سے کالنجر آکر چھوٹے بھائی کی تاجپوشی میں شرکت کرے
تاکہ امراء اور فوج کے دلوں سے بغاوت اور خانہ جنگی کا خوف دور ہو جائے۔
جودھ پور کے حاکم خواص خان، ہر مار ا کے جلال خان بن جالواس رائے ، ناگورکے
عیٰسی خان نیازی ، اجمیر کے برماجیت گور، تخت و تاج کے اصل حقدار عادل شاہ
کو حکمران بنانا چاہتے تھے۔مگر انہیں معلوم ہوا کہ پنجاب کے ھیبت خان نیازی
اور دیگر نے اسلام کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے تو سب نے امن کی خاطر
خاموشی اختیار کر لی۔
صلح کے باوجود اسلام شاہ نے عادل شاہ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو عادل
شاہ روپوش ہو گیا۔ بد عہدی اوربیوفائی پر خواص خان اور عیٰسی خان نیازی نے
بغاوت کی اور فتح پور سیکری پر حملہ آور ہوئے ۔ اسلام شاہ نے بھاگ کر جان
بچائی اور چنار کے قلعے میں پناہ حاصل کی۔ یہ طے پایا کہ جب عادل شاہ کی
فوج آگرہ کے قریب پہنچے تو سارے قبائلی سردار اسلام شاہ کا ساتھ چھوڑ دینگے
۔ جیسا کہ پختون روایات میں ہے کہ پٹھان سرداروں کی کوئی بھی بات حتمی نہیں
ہوتی اوروہ عین موقع پریاپھر میدان جنگ میں اپنے عہد سے پھر جاتے ہیں ۔
ایسا ہی معاملہ عادل شاہ کیساتھ ہوا۔ سوائے خواص خان ،عیسیٰ خان نیازی
اورہیبت خان نیازی کے دیگر جرنیل اور قبائلی سردار اسلام شاہ سے مل گئے۔
آگرہ سے دس کو س کے فاصلے پر عادل شاہ اور اسلام شاہ کے حامیوں میں خونریز
معرکہ ہوا ۔ دن بھر لڑائی جاری رہی اور دونوں اطراف سے ڈٹ کر مقابلہ کیا
گیا خواص خان اور نیازی لشکر نے اسلام شاہ کا جم کر مقابلہ کیا مگر رات کی
تاریکی میں عادل شاہ کا لشکر میدان جنگ سے تتربتر ہو گیا۔
خواص خان اپنا لشکر لیکر سر ہند کی طرف چلا گیا اور عادل شاہ چند جانثار
ساتھیوں کے ہمراہ بندھیل کھنڈ کی طرف نکال گیا ۔ عیٰسی خان نیازی پہلے
میوات گیا اور پھر اپنا راستہ صاف کرتا ہوا سرہند آکر خواص خان سے مل گیا ۔
ھیبت خان نیازی نے پنجاب سے کمک منگوائی اور انبا لہ کے نزدیک اسلام شاہ سے
فیصلہ کن لڑائی کا منصوبہ تیار کیا۔ اسی اثناء میں خواص خان اور عیٰسی خان
نیازی بھی ھیبت خان سے مل گئے اور ایک بڑی فوج کی کمان ھیبت کے سپر د کی۔
ھیبت خان اور عیٰسی خان کی نیت میں فتور آگیا اور انہوں نے عادل شاہ کی
حکمرانی بحال کرنے کی بجائے حکومت قائم کرنے کا خفیہ منصوبہ تیار کر لیا۔
انبالہ کی لڑائی میں اسلام شاہ کو شدید نقصان ہوا۔ خواص خان کا لشکر بے
جگری سے لڑا اورنیازی لشکر کو مکمل تباہی سے بچا لیا۔ اسلام شاہ نے اپنا
لشکر میدان سے ہٹا لیا اور انبالہ سے بیس کوس کے فاصلے پر خیمہ زن ہوگیا۔
اسی دوران خواص خان کونیازیوں کی نیت کا پتہ چل گیا ۔ خواص خان بہادر جرنیل
اور درویش صفت انسان تھا۔ وہ شیر شاہ سوری کا وفادار ساتھی اور عادل شاہ کا
سچے دل سے حماتی تھا۔نیازیوں نے کھلے عام اپنی حکمرانی کا اعلان کیا تو
خواص خان سمیت بہت سے افغان سردار ان کاساتھ چھوڑ گئے ۔
دو دن کے وقفے کے بعد اسلام شاہ نے نیازیوں پر حملہ کیا تو نیازیوں نے جم
کر لڑائی کی مگر تعداد میں اچانک کمی کے باعث جنگ ہا رگئے۔ شکست کے بعد
خواص خان جموں کی طرف نکل گیا اور نیازی کو ہستان نمک کی طرف بھاگ
گئے۔نیازیوں کا خیال تھا کہ پٹھانوں کے جانی دشمن گکھڑاُن کی حمایت کرینگے
اورر وہتاس کے زیر تعمیر قلعے پر قابض ہو کر دریائے گھاگرہ اور درہ خیبر کے
درمیانی علاقوں پر مشتمل نیازیوں کی سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائینگے
۔ نیازی بھول گئے توتھے کہ اپنی پانچ سالہ حکمرانی میں سوائے ظلم و جبر کے
انہوں نے نہ کوئی اصلاحی یا فلاحی کام کیا اور نہ ہی دین اسلام کی کوئی
خدمت کی۔ جن حکمرانوں نے عد ل و انصاف قائم کیا، مدارس اور مساجد تعمیر
کروائیں ، علماء کی خدمت کی ، شفاخانے بنوائے اور رعایا پروری کی عوام نے
ہمیشہ اُن کے لیے اپنی جانیں نچھاور کیں۔
ھیبت خان نیازی نے شیر شاہ کے حکم پر ملتان کی تعمیر کا منصوبہ بنایا تو
حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ کے خلیفہ حضرت شیخ ابراہیم ؒ نے اُسے لشکر کشی سے
منع کیا ۔ شیخ ؒ نے ھیبت خان کو خط لکھا اور حاکم ملتان سے صلح رحمی کی
درخواست کی ۔ حاکم ملتان فتح خان جٹ بھی خو نریزی کے حق میں نہ تھا وہ بھی
شیر شاہ سے امن کا معاہدہ کرنا چاہتا تھا۔
ملتان کے گردو نواح میں بلوچ قبائل کثیر تعداد میں آباد تھے اور حاکم ملتان
کے اطاعت گزار تھے۔ سید و بلو چ بلوچوں کا متفقہ سردارتھااور فتح خان جٹ کا
نائب تھا ۔ ھیبت خان نیازی اور خواص خان کے درمیان بھی چپقلش تھی اور
شہزادہ جلال شاہ ( اسلام شاہ ) بھی ھیبت نیاز ی سے خائف رہتا تھا ۔ ھیبت
خان نیازی اور فتح خان جٹ کے درمیان کہروڑ کے مقام پر خونریز معرکہ ہوا او
رفتح خان جٹ کو شکست ہوئی۔فتح خان اور سید وبلوچ کہروڑ کے کچے قلعے میں
محصور ہوگئے تو ھیبت خان نے شیخ ابراہیم ؒ کو امن کاسفیر بناکر بھیجا اور و
عدہ کیا کہ وہ دونوں سے صلح کر لیگا اور کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائے گا
۔شیخ ابراہیم ؒ کے کہنے پر فتح خان جٹ اورسیدو بلوچ بیس کو س کے فاصلے
پرنیازی کیمپ پہنچے تو ھیبت خان نیازی نے دونوں کو گرفتار کر لیا ۔سیدو
بلوچ رات کی تاریکی میں تیازیوں کا گھیرا توڑ کر بھاگ نکلا مگر فتح خان جٹ
کو بیدردی سے قتل کر دیا گیا۔ (جاری) |