اگر کہیں کوئی قتل ہوجائے تو مقتول کے لواحقین حصول انصاف
کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں تاکہ قاتل کو سزا مل سکے اور مقتول کے خون کا
حساب ہو۔ مقتول کے اہل خانہ اور دوست احباب اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے
ہیں، کوئی ہسپتال سے میڈیکل رپورٹ حاصل کرتا ہے تو کوئی پولیس کے پاس جا کر
پرچہ درج کرواتا ہے۔ گواہوں سے رابطہ، وکیل کی تلاش ، مقتول کے لواحقین کی
مالی اور اخلاقی مدد، قاتل اور اس کے حماتیوں پر نظر، ان کی دھمکیوں اور
مزید نقصان سے بچنے کی صورت اور کیس کی پروری ، غرض ہر حربہ اور ہر ممکن
کوشش کی جاتی ہے تاکہ مقتول کا خون رائیگاں نہ جائے۔ یہ بات ایک قتل کی ہے
لیکن جہاں لاکھوں قتل ہوئے ہوں وہاں کس قدر محنت اور کوشش کی ضرورت ہوگی ،
اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ایک سفارتی اور عسکری دانا نے یہ مثال دیتے
ہوئے مسئلہ کشمیر کی سنگینی کی طرف توجہ مبذول کروائی جہاں ایک نہیں لاکھوں
قتل ہوئے ہیں اورخون کی ندیاں بہا دی گئیں ہیں۔ جموں کشمیر کے مقتولین کا
حساب چکانے کے لئے ہر ایک بھرپور کوشش کرنا ہوگی۔ یہ کوشش عملی، مالی،
اخلاقی، سفارتی اور ہر شعبہ میں کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہر ایک کو اپنے حصہ
کا کام کرنے کی ضرورت ہے اور کوئی بھی اپنا کردار ادا کئے بغیر نہ رہے جب
تک کہ کشمیری خون کا حساب آزادی کی صورت میں نہ ملے۔ جموں کشمیر کے عوام کو
حق خود آرادیت ملنے تک ہر انصاف پسند اور باضمیر شخص کو اپنا کردار ادا
کرنا چاہیے۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی نے دنیا کی توجہ ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کی طرف
مبذول کروا دی ہے۔ کشمیر میں تحریک آزادی ایک بار پھر شدت سے جاری ہے۔ ماضی
میں ہم نے کئی سنہرے مواقع ضائع کئے ہیں لیکن اب یہ موقع ضائع نہیں ہونا
چاہیے۔ اس لئے ہر ایک کو اپنا کردار پوری ذمہ داری سے ادا کرنا ہوگا اور سب
سے زیادہ فعال کردار بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی سفارت خانوں کو ادا
کرنا ہے۔ دنیا میں تقریباََ ایک سو ممالک میں مقیم پاکستانی سفارت خانوں کو
روایتی اندازکے برعکس اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میزبان ممالک میں مسئلہ
کشمیر کو بھر پور اجاگر کرنا ہوگا ۔اس وقت پوری دنیا کے میڈٖیا میں پاک
بھارت کشیدگی اور مسئلہ کشمیر اہم موضوع ہے لہذا اس کا فائدی اٹھاتے ہوئے
پاکستانی سفیروں کو اپنے میزبان ملک کے ذرائع ابلاغ میں مضامین لکھ کر وہاں
کی عوام کو مسئلہ کشمیر کی اہمیت سے آگاہ کرنا چاہیے۔ میڈیا میں آنے والی
خبروں کی مزید وضاحت اور غلط خبروں پر اپنا نقطہ نظر دینا چاہیے۔ ذرائع
ابلاغ کے نمائندوں سے ملاقاتیں اور نشستیں ہونی چاہیں۔ سفارت خانہ کی جانب
سے مسلسل پریس نوٹ جاری ہونے چاہیں اور سفارتی آداب کے اندر رہتے ہوئے پریس
کانفرسوں کااہتمام ہونا چاہیے۔ میزبان ملک کی جامعات سے رابطہ کرکے وہاں کے
شعبہ تاریخ ، سیاسیات اور صحافت میں سیمنارمنعقد کئے جاسکتے ہیں۔ طلبہ اور
اساتذہ کے وفود سے ملاقاتیں کی جاسکتی ہیں۔ عوامی مقامات پر کشمیر آگاہی
مہم شروع کی جاسکتی ہے۔ مقامی لوگوں کے لئے کشمیر کے بارے میں تصویری نمائش
بہت پر اثر ہوسکتی ہے۔ میزبان ملک میں حقوق انسانی کی تنظیموں، سماجی
راہنماؤں، سیاسی شخصیات، اراکین پارلیمنٹ اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے
رابطہ بہت ضروری ہے۔بھارت میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم، انتہا پسندی کے
واقعات، حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں، ظلم و جبر اور بھارتی حکومت کی پست
پناہی کو دنیا پر عیاں کرنا ضروری ہے۔ جموں کشمیر پر اقوام متحدہ کی
قراردادوں اور بھارت کے کشمیری عوام سے رائے شماری کے وعدوں کومقامی زبان
میں ترجمہ کرکے وہاں تقسیم کیا جانا چاہیے۔ سفارت خانوں میں کشمیر ڈٖیسک
قائم ہونے چاہیں جہاں میزبان ملک میں مقیم کسی فعال کشمیری کو اعزازی ذمہ
داری دی جاسکتی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر اب مستعد اور متحرک پالیسی کی ضرورت ہے۔
وزیر خارجہ اور وزارت خارجہ کو اس ضمن میں ایک مربوط نظام مرتب کرنا چاہیے
اور بیرون ملک مقیم سفارت خانوں سے حقائق پرمبنی کارکردگی رپورٹ طلب کرنی
چاہیے۔یہ روایتی کاردگی یعنی سب اچھا ہے کہ بنیادپر نہیں بلکہ کارکردگی کا
ثبوت بھی طلب کرنا چاہیے۔ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی اور کشمیری جب
وہاں اپنے سفیروں سے ملیں تو ان سے ضرور سوال کریں کہ وہ اس ملک میں مسئلہ
کشمیر کو اجاگر کرنے لئے کیا کررہے ہیں۔ اگر وہاں کے میڈٖیا، پارلیمنٹ،
پالسی ساز اداروں، جامعات اور مقامی عوام میں مسئلہ کشمیر زیر بحث نہیں تو
سفارت خانے حقیقت میں کچھ نہیں کررہے بلکہ محض زبانی جمع خرچ کررہے ہیں ۔
اس صورت حال کا وزارت خارجہ اگر نوٹس نہیں لے گی تو یہ موقع بھی پچھلے کئی
مواقع کی طرح ضائع ہوجائے گا۔ تقدیر کا اصول ہے کہ
فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف |