پنجاب اور سرحدی علاقوں کے گکھڑوں نے بھی انگریز کا ساتھ
دیا یاپھر خاموشی اختیار کی ۔ اٹک کے چھاچھی ، خانزادے اورکھٹٹر دو حصوں
میں تقسیم ہو گئے ۔ زیادہ تر قبیلے حیات خان کھٹڑ کے ساتھ چلے گئے جبکہ
قلیل تعداد نے سردار کالا خان کھٹٹر کا ساتھ دیا مارگلہ کے معرکے میں سردار
کالا خان کھٹٹر نے جنرل نکلسن کی کمان پوسٹ پر حملہ کیا نکلسن شدید زخمی
ہوا تو سردار حیات خان کھٹٹر اُسے اٹھارکر واہ گارڈن لے گیا مگر زخموں کی
تاب نہ لاتے ہوئے وہ واصل جہنم ہوا۔
نکلسن کی موت کی خبر پر میانوالی ، بنوں ، کوہاٹ، لکی مروت ، ہزارہ ، ڈیرہ
اور پشاور میں سوگ منایا گیا۔
ڈومیلی کی شکست کے بعد نیازیوں کا پہلے مغلوں اور بعد میں انگریزوں سے
تابعداری کا رشتہ قائم رہا۔ ھیبت خان نیازی اور عیٰسی خان نیازی جیسی دلیر
اور جفا کش قیادت نصیب نہ ہونے کی وجہ سے نیاز ی اتحاد بھی قائم نہ رہ سکا
اور نہ ہی کوئی لیڈر نیازی لشکر تشکیل دے سکا۔ پانی پت کی جنگ میں خان زمان
نیازی نے حصہ لیا مگر بدلے میں کوئی بڑافوجی یا سیاسی عہدہ حاصل نہ کر سکا۔
بعض مورخین نے لکھا ہے کہ لودھی ، شیروانی اور سوری ایک ہی باپ کی اولاد
ہیں مگر یہ بیان مختصر مزید تحقیق کا محتاج ہے۔ اسلام شاہ اور ھیبت خا ن
نیازی کے درمیان ہونے والی آخری جنگ کے بعد ھیبت خان کا والی جموں سے ملکر
کشمیر پر حملہ آور ہونے کا بھی ذکر ہو اجو انتہائی دلچسپ ہے۔ لکھا ہے کہ
ھیبت خان جموں کے راجہ سے ملکر کشمیر پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھاکہ
مرزا حیدر وزیراعظم کشمیر کو خبر ہوگئی ۔ مرزا حیدر ہمایوں کا خالہ زاد
بھائی اور بابر کا داماد تھا ۔ مرزا حیدر دوغلات ( مصنف تاریخ رشیدی) چولہ
اور قنوج کی لڑائیوں کا چشم دید گواہ ہے۔ ہمایوں کو شکست ہوئی تو مرزا حیدر
جان بچا کر کشمیر آگیا اور اپنی عقل و ذہانت کی وجہ سے نہ صرف مشہورہوا
بلکہ چک حکمرانوں کا سیاسی سرپرست بن گیا۔
محمد دین فوق نے تاریخ اقوام کشمیر میں مصنف حیاتِ لودھی" شوکت افغانیہ" کا
بیان نقل کرتے ہوئے لکھا کہ ھیبت خان نے حاکم راجوری سے ملکر کشمیر پرقبضہ
کرنا چاہا تو مرزا حیدر نے حسین ماگرے اور بہرام خان چک کو ھیبت خان کی
سرکوبی کے لیے بھیجا ۔ طرفین میں خونزیر جنگ ہوئی جس میں نیازئی خواتین نے
بھی حصہ لیا۔ ہمایوں اعظم (ھیبت خان ) کی بیگم رابعہ بی بی نے خواتین کے
دستے کی کمان سنبھالی اور آخر دم تک لڑتی رہی۔ رابعہ بی بی نے چک کماندار
سردار لائی چک کواپنے ہاتھوں سے قتل کیا۔
اس جنگ میں ھیبت خان سمیت دوہزارنیازی مردوزن کام آئے ۔ ھیبت خان اور دیگر
سرداروں کے سر قلم کیے گئے اور انہیں ا سلام شاہ کے دربار میں بھجوایا گیا۔
ہندی اور انگریز مؤرخین نے افغان تاریخ دانوں کو نا قابل اعتبار قرار دیا
ہے۔ احمد یادگار اور فرشتہ کی مثال دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ پٹھانوں کے
معرکوں کو مبالغے کا لباس پہنانے کے ماہر ہیں ۔ ھیبت خان نیازی اور والئی
راجوری کا بیان بھی اسی طرح کا لگتا ہے ۔ کسی بھی مستند تاریخ میں راجوری
کے مقام پر لڑی جانے والی کس جنگ کا ذکر نہیں ۔انبالہ کی لڑائی میں نیازی
شکست کھا کر بھاگے اور کوہستان نمک میں پنا ہ لی۔ کوہستان نمک کے خدوخال
کاجائزہ لیا جائے تو شمال مشرق میں ترکی کا پہاڑ ، شمال مغر ب میں میرپور
کا سلسلہ کالی دھار اور شمال سے مغرب میں دریائے جہلم واقع ہے۔ میرپور اور
بھمبر سلطان زین العابدین بڈھ شاہ کے دور سے ہی گکھڑیا ککڑ ریاستیں چلی
آرہی تھیں۔ ان ریاستوں کے والیان کو فوج رکھنے کی اجازت تھی اور والیان
کشمیری سلاطین کے صوبیدار کہلواتے تھے۔ ایسے کشیدہ ماحول میں ھیبت خان کا
کشمیر کا رخ کرنا ناقابل فہم ہے۔
راجوری بھی نیم خود مختار ریاست تھی جس میں مینڈھر اور ملحقہ علاقہ جات
شامل تھے ۔ راجوری کے جرال راجپوت اسلامی دور سے پہلے اس علاقہ میں آباد
تھے اور حکمران حیثیت کے حامل تھے۔ راجگان راجوری، مینڈھراور ریاسی ہمیشہ
سے حاکم وقت کے اطاعت گزار رہے ہیں اور کبھی باغیانہ روش اختیار نہ کی مگر
افغانوں ، سکھوں اور ڈگروں کے خلاف مسلم جدوجہد میں جرال بھی شامل رہے۔
نیازیوں اور دیگر افغان قبائل کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں۔ کوہ سلیمان کے
اطراف میں بسنے والے پٹھانوں میں بھی اختلاف ہے کہ سبھی قبائل یہودی النسل
نہیں غوری اپنا تعلق یمن کے ہوتی قبائل سے جوڑتے ہیں اور بعض ایرانی او ر
ترک النسل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اولف کیرو اور دیگر مصنفین نے قبائلی
اکثریت کا تعلق بابلی یہودیوں سے جوڑا ہے ۔جنہیں بخت نصرنے قید کر کے ایران
میں رکھا ۔ سارس اول نے انہیں آزادکیا اور کوہ سلیمان میں بسنے کی اجازت
دی۔
افغانوں کے اصل خدوخال عہد سلاطین میں ظاہر ہوئے اور مغلوں نے اُن کے
اقتدار کا خاتمہ کردیا ۔ نیازیوں کا عروج شیر شاہ سوری کے دور میں ہوا اور
پانچ سالہ شیر شاہی حکمران کیساتھ ہی نیازیوں کے اقتدار کا سورج بھی ڈوب
گیا۔ بعد کے ادوار میں نیازیوں اور اعوانوں کے درمیان چپقلش رہی اور کئی
خونریز معرکے بھی ہوئے۔ نیازیوں کی نسبت اعوان کا پلہ بھاری رہا چونکہ
پنجاب ، کشمیر ، ہزارہ ، ڈیرہ جات اور افغانستان کے بعض اضلاع میں اعوانوں
نے اپنے قدم جمائے رکھے ۔گکھڑوں کی طرح اعوان بھی جنگجو قبائل ( مارشل ریس)
میں شمارہوتے ہیں اور ہردور کے حکمرانوں کو جنگی انسانی ایندھن مہیاکرتے
رہے ہیں ۔نیازی قبیلہ تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے اعوانوں کا مقابلہ نہ کر
سکا ۔ میانوالی کا علاقہ بنوں سے الگ ہوا تو نیازیوں کی اہمیت میں بھی کمی
آئی ۔ نواب آف کالا باغ کے دور اقتدار میں نیازی سیاسی لحاظ سے بھی کمزور
ہوئے اور اپنی الگ حیثیت منوانے میں ناکام رہے ۔ سیاسی ادوار میں بھی نیازی
کسی ایک سیاسی پلیٹ فارم پر متحد نہ ہوئے اور مختلف سیاسی جماعتوں کا حصہ
بن کر علاقائی پسماندگی دور کرنے میں ناکام رہے۔ سیاست ، علم ،ادب کے شعبوں
کے علاوہ سول وملٹری بیورروکریسی میں نامور لوگ پیدا ہوئے مگر میانوالی کو
ان شخصیات سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ایڈمرل کرامت رحمان نیازی، جنرل امیر
عبداﷲ خان نیازی، مولانا عبدالستار خان نیازی، مولانا کوثر نیازی اور امیر
عبداﷲ خان روکڑی کے علاوہ کئی نامور شخصیات کا اس قبیلے سے تعلق ہے جنہیں
مقامی ملکی اور غیر ملکی سطح پر شہرت ملی ہے۔
|