میاں نواز شریف اور اس کا خاندان دل دھلا دینے والی
صعوبتوں اور دلآزار موسموں کے سامنے ہیں ابھی بخت انگڑائی اور سرکش ہوائیں
تمھنے کا نام نہیں لے رہی ہیں لیکن جب کبھی مخالف سمت سے اُٹھنے والی ہوا
تاریخ کا ورق پلٹے گی اور چونکا دینے والے حقائق نوشتہ دیوار بنیں گے تو مہ
و سال پر پیھلی بے ثمر محبتوں اور رائگاں عقیدتوں کا روپ کیا ہوگا ؟
ابھی سازگار رتوں اور آسودہ فضاؤں کا وہ موسم اس بد نصیب زمین پر نہیں
اُترا جس میں ایک سہولت کے ساتھ اس طرح کے سوال اُٹھائیں جائیں یا ان کی
تلاش میں نکلا جائے لیکن ابھی سفاک روزوشب میں ایک آدمی خاک اوڑھتی شریک
حیات مصائب و آلام کے شکار خاندان اور تیزی کے ساتھ اپنی گرتی ہوئی صحت کے
باوجود بھی اپنے اس مؤقف پر دلیری کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے ۔
جو اس نے اقتدار سے توھین آمیز بے دخلی کے بعد جی ٹی روڈ پر عوام کے سمندر
کو چیرتے ہوئے اپنایا تھا ۔ اگر کوئی آدمی اپنی جھالت اور بے خبری کی
انتھاء کو نہیں چھو رہا ہے تو کم از کم اس کے لئے یہ سوال غیر اہم ہو گیا
ہے کہ نواز شریف کرپشن اور بد دیانتی کی وجہ سے شدید ترین صعوبتوں کا سامنا
کر رہا ہے ۔ کیونکہ کبھی نہیں دیکھا گیا ہے کہ کوئی “بد دیانت” سپریم کورٹ
کو خود خط لکھے کہ میرے اور میرے خاندان کے خلاف تحقیقات کی جائیں ۔
کوئی بد دیانت بھاگ جاتا ہے لوٹ کر نہیں آتا اور وہ بھی ایسے حالات میں جب
اس کی شریک حیات کی آخری سانسیں گنتی کی رہ گئی ہوں لیکن اس "بد دیانت" نے
ایسا ھی کیا اور کس جوانمردی سے کیا ۔ وہ یقینًا اس ملک کے امیر ترین
خاندان میں پیدا ہوا اور ایک نازو نعم میں پھلا بڑھا ۔ سیاست میں آیا تو
طویل عرصے تک اختیار اور اقتدار کے مراکز اس کی گرفت میں رہے ۔
ایسے شخص کو فطری طور پر بزدل اور مصلحت پسند ہونا چاہئے تھا لیکن ابتلاء
اور آزمائش کے دنوں میں اس کا ششندر کر دینے والا دلیر پن ایک دُنیا سے
خراج لے رہا ہے۔
اڈیالہ سے کوٹ لکھپت تک، کلثوم نواز کی لاش سے مریم نواز کی قید و بند تک
چیختے چھنگاڑتے میڈیا سے علاج کی سہولت نہ دینے تک اور ثاقب نثار سے فیاض
چوھان تک عذابوں کے وہ سلسلے ہیں جو کسی پہاڑ پر بھی اُتریں تو ریزہ ریزہ
کر کے رکھ دیں گے لیکن اس سچ سے کون انکار کرے گا کہ وہ ایک باوقار خاموشی
کے ساتھ اپنے مؤقف (سول سپرمیسی ) پر ڈٹا ہوا ہے اس کے لہجے پر کبھی لغزش
کا موھوم سا شائبہ تک نہیں ہوا نہ اس کی گردن میں ہلکا سا خم دیکھنے کو ملا
۔
سیاست میں سکّہ رائج الوقت یعنی تقریری مار دھاڑ اور مکّے لھرانا اس کا
مزاج ہی نہیں اور گاہے اس کا تمسخر بھی اُڑایا گیا لیکن کم از کم اس نے یہ
بات ثابت کر دی ہے کہ ڈرامے بازی کی بجائے ٹارگٹ پر فوکس کیا جائے اس سلسلے
میں وہ خطروں اور رکاوٹوں سے ہمیشہ بے نیاز ہی نظر آیا بلکہ بہت ہی حد تک
کامیاب بھی رہا خواہ وہ اقتدار کے دنوں میں منصوبوں اور سرمایاکاری کے
حوالے سے تھا یا وزارت عظمٰی سے بے دخلی کے بعد سڑکوں پر ایک خوف ناک
بیانیہ اُٹھانے کے حوالے سے ۔
وہ ھر جگہ قدرے خاموش اور پرسکون نظر آئے لیکن حیرت انگیز ثابت قدمی کے
ساتھ ٹارگٹ کی طرف بڑھتے ہوئے ۔ بظاہر سادہ نواز شریف اتنا سادہ ھرگز نہیں
جیسا وہ نظر آرہا ہے ۔ بلکہ اس کی شخصیت میں ایک پراسرار گہرائی کے ساتھ
ساتھ کسی حد تک روحانی تیقن کا رنگ بھی جھلکتا ہے کیونکہ وہ اپنے ماضی
الضمیر کو بیان کرتے ہوئے انتھائی حد تک سادہ لہہجہ رکھتا ہے جبکہ مصنو عیت
اور مبالغہ تو ایک مدّت ہوئی کہ اس کے لہجے اور باڈی لینگویج کے قریب بھی
نہیں پھٹکے ۔
اس نے حد درجہ مہارت لیکن خاموشی کے ساتھ ظالم اور مظلوم کے درمیان واضح خط
تنسیخ بھی کھینچ دی اسے یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ نا سمجھی اور جذباتی
نعروں کا کل سیاسی حجم اس ملک میں کتنا ہے اور انھیں کس سیاسی خیمے میں
ٹھونس دیا گیا ہے ۔ وہ باشعور اور جمہوری جدوجہد کے حامی سیاسی کارکنوں
(خواہ وہ کسی بھی جماعت سے ہوں ) کو “دریا “ کے دوسرے کنارے پر بھی لے گیا
ہے گو کہ ابھی ان سب جماعتوں کے درمیان اعتماد اور مشترکہ جدوجہد کی فضا
نہیں بن پائی لیکن اس معاملے کو شاید ابھی وہ وقت کے فطری بہاؤ پر چھوڑ چکا
ھے اس نے اپنی کشتیوں کو آگ بھی لگا دی ہےاور باقی حلیفوں کی کشتیاں بھی آس
پاس ہی ہیں مجھے ڈر ہے کہ یہ الاؤ اس کے حلیف اپنی کشتیوں کی طرف بھی لے
گئے تو پھر کیا بنے گا ؟ |