امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد
افغان طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے میں کسی حدتک کامیاب توہوگئے
ہیں لیکن امریکی صدر ٹرمپ افغانستان سے جلد ازجلد امریکی افواج کا انخلا
چاہتے ہیں اور امن مذاکرات میں ہر قسم کی رکاوٹ کودورکرنے میں انتہائی
سنجیدہ نظرآرہے ہیں ۔اس سلسلے میں زلمے خلیل زاد کی کوششیں کسی حد تک
کامیاب بھی رہیں۔ ان کی کاوشوں سے امریکی حکام اور طالبان کے درمیان کچھ
ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ ٹولونیوزکوانٹرویودیتے ہوئے زلمے خلیل زادکا کہناتھا
کہ پہلی مرتبہ طالبان مذاکرات میں جہاں سنجیدہ ہیں وہاں پہلے جیسی غیرضروری
سختی بھی نظر نہیں آرہی۔ وہ معاملات کو سیاسی طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں،
وہ پہلے امریکا اور پھر افغانستان کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔ طالبان کے وفد
میں ان کے سیاسی بازو کے سربراہ اور طالبان سربراہ ملا اخونزادہ کے چیف آف
اسٹاف بھی شامل تھے۔ ان کی شرکت سے معاملات کی سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔
ابھی مذاکرات کا عمل جاری تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اچانک افغانستان سے 14
ہزار میں سے 7 ہزار (50 فیصد) امریکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان کردیا۔ اس
اعلان سے مذاکراتی عمل میں امریکا کی حیثیت کافی کمزور ہو گئی اور زلمے
خلیل زاد کا کام مزید مشکل ہوگیاہے۔طالبان نے شروع ہی سے مذاکرات کیلئے یہ
شرط عائد کی تھی کہ مذاکرات سے قبل امریکا اپنی فوج کے انخلا کا وعدہ پورا
کرے۔ امریکی صدر کے بیان سے طالبان کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوتا نظر آتا ہے۔
ماضی میں طالبان کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ ایک بار امریکا اپنی افواج کے
انخلا پر راضی ہوجائے تو پھر وہ افغان حکومت سے بھی اپنی شرائط پرمذاکرات
کا آغاز کریں گے۔ تو کیا اس تناظر میں امریکی صدر کا بیان افغان امن کیلئے
امید کی ایک کرن ہے؟ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ طالبان کسی صورت موجودہ
افغان حکومت سے مذاکرات پر تیار نہیں ہیں۔
2001ء میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے طالبان نے کسی بھی افغان حکومت
کو تسلیم نہیں کیا۔ طالبان کا کہنا تھا کہ یہ حکومتیں ناجائز اور امریکا کی
آلہ کار ہیں۔ موجودہ حکومت کے بارے بھی ان کا یہی خیال ہے۔ طالبان کا موقف
ہے کہ یہ حکومت انتخابات کے نتیجے میں نہیں بنی بلکہ یہ ایک معاہدے کا
نتیجہ ہے۔
تاہم افغانستان میں کھیل اب آخری مرحلے کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ وہاں
امریکا کی طویل المدت فوجی مہم کے خاتمے کی توقعات نے چند ایسے منظرناموں
کو جنم دیا ہے، جو ملکی مستقبل کا تعین کرسکتے ہیں۔موجودہ سفارت کاری سے یا
تو ایک ایسے سیاسی حل کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، جس سے افغانستان اور خطے کے
اندر ظاہری حیثیت میں امن قائم ہو یا پھر یکطرفہ امریکا نیٹو کے نظم و ضبط
سے عاری انخلا کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، جو افغانستان کی 40سالہ خانہ جنگی
کے باب کو ایک بار پھر دہرانے کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم دیگر منظرناموں کا
بھی امکان ہے، کیونکہ کئی قوتیں کھیل کے آخری مرحلے میں ٹکراتی ہیں یا پھر
اتحاد کرتی ہیں۔
سب سے نمایاں قوت افغان طالبان ہیں، جو اس وقت ملک کے 60فیصد حصے پر غالب
اور یہ حوصلہ پست افغان سیکورٹی اہلکاروں پر بھی زبردست دباؤ کا باعث بنا
ہوا ہے۔ خوداعتمادی سے سرشار طالبان نے مشکل میں گھری اشرف غنی حکومت کے
ساتھ امن مذاکرات کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے اور غیرملکی افواج کے انخلا
کے ٹائم ٹیبل، طالبان قیدیوں کی رہائی اور طالبان رہنماؤں پر عائد سفر اور
دیگر پابندیاں ہٹائے جانے کے حوالے سے وہ صرف امریکا سے بات چیت کرنے میں
کامیابی حاصل کرچکے ہیں ۔ بلاشبہ طالبان توقع کر رہے ہیں کہ نیٹو اور
امریکی افواج کے انخلا کے بعد وہ دیگر افغان جماعتوں پر سیاسی حل آسانی سے
تھوپ سکیں گے۔
طالبان کی قوت میں ابھار اور عزم کا عکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مایوسی
اور بے صبری میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان نےہلچل
مچادی ہے کہ نصف امریکی فوجی اہلکاروں کا افغانستان سے انخلا جلد ہی کیا
جائے گااورپینٹاگون کوباقی ماندہ فوج کے نکالنے کے ٹائم ٹیبل کی تیاری
کاحکم بحی دے دیاہے ۔ اس بیان نے نہ صرف کابل حکومت کو کنارے سے لگا دیا
بلکہ امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی طالبان کے ساتھ مذاکرات میں
گرفت کو بھی ختم کردیا۔ نتیجتاً، خطے کی طاقتوں کا کردار اور اثر نمایاں
طور پر وسیع ہوگیا ہے۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان سب طاقتوں میں سے پاکستان کا اثر و رسوخ سب سے
زیادہ ہے، اسلام آباد نے حالیہ ابوظہبی مذاکرات میں اہم طالبان نمائندگان
کی شرکت کو ممکن بنا کر اپنے اثر و رسوخ کو ثابت بھی کیا۔تاہم، ایران کا
اثر و رسوخ حالیہ وقتوں میں کافی حد تک بڑھا ہے۔ ایران نے بڑی احتیاط کے
ساتھ سابق شمالی اتحاد کے عناصر کے ساتھ اپنے روایتی روابط کو برقرار رکھتے
ہوئے طالبان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا اور معاونت بھی کی۔ تہران
افغانستان سے امریکی انخلا کو آسان نہیں ہونے دے گاجبکہ روس نے طالبان کے
ساتھ تعاون کی راہیں کھولنے اور افغان داخلی مذاکرات کی ابتدا کی کوشش کرتے
ہوئے خود کو اس کھیل میں شامل کرلیا ہے۔
دوسری طرف بھارت کو ڈر ہے کہ کہیں افغان سیاسی حل سے طالبان حکومت بحال نہ
ہوجائے۔ لہٰذا اب بھارت افغانستان میں موجود اپنے اثاثوں کو ایران اورروس
کے اچھے تعلقات کے ذریعے محفوظ بنانے کی جدوجہد کر رہا ہے جبکہ سعودی عرب
اور متحدہ عرب امارات، امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے تیسرے مرحلے
کی میزبانی کے ذریعے اس امن عمل کا حصہ بن گئے ہیں، تاہم ان کے اثر و رسوخ
کا اندازہ طالبان کی جانب سے ریاض میں مذاکرات کے اگلے مرحلے میں شرکت سے
انکار سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ انکار کی وجہ یہ تھی کہ سعودی عرب کا اصرار
تھا کہ وہ کابل انتظامیہ سے بات چیت کریں۔ طالبان کی جانب سے افغان داخلی
مذاکرات کی مزاحمت سے قطر، جسے سعودیوں نے کنارے سے لگا دیا ہے، کافی مطمئن
نظر آتا ہے۔
چین کے ہاتھ میں اس کھیل کے اہم ’’نہ کھیلے گئے‘‘پتے ہیں۔ یہ اپنے مالی
اورسفارتی اثرورسوخ کے ذریعے خطے کے تمام کھلاڑیوں،پاکستان، ایران،روس
اوروسطی ایشیائی ممالک کو اپنے ساتھ کھڑا کرسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ چین ان
پتوں کو امریکا اور چین کے درمیان تناؤ سے بھرپور بدلتے ہوئے تعلقات کے
تناظر میں کھیلے گا۔مذاکرات کے اگلے مرحلے میں امریکا، تھیوری کے اعتبار سے
طالبان کی زیادہ تر شرائط پوری کرسکتا ہے، جن میں انخلا کا ٹائم ٹیبل،
طالبان قیدیوں کی رہائی اور طالبان رہنماؤں پرعائد سفری و دیگر پابندیوں
کا خاتمہ شامل ہیں۔ تاہم دو ایسے معاملات ہیں جو امریکا اور طالبان کے
درمیان جاری اس عمل کو متاثر کرسکتے ہیں۔ پہلا ہے، دونوں فریقین کی جانب سے
کسی حل پر اتفاق کے بعد امریکی انسدادِ دہشت گردی اہلکاروں کی موجودگی اور
دوسرا ہے افغان داخلی مذاکرات۔
امریکا افغانستان میں اپنے پیچھے ایک چھوٹی انسدادِ دہشت گردی فورس چھوڑ
جانا چاہتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، طالبان نے امریکا کے ساتھ ابتدائی
مذاکرات کے دوران اس کی مخالفت نہیں کی تھی۔ اگر ایران اور روس اس قسم کی
مسلسل امریکی موجودگی کی مخالفت کرتے ہیں توطالبان کا مؤقف تبدیل بھی
ہوسکتاہے۔طالبان کی جانب سے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات پر غیر آمادگی ایک
سب سے اہم رکاوٹ کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ طالبان کہتے ہیں کہ ان کی
حکومت جائز تھی جسے 2001ء میں طاقت کے زور پر ختم کیا گیا۔ انہیں یہ بھی ڈر
ہوسکتا ہے کہ داخلی افغان مذاکرات اور جنگ بندی سے شورش کا زور متاثر
ہوسکتا ہے اور ان کی جھگڑالو مہم تقسیم کا شکار ہوسکتی ہے۔
تاہم ممکن ہے کہ طالبان اپنی طاقت کے بھرم کا شکار ہوں۔ ٹرمپ کو ایک طرف
رکھیے، امریکی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ افغانستان میں اپنی ذلت قبول نہیں کرے
گی۔امریکی جارحانہ رویہ شاید کابل میں خلیل زادکی مذاکرات یا لڑائی کے
جذباتی بیان تک ہی محدود نہ ہو۔ نظم و ضبط کے ساتھ انخلا کیلئے اگر کوئی
فیس سیونگ یااپناوقاربرقراررکھنے کاکوئی فارمولا نہ ہوتوامریکامزید جارحانہ
آپشن کی طرف جاسکتا ہے،جیسے جنگ کی نجکاری۔ ایسی تجویز سابق بلیک واٹرکے
ایرک پرنس نے دی تھی کہ کابل میں حنیف اتمرجیساکوئی سخت شخص بٹھادیاجائے
جولڑائی جاری رکھے اورطالبان کے خلافداعش گروپ میں جنگجو دولت اسلامیہ کے
عناصرکی معاونت کرے اورطالبان رہنماؤں پر قاتلانہ حملوں کی مہم شروع کرے۔
(لیکن روس اور ایران کے مطابق تو یہ سب کچھ پہلے سے ہی ہو رہا ہے)۔
دوسری جانب،طالبان کو خطے کی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ حتیٰ کہ
طالبان کی جانب سے کابل انتظامیہ سے مذاکرات کے انکار پر ایران ان کی حوصلہ
افزائی تو کرتا ہے لیکن ان کے وزیرِ خارجہ نے نئی دہلی میں یہ اعلان کیا
تھا کہ تہران مستقبل کی حکومت میں طالبان کی غالب طاقت نہیں چاہتا۔ روس بھی
ایک متوازن نتیجہ چاہتا ہے جبکہ چین پاکستان کی طرح طالبان حکومت کی
سربراہی میں بننے والی حکومت کو قبول کرسکتا ہے، مگر یہ ایک تھوپے گئے حل
کے بجائے ایک مذاکراتی حل کو فوقیت دے گا۔
طالبان نے اب تک اچھا کھیل کھیلا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اس کھیل میں اب
تک جو جیتا ہے صرف اس کے ساتھ ہی خوش رہیں۔ طالبان کی جنگی فتح کو امریکا
اور خطے کی طاقتوں دونوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔پاکستان
کے اسٹریٹجک مقاصد کیلئے دیرپا سیاسی حل ہی بہترین ثابت ہوگا۔ امریکا اور
طالبان کے درمیان مذاکرات میں مذکورہ دونوں مسائل کے سفارتی حل نکالنے
کیلئے اسلام آباد بہتر پوزیشن میں ہے۔ایک بین الاقوامی انسدادِ دہشت گردی
فورس اقوام متحدہ یا تنظیم تعاون اسلامی (او آئی سی) کے ذریعے بنائی جاسکتی
ہے۔
کابل میں عبوری یا غیرجانبدار حکومت کے قیام، انتخابات کو التوا میں ڈالنے
اور اس کے ساتھ ایک مقررہ وقت کیلئے جنگ بندی سے طاقت کی تقسیم کے فارمولے
پر افغان داخلی مذاکرات اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان سے امریکا اور نیٹو
افواج کے نظم و ضبط کے ساتھ انخلا کا موقع فراہم ہوسکتا ہے۔ افغان پارٹیوں
کو حل قبول ہو، اس کیلئے ان کے ساتھ امریکا، یورپ، چین اور گلف کوآپریشن
کونسل (جی سی سی) کی جانب سے مستقبل میں مالی معاونت کے وعدوں سمیت انہیں
مناسب مراعات کی پیش کش بھی کی جاسکتی ہے۔
پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے مربوط اور خطے کے دیگر کھلاڑیوں کے مفادات میں
بہتر سفارتی کردار کو ذاتی مفادات کیلئے بھی استعمال کرنا ہوگا، مثلاً
پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کو نارمل سطح پر لانا، افغانستان کی
زمین سے ہونے والی بلوچستان لبریشن آرمی اور تحریک طالبان پاکستان کی
دہشتگردی کاخاتمہ،افغان مہاجرین کی واپسی اورسی پیک کاپھیلاؤاوراس
پربلاتعطل عمل،امریکا کی جانب سے اعتراض کاخاتمہ اوراس منصوبے میں جی سی سی
کی شراکت داری انتہائی اہم ہیں۔ |