بھارتی ہندو انتہا پسندوں کا ایٹمی پروگرام دنیا کے لئے خطرہ

بھارت اس وقت دنیا میں جنگی ساز و سامان کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ بھارت نے خطے میں اسلحہ کی دوڑ، چین کا نام لے کر دراصل پاکستان کے خلاف شروع کی ۔ تاکہ پاکستان کے خلاف جارحیت کی جا سکے۔ حالاں کہ پاکستان کی تمام حکومتوں نے بھارت کے خلاف جنگ کا کبھی کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا بلکہ ہمیشہ مملکت کے دفاع کا اعادہ کیا ہے ۔ بھارت کے چین کے ساتھ تعلقات میں بھی چالیس برس قبل بھارتی جنگ کے بعد چین۔ بھارت سرحدوں پر بڑی کشیدگی دیکھنے میں نہیں آئی ،لیکن پاکستان واحد ملک ہے جس کے خلاف بھارت مسلسل جارحیت اور جنگیں مسلط کرچکا ہے اور اب بھی کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب بھارت پاکستانی علاقوں میں گولہ باری اور دراندازی نہ کرتا ہو۔ بھارت نے پاکستانی سرحدوں اور لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنا وتیرہ بنا لیا ہے۔ جبکہ پاکستان زمینی حقائق کو مد نظر رکھتا ہے اور اس حقیقت کو بھی عالمی برداری کے سامنے رکھتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر ہی واحد مسئلہ ہے جیسے اقوام متحدہ کی قرار داوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں تحریک حریت سے انتہائی خوف زدہ ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر مقبوضہ کشمیر کو اُس کا قانونی حق دے دیا گیا تو بھارت کا شیرازہ بکھر جائے گا اور بھارت میں ان گنت علیحدگی پسند بھی ریاستی جبر سے آزاد ہوجائیں گے۔

بھارت کا رقبہ 3287263 کلو میٹر پرمحیط ہے اور آبادی کے حساب سے پاکستان کا زمینی رقبہ881,913کلو میٹر ہے جوبھارت کے مقابلے میں انتہائی کم ہے ۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا میں پاکستان کا نمبر 36واں نمبرآتا ہے ۔ پاکستان کی اس وقت آبادی 22کروڑ کے قریب ہے ۔جبکہ آبادی کے لحاظ سے بھارت دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے ۔بھارتی آبادی پاکستان کے مقابلے میں ایک سو 30کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ 2011کی مردم شماری کے مطابق بھارت کی مجموعی آبادی17.7فیصد اضافے کے ساتھ ایک ارب 91کروڑ 9لاکھ تھی ۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ 2021میں بھارت کی آبادی چین سے بھی بڑھ جائے گی اور بھارت دنیا میں آبادی کے لحاظ سے پہلے نمبر آجائے گا۔ بھارتی حکومت کے انتظام و انصرام میں سیکورٹی کو آبادی و رقبے کی مجبوری بھی سمجھا جاسکتا ہے ۔واضح رہے کہ بھارت کے مشرق میں بنگلہ دیش اور میانمار ہیں، شمال میں بھوٹان، چین اور نیپال اور مغرب میں پاکستان ہے اس کے علاوہ بھارت کے جنوب مشرق اور جنوب مغرب میں بحر ہند واقع ہے۔ نیز یہ ملک سری لنکا،مالدیپ کے قریب ترین ملک ہے۔ جبکہ بھارت کے نکوبار اور اندامان جزیرے تھائی لینڈ اور انڈونیشیاء سے سمندری حدود سے جڑے ہیں۔بھارتی سرحدوں و ممالک میں کوئی ایسا ملک نہیں جو بھارت کے خلاف جارحیت یا قبضہ کرنا چاہتا ہوں ۔ چین کے ساتھ بھارتی تنازعات ہیں لیکن چین سے بھارت جنگ نہیں کرسکتا ۔ چین ، بھارت پر قبضہ بھی نہیں کرنا چاہتا ۔ جبکہ چین بھارت کو متعدد بار بدترین شکست دے چکا ہے لہذا چین کے نام پر بھارت کا جنگی جنون صرف دکھاوا ہے ۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی انتہا پسندی میں متواتر اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ جو ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔

بھارت کے خلاف اُس کا کوئی پڑوسی ملک دہلی پر قبضے کا کوئی منصوبہ یا ارادہ نہیں رکھتا ۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارت ہی چھوٹے پڑوسی ممالک پر قابض ہونا چاہتا ہے اور ’’ سپرپاور‘‘ بن کر اجارہ داری کا خواہاں ہے۔اسی لئے بھارت جنگی جنون میں مبتلا ہے اور دنیا میں جنگی ساز وسامان کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ بھارتی حکومت نے 2019 -20 کے بجٹ میں دفاعی شعبے کیلئے 3 لاکھ کروڑ روپے سے زائد رقم مختص کی ہے۔ بھارتی وزیر خزانہ پیوش گوئل نے عام انتخابات سے قبل لوک سبھا میں عبوری بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ’’ حکومت نے سال 2019-20 کے بجٹ میں دفاعی اخراجات کیلئے 3 لاکھ کروڑ روپے سے زائد رقم مختص کی ہے۔ انہوں نے کہا اگر ضرورت ہوئی تو یہ رقم بڑھائی جائے گی‘‘۔ سال 2018-19 ئمیں دفاعی شعبے کیلئے 2 لاکھ 95 ہزار 511کروڑ روپے رکھے گئے تھے۔ یہ رقم بھارتی حکومت کے کل اخراجات کا 12.10 فیصد تھی۔ جبکہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان نے مالی سال 19-2018 کیلئے دفاع بجٹ 11 کھرب (1100 ارب) روپے مختص کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ اپنی جی ڈی پی کا ایک کثیر حصہ دفاع پر خرچ کرنے والے ممالک میں سے، سعودی عرب 12.9 فیصد، عراق 12.7 فیصد، امریکہ 4.5 فیصد، الجیریا 6.2 فیصد، روس 4.3 فیصد، پاکستان 3.3 فیصد، جنوبی کوریا 2.4 فیصد، برطانیہ 2.0 فیصد، فرانس 1.9 فیصد، اور انڈیا 1.4 فیصد جی ڈی پی دفاع کے مد میں خرچ کر رہے ہیں۔بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری و سیکولر حکومت کہلانے کا دعوی کرتا ہے ۔ لیکن حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں ۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کو تقسیم ہندوستان سے پہلے ہی پروان چڑھایا جاتا رہا ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ ہندو انتہا پسندوں کی شدت پسندی کی سوچ کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے پہلے سر سید احمد خان ؒ اور پھر علامہ اقبال ؒ جان چکے تھے اور دو قومی نظریئے کی بنیاد متحدہ ہندوستان میں رکھی جا چکی تھی کیونکہ ہندو انتہا پسند ہندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی کا بدلہ انگریز وں کے ساتھ مل کر لینا چاہتے تھے۔ بھارتی ہند وانتہا پسندوں نے برطانیہ سے آزادی کے بعد مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اپناغلام بنانے کے لئے چانکیہ کے سیاست کے پیروکار بن مسلمانوں کو ہمیشہ تیسرے درجے کا شہری بنا کر رکھنا تھا ۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد بھارتی ہندو انتہا پسندوں کو اپنے منصوبوں میں ناکامی ہوئی اور اکھنڈ بھارت کے خواب کو پورا کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی سازش سے گریز نہیں کیا۔

روزنامہ ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق’’ نیو دہلی انتظامیہ نے ایس۔400 فضائی دفاعی نظام خریدنے کے لیے روس سے مذاکرات کیے ہیں۔ معاہدے پر دستخط کے بعد روس ساڑھے 4 برسوں میں یہ نظام بھارت کے حوالے کرے گا۔وزارت دفاع کے حلقوں کے حوالے سے شائع کردہ اس خبر کے مطابق بھارت 5 عدد ایس۔400 فضائی دفاعی نظام کی خرید کے لیے روس کو 5.5 ارب ڈالر ادا کرے گا۔سٹاک ہوم بین الاقوامی امن تحقیقاتی انسٹیٹیوٹ نے گزشتہ برس ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ درآمد کرنے والا ملک تھا، اس دورانیہ میں عالمی سطح پر اس کی اسلحہ کی درآمدات 13 فیصد تھی۔ بھارت نے سب سے زیادہ روس سے اسلحہ خریدا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ بھارت کو اپنے کسی بھی پڑوسی ملک سے کوئی جنگی خطرہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھارت کے جنگی جنون کا واحد مقصد اکھنڈ بھارت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہے جس کے لئے بھارت کے ہندو انتہا پسند حکمراں جماعت اور شدت پسند اتحادی کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔بھارت کے مکروہ عزائم کے مقابلے میں پاکستان حائل ہے ۔ پاکستان اپنی کمزور معیشت کے باوجود ایٹمی طاقت بھی بن گیا اور جنگی ساز وسامان کی تیاری میں خود کفیل بھی ہوتا جارہا ہے۔ اہم دفاعی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی دفاعی قوت میں اضافہ بھارتی پریشانی کی اصل وجہ ہے۔ پاکستان زمینی ، فضائی و سمندری دفاعی آلات جنگ میں خود انحصاری کی پالیسی پر گامزن ہے اور عالمی معیار کے مطابق پاکستا ن کی دفاعی صلاحیت حیران کن ہے۔

جبکہ گزشتہ دنوں بھارت کی جنگی صلاحیت اور آلات جنگ کا پول عالمی ذرایع ابلاغ نے کھول دیا ۔ نیویارک ٹائمز نے حریفوں کے خلاف بھارتی فوج کی استعداد کار پر امریکی اعتماد کے باوجود سنجیدہ سوالات اٹھائے ۔

اخبار کے ایک آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ پاک فضائیہ کی طرف سے بھارتی فضائیہ کا جنگی طیارہ مار گرائے جانے اور اس کے پائلٹ کی پاک فضائیہ کے ہاتھوں گرفتاری نے مبصرین کے لئے کئی سوالات جنم دیئے ہیں۔اخبار نے لکھا ہے کہ بھارت کی مسلح افواج کی صورتحال پریشان کن اور تشویشناک ہے۔آرٹیکل میں حکومت کے حوالے سے کہاگیا ہے کہ کل اگر شدید جنگ شروع ہو جاتی ہے تو بھارت کے پاس اپنی فوج کے لئے صرف دس روز کا گولہ بارود ہوگا۔بھارتی رکن پارلیمنٹ اور دفاع کے بارے میں پارلیمانی قائمہ کمیٹی کے رکنGAURAV گوگوئی نے کہاکہ ’’بھارتی فوج کو جدید اسلحے اور سازو سامان کی قلت کا سامنا ہے لیکن انہیں ان حالات میں اکیسویں صدی کی فوجی کارروائیوں میں حصہ لینا ہے‘‘۔

بھارتی وزیراعظم کو اس وقت فرانس سے 36 رافیل طیاروں کی خریداری کے معاملے پر تنقید کا سامنا ہے اور حزب اختلاف نے اس خریداری میں حکومت پر تقریباً نو ارب ڈالر کی خردبرد کے الزامات عائد کیے ہیں۔بھارتی وزیر اعظم پر اپنے دوست کو کرپشن کے عوض رافیل طیارہ اسکینڈل کا سامنا ہے اور بھارت کی اعلیٰ عدلیہ میں جب یہ معاملہ پیش کیا گیا تو حیران کن جواب دیا گیا کہ معاہدے کی دستاویزات ’’ چوری‘‘ ہوگئی ہیں۔ واضح رہے کہ رافیل طیارہ اسکینڈل میں فرانس کے سابق صدر فرانسوا اولاندنے ستمبر2018 میں کہا تھا کہ’’ مودی حکومت نے فرانسیسی کمپنی ''ڈاسولٹ'' کا سرکاری کمپنی کی بجائے پرائیویٹ کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرایا۔ جنہیں ایرناٹکس کا کوئی تجربہ ہی نہیں تھا‘‘۔ فرانس کے سابق صدر فرانسوآ اولاند نے انکشاف کیا تھاکہ’’ بھارت نے 11 کھرب روپے مالیت کے 36 رافیل لڑاکا طیارے کی خریداری کیلئے بزنس مین انیل امبانی کی دیوالیہ کمپنی کو پارٹنر بنانے کی تجویز دی تھی‘‘۔نریندر مودی کو اربوں روپے کرپشن ، بدعنوانی اور اقربا پروری کے الزامات کا سامنا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی طیارے کی ایل او سی کی خلاف پر پاکستان کی جانب سے بھارتی جنگی طیارہ مگ 21کے دو طیارے گرائے جانے اور ونگ کمانڈر ابھی نندن کی گرفتاری اور پھر پاکستان کی جانب سے امن کو ایک اور موقع دینے کے بڑے اقدام پر رہائی کے بعد بھارتی حکومت کی پالیسیوں پر دنیا بھر میں سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں ۔ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ نریندر مودی نے سیاست کے لئے جنگی ماحول پیدا کیا ، پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی ۔ پلوامہ واقعہ کا خود ساختہ ڈرامہ رچایا ۔ لائن آف کنٹرول پر پاکستانی شہری آبادیوں پر گولہ باری میں اضافہ کردیا ۔ ان تمام واقعات کا واحد مقصد بھارتی ہندوانتہا پسند عزائم کا فروغ دینا ہے ۔ اس کا اظہار خود بھارت کی اپوزیشن جماعتیں بھی کررہی ہیں کہ مودی بھارت کا آئین بدلنا چاہتے ہیں جس کا سراسر نقصان اقلیتوں کو پہنچے گا۔
اس وقت بھارت میں ہندو انتہا پسند جنونی حکومت قائم ہے ۔ جو اقلیتوں پر انسانیت سوز مظالم کررہی ہے۔ بھارتی ہندو انتہا پسند حکومت کو کسی بھی پڑوسی ملک سے کسی بھی قسم کے خطرات کا سامنا نہیں ۔ لیکن دنیا کو بھارتی ہندو انتہا پسند حکومت کے عزائم کی وجہ سے ایٹمی جنگ کے خطرات لاحق ہوچکے ہیں ۔ اس وقت بھارت کے ایٹمی ہتھیار مکمل طور پر بھارتی ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں ہے ۔ خطے میں جنگی جنون میں مبتلا انتہا پسند حکومت کی وجہ سے بھارت کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر دنیا کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔ بھارت کے جنگی عزائم کا براہ راست تعلق انتہا پسندی سے جڑا ہوا ہے۔اس وقت ایٹمی ہتھیار اور تنصیبات ہندو انتہا پسند کی ناعاقبت اندیش بھارتی انتہا پسند حکمرانوں اور ان کا ساتھ دینے والی بھارتی افواج کی وجہ سے ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں و تنصیبات کو عالمی نگرانی میں لیا جائے تاکہ پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف ہند و انتہا پسندوں کی جانب سے ایٹمی ہتھیار استعمال نہ کئے جا سکیں۔ بھارت نے 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی دھماکے کئے تھے ۔ بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔لیکن بھارت میں انتہا پسندی کے بڑھتے رجحان کی وجہ سے بھارت کے کسی وعدے پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ افسوس ناک رویہ یہ بھی ہے کہ بھارتی میڈیا بھی لغو و جھوٹے منفی پروپیگنڈوں کے ساتھ جنگی جنون بڑھانے میں مکروہ کردار ادا کررہا ہے ۔ بھارت میں اس وقت22کروڑ سے زاید مسلمان آباد ہیں ۔ بھارتی انتہا پسندحکمران جماعت کے رہنماؤں کے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیزی میں 500 فیصد حد تک خطرناک اضافہ ہوا ہے ۔ آئے روز مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو بھارتی ہندو انتہا پسند کے ہاتھوں مظالم کا سامنا ہے۔ انتہا پسند حکمرانوں کی وجہ سے پورے خطے میں جنگ بادل چھائے رہتے ہیں۔ بھارت اپنی ہندو انتہا پسند سوچ کے ناطے عالمی قوانین کی پاسداری نہیں کرتا ۔ اس لئے بھارت پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔بھارتی انتہا پسندوں کی وجہ سے پوری دنیا میں بھارت کا ایٹمی جارحانہ پروگرام اور میزائل کا جنگ جنون ہمیشہ ناقابل تلافی دینے کا سبب بن سکتا ہے۔

’ہندوستان ٹائمز‘‘ اور ’’دکن ہیرالڈ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق 2009ء سے2013ء کے درمیان گیارہ جوہری سائنسدان غیر حقیقی موت کا شکار ہوئے۔محکمے کے تحقیقی مراکز میں کام کرنے والے آٹھ انجینئرز اورسائنسدان دھماکوں، پھندوں سے یا سمندر میں ڈوب کر مر گئے۔نیوکلیئر پاور کارپوریشن کے تین سائنسدان،بارک ریسرچ سینٹرکے سی گروپ کے دوسائنسدان،سمیت کئی اہم افسران پراسرار موت کا شکار ہوئے۔ آئی اے ای اے کے مطابق ’’یہ سب غیر محفوظ اور انسانی و قدرتی حیات کیلئے انتہائی خطرناک ہیں۔بھارت میں ایٹمی تابکاری سے متاثرہ آبادی کا تناسب روز بروز بڑھتا جا رہا ہے‘‘۔ کچھ عرصہ قبل بھارتی ایٹمی سائنسدانوں کو راز فروخت کرنے کے جرم میں قتل کیا گیا یا کسی اور وجہ سے قتل ہوئے۔بھارتی آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق’’ بھارت کا ایٹمی انرجی ریگولیٹر کمزور اور آزادی سے محروم ہے جس کی وجہ سے بھارتی عوام کیلئے سنگین خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔ ایٹمی پلانٹس سے تابکاری مواد کا اخراج مانیٹر کرنے کا کوئی قاعدہ قانون نہیں‘‘۔ کلپاکم ایٹمی پلانٹ،ممبئی کے نواح میں واقع بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر (بی اے آر سی) اور کائیگا ایٹمی مرکز میں حادثے ہوئے۔ بھارت کے ایک ایٹمی پلانٹ نارورا میں حادثہ ہوا تو56لوگوں کو ہسپتالوں میں داخل کیا گیاتھا۔ بھارت کے22میں سے 12ری ایکٹروں میں حادثات پیش آئے۔ چوری کے48واقعات ہوئے جن میں سے 4واقعات ایسے تھے کہ قابل انشقاق (Fissionable) یورینیم چوری ہوگیا۔ بھارت میں18ماہ تک 7سے 8کلو گرام یورینیم ایک سائنس دان کی تحویل میں رہا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہو سکی۔بم بنانے کیلئے10سے12کلو گرام یورینیم درکار ہوتا ہے اور8کلو گرام یورینیم ایک سائنس دان کے پاس ڈیڑھ سال تک رہا۔گویا وہاں انوینٹری کنٹرول کا نظام ہی نہیں کہ مواد کی گمشدگی کا پتا چلتا۔بھارتی ایٹمی مواد اس قدر غیر محفوظ ہے کہ ایک پورا کنٹینربمبئی ریسرچ سینٹر جاتے ہوئے راستے میں چوری کر لیا گیا تھا۔ بھارت میں ایٹمی تنصیبات اور اس سے متعلقہ لوگ اور مواد مکمل طور پر غیر محفوظ ہیں۔ یقینایہ کسی بھی وقت ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھ بھی لگ سکتے ہیں۔ اب جبکہ بھارت اس وقت ہندوانتہا پسندی عروج پر ہے اور انہیں ریاستی سرپرستی بھی حاصل ہے جن کی زندگی کا واحدمقصد ہر غیر ہندو کو ختم کرنا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کے عزائم بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہے ۔ ان حالات میں اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو بھارتی ہندو انتہا پسندوں کے عزائم کا نوٹس لینا چاہیے ۔

بھارت میں جہاں اندرون ملک اقلیتوں کو بھارتی ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسائل کا سامنا ہے تو دوسری جانب خود ہندو دلتوں کے خلاف بھی بھارتی ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے ٹریننگ کیمپوں میں تربیت فراہم کی کئی ویڈیوز اور انتہا پسندوں کے بیانات منظر عام پر موجود ہیں۔ عالمی برادری کو بھارتی ہندو انتہا پسندوں کو صرف تجارتی مفادات کے خاطر بے لگام چھوڑنے کی پالیسی ترک کرنی ہوگی ۔ کیونکہ بھارتی ہندو انتہا پسندی کی وجہ سے صرف ایک ملک کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو خطرات لاحق ہونگے ۔ کوئی ایک ملک تابکاری اثرات کا شکار نہیں ہوگا بلکہ جہاں دو کروڑ سے زائد انسانوں کی جان جانے کا خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں تو80 فیصد دنیا کے ماحولیاتی نظام کو خطرناک اثرات کا سامنا ہوگا ۔ جسے دور کرنے کی بھی کوشش کی جائے تب بھی کئی عشرے اور کھربوں ڈالرز کا خطیر سرمایہ بھی صرف ہوگا ۔ بھارتی ہندو انتہا پسندوں کو جنگی جنون سے باز رکھنے کی ضرورت ہے ۔ خطے میں اسلحے کی دوڑ میں پاکستان کا کردار اپنی سرزمین کے دفاع تک محدود ہے۔پاکستان کی ایٹمی تنصیبات سے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچا ۔ ضرورت اب اس بات کی ہے کہ کرپٹ ، بدعنوان اور جنگی جنون میں مبتلا بھارتی ہندو انتہا پسندی کو لگام دی جائے۔ گو کہ سعودی عرب ، روس سمیت کئی ممالک نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی دور کرنے کے لئے اپنا تعاون پیش کیا ہے لیکن نریندر مودی کی جھوٹی انَا اور اقتدار کے لئے جنگی جنونی کیفیت پیدا کرنا سب سے بڑی رکاؤٹ بن چکا ہے ۔ خاص طور پر مودی سرکار اب پاکستان کے خلاف جارحیت ، پلوامہ اور رافیل طیارہ اسکینڈل کی وجہ سے بُری طرح پھنس چکی ہے اس لئے خود کو بھنور سے نکالنے کے لئے بھارتی ہندو انتہا پسندوں سے کسی بھی قسم کے غیر متوقع اقدام خارج ازامکان نہیں۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 297251 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.