پولیس یونیفارم!بوتل نہیں شراب بدلیں

یہ آج سے لگ بھگ سولہ سترہ سال قبل کی بات ہے نیا نیامگر ہماری زندگی میں پہلا عزیز ہم وطنو یعنی بارہ اکتوبر ہوا تھا،پرویز مشرف نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو برطرف کر کے اٹک قلعہ کی حفاظت میں دے رکھا تھا،پرویز مشرف نے آتے ہی ساتھ نکاتی ایجنڈا قوم کے سامنے رکھا جس میں کڑا احتساب اور دیگر پبلک ریفارمز شامل تھیں ،پبلک ریفارمز میں ایک پولیس کو عوام کا ھقیقی معنوں میں خادم بنانا بھی شامل تھا ،جس کے لیے ملک بھر کی پولیس اور تھانوں کی چیکنگ کے لیے برگیڈئیرز لیول کے افسروں کی دیوٹیز لگائی گئیں ،مجھے یاد ہے اس وقت کھاریاں سے بر گیڈیئر نعیم کو چکوال بھیجا گیا برگیڈئیر صاحب نے چکوال پہنچ کر اسی رات 8بجے ڈی سی آفس سے متصل ریسٹ ہاؤس میں صحافیوں سے ملاقات رکھ لی،ملاقات میں شامل ہونے کے لیے ہم وقت مقررہ سے آدھا گھنٹہ لیٹ پہنچے تو برگیڈیئر صاحب پہلے سے اپنی نشست پر موجود اپنے افسران کے ساتھ ضلعی انتظامیہ کے افسران سے بریفنگ لے رہے تھے،ہمیں ان کی پابندی وقت سے جہاں خوشگوار حیرت ہوئی وہیں اپنی حالت پر تھوڑی خجالت بھی محسوس کی کہ کیا ہی اچھا ہو کہ پورا ملک اسی طرح وقت کا پابند ہو جائے،خیر تعار ف کے بعد برگیڈئیر صاحب نے مدعا ملاقات صحافیوں کے سامنے رکھا کہ جنرل پرویز مشرف کی یہ خواہش ہے کہ آم آدمی کی زندگی میں آسانیاں پیدا کی جائیں اور پولیس فور س سے لوگوں کو چونکہ روز واسطہ پڑتا ہے لہٰذا ہم نے تہیہ کیا ہے کہ اس محکمے میں جو کمی کوتاہیاں ہیں وہ دور کر کے اس فورس کو بھی آرمی کی طرز پر ایک ڈسپلنڈ اداراہ بنایا جائے،ہم سب نے کہا کہ جناب یہ بڑا ہی مشکل اور جان جوکھوں کا کام ہے برگیڈئیر صاحب نے کہاکہ مشکل ہے مگر ناممکن نہیں ،آپ لوگ ہمیں رائے دیں اور جو کمزوریاں آپ کے نالج میں ہیں وہ بتائیں تاکہ ہم ان کو دور کر سکیں،سب دوستوں نے اپنی اپنی رائے دی اور جب ہم نے پرائیویٹ گھروں میں نجی ٹارچر سیلوں کے بارے میں بتایا کہ ہر تھانیدار لیول کے افسر نے اپنا ایک نجی ٹارچر سیل بنا رکھا ہے تو برگیڈئیر نعیم کی حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص کسی پرائیویٹ گھر یا چار دیواری میں ٹارچر سیل بنا لے اور کوئی اسے پوچھے بھی نہ ،ہم نے انکو متعدد ایسی جگہوں کی نشاندہی کی جن پر باقاعدہ ریڈ کرنے کا فیصلہ ہوا اور دوسرے دن شام کے وقت متعدد ایسے عقوبت خانے پکڑے گئے جن میں قید لوگوں کو برآمد کیا گیا کچھ پولیس والوں کے خلاف کاروائی بھی ہوئی تاہم برگیڈئیر صاحب نے میڈیا کے دوستوں کی کاوشوں کو سراہا دو دن بعد مانیٹرنگ سیل جوبلدیہ آفس میں قائم تھا سے ہمارے پی ٹی سی ایل نمبر پر ایک میجر صاحب کا فون آیا کہ برگیڈئیر صاحب چکوال کے تھانوں کا معائنہ کریں گے اور چاہ رہے ہیں کہ میڈیا کے جو دوست وزٹ میں ساتھ جانا چاہیں ساتھ جا سکتے ہیں ،ہمیں حیرت ضرور ہوئی کیوں کہ عموما ً ایسے چھاپہ نما وزٹ کا نتیجہ پولیس کے خلاف ہی نکلتا ہے سو ذمہ داران ایسے معاملات سے میڈیا کو دور ہی رکھتے ہیں کیوں کہ اس طرح کوتاہیاں چھپانے اور معاملات طے کرنے میں آسانی ہوتی ہے مگر فوجی چونکہ دھن کے پکے اور من کے سچے ہوتے ہیں سو ان کے نزدیک دو جمع دو کا مطلب صرف چار ہی ہوتا ہے اس لیے برگیڈیئر صاحب نے کھلی آفر دی کہ جو جانا چاہے ساتھ چلے ہمارے چونکہ ان دنوں شعبہ صحافت کے ابتدائی ایام تھے اور آتش شو ق بھی جوان تھی ایڈوینچر اور آگے بڑھنے کی دھن سر پر ہر وقت سوار رہتی تھی سو پاک کے فوج کے اس قافلے میں سوار ہو گئے،سب سے پہلے تھانہ کلر کہار پہنچے ،تھانے کا ریکارڈ چیک کیا گیا اور چند ایک ایف آئی آرز کی تفصیلات اکٹھی کی گئیں وہاں سے تلہ گنگ کی طرف روانہ ہوئے دھرابی پل پر اس وقت تلہ گنگ کی طرف چیک پوسٹ تھی اس پر موجود چار اہلکار مٹی کے لوٹے میں چائے بنا رہے تھے بندوقیں ساتھ الگ پڑی تھیں انہیں کسی آنے والے کی فکر تھی نہ جانے والے کی ،ان کی کلاس کے بعد تھانہ صدر تلہ گنگ پہنچے جہاں صرف ایک صاحب بیٹھے سگریٹ سلگائے حسب معمول کچھ لکھنے میں مصروف تھے ،برگیڈیئر صاھب نے باز پرس کی تو پتہ چلا کوئی ہوٹل میں گیا ہو ا ہے کوئی آیا ہی نہیں کسی کے مہمان ہیں،محرر سے پوچھا کہ اگر کوئی ایمر جنسی ہو جائے تو کیا کرو گے بولا سر اﷲ خیر کرے گا اچانک ایمرجنسی کیسے ہو سکتی ہے،وہاں سے ہم تھانہ ٹمن کو روانہ ہوئے جہاں پر پولیس والوں کو اپنا اپنا اسلحہ پورا کرنے کا کہا گیا صحیح یاد نہیں مگر شاید دو تین بندوقیں ایسی ملیں جو گھاس میں چھپائی گئی تھیں،واپسی پر خزانہ جہاں مال جمع ہوتا ہے کا دورہ کیا گیا اور کلر کہار تھانہ میں درج ایک غالباً ہیروئن برآمدگی کی ایف آئی آرکے مطابق مال مسروقہ کی جانچ کی گئی تو پتہ چلا کہ مقررہ مقدار سے لگ بھگ چار سو گرام کم ہے،جب پوچھا گیا کہ یہ ایف آئی آر میں نوٹ مقدار میں سے کم یا غلط ہے یا آیف آئی آر میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے تو مجھے اچی طرح آج بھی یاد ہے کہ پولیس کے ترجمان جو ا س وقت سیکورٹی انسپکٹر تھے اور بعد ازاں ڈی ایس پی ریٹائر ہوئے بولے !صاحب یہ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے جانے میں چھنڈی چھونڈی جاتی ہے جس وجہ سے یہ کم ہو گئی،جہاں ایک طرف سب کی ہنسی چھوٹ گئی وہیں کارتوس کا خالی کھوکھا تک جمع کروانے والے فوجی افسران کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کلر کہار سے چکوال آنے تک آدھا کلو منشیات کیسے چھنڈی چھونڈی گئی،مجھے یہ تمام واقعات پولیس کی وردی کی ایک بار پھر تبدیلی سے یاد آ گئے،وجہ اس امر کی یہ بتائی گئی ہے کہ اس محکمے کاا میج بہتر کرنے کے لیے اور آم آدمی کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسکی وردی تبدیل کر دی جائے،حالانکہ اس سے قبل میاں شہباز شریف نہ صرف یہ بے مقصد اور فضول پریکٹس کر چکے ہیں بلکہ اس کے علاوہ ان کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی خاطر خواہ اضافہ کر چکے ہیں ،اسلحہ ا ور نئی گاڑیوں کے فلیٹ بھی فراہم کیے گئے ہیں نہ صر ف یہ بلکہ اس ایک محکمے کے اندر مزید کئی محکمے جیسے ایلیٹ اور وارڈنز کے علاوہ پٹرولنگ پولیس بھی تخلیق کیے گئے مگر اس کا پرنالہ وہیں کا وہیں ہے،بہت سے لوگ اس سے قبل بھی آئے جو اس محکمے کے سوفٹ امیج کے لیے تگ و دو کرتے رہے ماڈل تھانے بنا کر ان میں خواتین تک بٹھا دی گئیں مگر کچھ حاصل نہیں ہو سکا،عوام کا اعتماد بحال ہونے کا نام نہیں لے رہا،یہ بات نہیں کہ اس محکمے میں اچھے لوگ نہیں ناصر درانی اور احمد اسحٰق جہانگیر بھی اسی محکمے کے لوگ تھے اور ہیں ،مگر اصل مسئلہ نچلی سطح پر ہے ڈی پی او لیول کے افسران جتنی تگ و دو کر کے لوگوں کو قائل کرتے ہیں تھلے موجود اہلکار ایک ہی بظاہر شاندار مگر انتہائی بودی قسم کی ایک ہی کاروائی میں سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیتے ہیں ،ماضی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن اور اب ساہیوال کا واقعہ اس کی تازہ ترین اور واضح مثالیں ہیں دوسرا مسئلہ جزا اور سزا کا ہے بڑی سے بڑی سزا دو چار دن یا ہفتہ مہینہ نوکری سے معطلی ہوتی ہے جسے آجکل یہ لوگ انعام سمجھتے ہیں کیوں ،کیوں کہ معطلی کا مطلب ہے کہ کرنا کچھ بھی نہیں مگر تنخواہ پوری وصول کرنی ہے،اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو گا کہ ساہیوال واقعے میں ملوث آدھے سے زیادہ لوگ اپنی اپنی نوکریوں پر بحال ہو چکے ہیں،دنیا بھر میں پولیس کی رٹ قائم ہوتی ہے اور لوگ پولیس سے ڈرتے اور ان کا احترام کرتے ہیں مگر اپنے ہاں معاملہ برعکس ہے ،لوگ آرمی پر جان نچھاور کرتے ہیں اور اس کے بعد موٹر وے پولیس کے ہاتھ چومتے ہیں ان کی طرف سے کیا گیا جرمانہ بھی بخوشی ادا کرتے ہیں ،آرمی کا واسطہ عام حالات میں پبلک سے نہیں پڑتا مگر جتنا پڑتا ہے وہ اتنا فرینڈلی اور ہمدردانہ ہوتا ہے کہ لوگ ان کے بارے میں کسی دوسرے کے منہ سے بھی کوئی ایک لفظ ان کے خلاف سننے کو تیار نہیں ہوتے،اس کے بعد موٹر وے پولیس ہے جو پنجاب پولیس کے مقابلے میں دس گنا زیادہ جرمانہ کرتی ہے مگر ہر کوئی نہ صرف جرمانہ ادا کرتا ہے بلکہ ان کی کارکردگی پر مطمئن اور مسرور بھی ہے،وجہ صاف ہے کہ وہاں انسانیت کی تذلیل نہیں کی جاتی مک مکا نام کا کوئی لفظ ان کی ڈکشنری میں نہیں پایا جاتا،لوگ پڑھے لکھے اور مہذب ہیں انہیں پتہ ہے اگر شکایت ہو گئی تو خلاصی ہونے تک جان عذاب میں آ جائے گی، جبکہ دوسری طرف اب معاملہ اس نہج تک پہنچ چکا ہے کہ عام افراد کی ایک بڑی تعداد کو یقین ہو چلا ہے کہ وارداتوں کا ہماری پولیس کو پہلے سے علم ہوتا ہے ،چور ڈاکو ان سے ملے ہوتے ہیں اگر اس محکمے کو سرے سے ہی ختم کر دیا جائے تو جرائم میں خاصی حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے،گو کہ ایسا مکن نہیں اور شاید اس بات میں کوئی حقیقت نہ ہو مگر عام آدمی اب بھی تھانے جانے سے کتراتا ہے اور اگر کوئی چھوٹی موٹی چوری ہو بھی جائے تو صبر شکر سے ہی کام چلا لیا جاتا ہے،تبدیلی سرکار سے قوم کو بہت سی توقعات کے ساتھ یہ بھی امید ہو چلی تھی کہ یہ لوگ جہاں عام افراد کی زندگیوں میں آسانی پیدا کریں گے وہیں محکموں ا ور خصوصا پولیس کو عوام کا صحیح معنوں میں خادم بنائیں گے مگر ان لوگوں نے بھی شاہانہ پروٹوکول اور شاہی جاہ جلال کے ساتھ اوپر سے لیکر نچلی سطح تک سابقہ حکرانوں کا چلن اپنا رکھا ہے بلکہ کئی ایک کاموں میں تو ان کی نقل اور اس سے بھی دو ہاتھ آگے جا رہے ہیں ،نہ جانے کیوں یہ ہر معاملے میں شہباز شریف کو کاپی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اگر شہباز شریف ہی رول ماڈل ہیں تو پھر تبدیلی تبدیلی کا واویلا کیوں،شہباز شریف نے اربوں روپے سستی روٹی اسکیم کے نام پر تندوروں میں جھونک دیے ،کروڑوں لگا کر پولیس کو نئی وردی پہنا دی،اب آپ بھی وہی کچھ کرنے جا رہے ہیں حالانکہ اس وقت وردی کی تبدیلی پر تبدیلی سرکار کے زعماء کسی دوست کو نوازنے کے طعنے دیتے تھے کیا بتانا پسند فرمائیں گے کہ اب کس دوست کو نوازنے کی تیاری ہے ،یہ سارے فضول کام ہیں جو نہ صرف اس محکمے کی کارکردگی پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں بلکہ عام اہلکار بھی شدید اذیت اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں کیوں کہ جنہوں نے یہ وردی پہننی ہے ان سے کسی بھی قسم کی کوئی رائے نہیں لی جاتی فیصلہ سازی میں شریک کرنے کی بجائے ان پر فیصلہ ٹھونس دیا جاتا ہے،پہلے جس رنگ کی وردی پہنائی گئی اس کا رنگ نہ پورا سبز ہے نہ خاکی اب جس کا ارادہ ہے وہ آدھی ھاف بلیو یعنی آسمانی کلر کی ہو گی اور بقیہ آدھی نیوی بلیو حالانکہ اس سے قبل متعدد محکمے جیسے پی اے ایف اور اسلام آباد پولیس یہ رنگ استعمال کر رہی ہے جب پنجاب پولیس بھی یہ پہننا شروع کر دے گی تو پہچان کیسے ہو گی خیر ،گذارش صرف اتنی ہے کہ جناب اگر یہ سب سوفٹ امیج کے لیے کیا جا رہاہے اور مطمع نظر واقعی پولیس کو عوام کا خادم بنانا ہے تو برائے مہربانی اب کی بار بوتل کی بجائے شراب بدلیں کیو ں کہ اگر اندر شراب وہی ہے تو اوپر جیسا مرضی لیبل اور پیکنگ کر لیں ذائقے اور معیار میں کوئی فرق نہیں پڑنے والا،اگر حقیقی تبدیلی مقصود ہے تو جزا سزا کے نظام کو بہتر کریں اور ان کے بچوں اور فیملی کو بھی وہ تمام مراعات دیں جو دوسری فورسز کے اہلکاروں کو حاصل ہیں ان کے لیے بھی فوجی فاؤنڈیشن بحریہ اور پی اے ایف کی طرز کے اسکول اور ہسپتال کھولیں یا ان کے بچوں کو بھی اسی طرح معیاری اور سستی تعلیم کے لیے ان اداروں میں رعایتی ایڈمشنز کی تگ و دو کریں تو نتیجہ بہت بہتر آ سکتا ہے ورنہ صرف وردی کی تبدیلی سے دوستوں کو تو نوازا جا سکتا ہے حقیقی تبدیلی کے نتائج حاصل کرنا بڑا مشکل ہے۔۔۔۔۔