سرمدی

سرمدی حسن، عقل اور نزاکت کا حسین امتزاج۔۔۔۔۔۔

دایان نے بار ہا ساتھ لیجانے کی ضد کی مگر میں نے کبھی حامی نہیں بھری ۔حالانکہ اچھی خاصی کمائی اور جوانی کے باوجود اپنے خوف اور جھجھک کے باعث ایسی جگہوں پر جانے سے کنی کتراتارہا ہوں۔دایان عام سی شکل و صورت اور چھوٹے قد کا لڑکا ہے لیکن زبان اتنی تیز اور لہجہ اتنا پُر اعتماد کہ کسی کو بھی مِنٹوں میں اپنا ہمنوا بنا لے۔میں اُس کی نفسیات سے واقف تھا کیونکہ ہم دوست جس دایان کا بے تکلف محفلوں میں مذاق اُڑاتے تھے ،وہ مُجھے اپنا اثر و رسوخ دکھانا چاہتا تھا۔اُسے میری مستی سے کوئی غرض نہ تھی صرف اپنی نمائش درکار تھی۔اسی لیے میں اُس کی کہانیاں سُننے کے بعد بھی ہنس کے اگنور کر دیتا تھا۔۔۔کیونکہ اُس کے واقعات میں، واقعہ کم اورخودستائی زیادہ ہوتی۔۔

پشاور کا علاقہ حیات آباد ایک خوبصورت اور پوش علاقہ ہے ۔جہاں بڑے سرمایہ دار اور اعلیٰ سرکاری افسران رہائش پزیر ہیں اور یہ پشاور شہر سے کافی دور کارخانوں مارکیٹ کے قریب ہے۔اکثر بڑے شہروں میں امراء کو عوام سے الگ رکھنے کے لیے ایسے علاقے بنائے گئے ہیں ۔جہاں کرایے اور مہنگائی باقی شہر سے کئی گُنا زیادہ ہوتی ہے اور غریب چاہتے ہوئے بھی ان علاقوں کا رُخ نہیں کرسکتے۔لیکن جسم کا دھندا اب تنگ و تاریک گلیوں اور کسمپرسی کو چھوڑ کران عالیشان علاقوں میں قدم جماچکا ہے۔ہر ایک نائیکہ کے پاس کئی بنگلے ہوتے ہیں جن میں سے اکثر کرایوں پر لیے ہوتے ہیں تاکہ تبدیل کرنے میں زحمت نہ ہو۔ ہر رات کا ٹھکانہ الگ ہوتا ہے جس کی خبر صرف نائیکہ کے پکے گاہکوں ،شوقین افسروں اور پولیس والوں کو ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ریسٹ ہاؤس کے نام پر بھی یہ کاروبار کرتے ہیں،جہاں گاہک کمرہ لیتا ہے رات گزارتا ہے اور صبح چلا جاتا ہے۔

دسمبرکے چھوٹے سے دن کی شام ہورہی تھی دایان آج مجھ سے پہلے ہی گھر پہنچ چکا تھا کیونکہ اُس کی گاڑی گیراج میں کھڑی تھی۔جب میں کمرے میں داخل ہوا تو وہ سُرخ ہیٹر پر اکڑوں بیٹھا ہاتھ سینک رہا تھا اور ہاتھوں کی گرمی دُعائیہ انداز میں چہرے پر بار بار پھیر رہا تھا۔میرے آنے کااُس نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا اور اپنا آسن نہیں بگاڑا۔ میں نے سلام کیا تو بے دلی سے صرف وعلیکم کہا۔۔اور سر جھکا لیا۔۔میری ناک بھی ٹھنڈک سے برف کی ڈلی بن چکی تھی اور اُسے ہیٹر کی حرارت درکار تھی لیکن دایان کے آسن کو بگاڑنے کے ڈر سے چُپ چاپ بیٹھ کر ٹی وی آن کر لیا۔۔۔ہم ایک گاؤں کے ، بے تکلف دوست ہیں،اور جاب کے بعد پشاور میں بھی مشترکہ رہائش رکھ لی تھی، لیکن آج اتنی روکھائی کچھ سمجھ سے باہر تھی۔۔میں نے وجہ پوچھی۔۔ تو پھٹ پڑے۔۔۔ شہلا سے آپ کی اتنی تعریفیں کی ہیں کہ آج ساتھ لانے کی ضد کر بیٹھی ہے ،اور ایک آپ ہیں کہ۔۔۔۔۔کہہ کر فقرہ ادھورا چھوڑدیا۔۔۔ پتہ نہیں کونسا طعنہ مارنا چاہتے تھے۔۔۔شکل ،عقل یا شرافت کا۔۔۔۔۔مگر دوستی کے لحاظ میں ہضم کر گئے۔۔۔۔میں نے کہا۔۔بھائی۔۔ شہر کے حالات خراب ہیں ،پولیس رات کے وقت شریفوں سے دہشت گردوں کا سا سلوک کرتی ہے۔گھر والے چُھڑانے بھی نہیں آئیں گے۔۔۔کیوں ایسی ویسی جگہ پھنسا کر مارنا چاہتے ہو؟۔۔۔۔اُس نے بس اتنا کہا سب میرے سر۔۔دوست نہیں؟۔۔۔۔اور میرا مُنہ سوالیہ نشان بن گیا!۔۔۔

دسمبر کی یخ بستہ سڑک پر رات ۹ بجے کے قریب ہماری گاڑی رنگ روڈ گڑھی قمر دین کے راستے حیات آباد کی طرف گامزن تھی۔ تہکال کا علاقہ جان بوجھ کے چھوڑا تھا ورنہ پشاور کینٹ سے دونوں راستے برابر ہی پڑتے ہیں۔دایان گاڑی چلا رہا تھا اور میں ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا کھڑکی کے شیشے میں بال برابر جگہ چھوڑ کر ٹھنڈی ہوا کو اپنے بال بکھیرنے کا موقع فراہم کر رہا تھا۔۔۔۔کھڑکی بند کرکے مجھ سے کبھی بھی گاڑی میں نہیں بیٹھا جاتا ۔۔۔کیونکہ تیز ہوا جب بالوں میں کنگھی کرتی ہے تو ایک مسحور کُن احساس ہوتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے کوئی پریوں کے دیس میں ہوائی گھوڑے پر سوار ہو۔۔اور اُس کے بال اُڑتے ہوئے شانوں کو چُھو رہے ہوں۔۔۔تھوڑی مسافت کے بعد دایان نے اپنا فون نکال لیا ،اور شہلا سے بات چیت شروع کردی۔ان باتوں سے اتنا احساس ہو رہا تھا کہ ہم منزل کے قریب ہیں۔گھبراہٹ، سنسنی،اشتیاق ،ٹھنڈک اور تاریک سڑک نے مجھے کچھ ایسے مِلے جُلے احساسات فراہم کیے کہ میں نیوٹرل سا ہوگیا ، ایٹم کے نیوٹران کی طرح جس پر کوئی بھی چارج نہ ہو نہ منفی اور نہ مثبت۔شہلا کے بارے میں میری ساری امیجری ہندوستانی فلموں سے کشید کی ہوئی تھی۔۔۔۔جس میں ادھیڑ عمر نائیکہ ایک جھولے پر جھولتے ہوئے پان کا ڈبہ پہلو میں دبائے گاہکوں سے سودے طے کرتی ہے۔۔۔ کراہت آمیز ہنسی ہنستی ہے، اور پان کی پیکیں چھوڑتی رہتی ہے۔۔شہلا کے بارے میں یہی خیالات ذہن میں اُبھر اُبھر کر سطح پر بلبلے بنا رہےتھے۔۔ان ہی سوچوں میں گم، ہماری گاڑی ایک بڑے بنگلے کے گیٹ کے سامنے رُکی اور ایک موٹے سے پستہ قد آدمی نے گیٹ کھول کر استقبال کیا اُس کے ماتھے کے بال پیلے رنگے گئے تھے جسے بلونڈ کرنا کہتے ہیں۔جبکہ باقی سر کالا تھا۔۔۔وہ وہیں گیٹ کے قریب کمرے میں چلا گیا اور جیسے ہی ہم لان سے گزرے،ایک بڑے دروازے سے ایک 25سالہ خوبرو ،سیڈول جسم ، اور گاڑھے میک اپ والی لڑکی نے نکل کر دایان کو گلے لگالیا ۔۔۔ دایان نے اسی حالت میں اس کا تعارف کرایا ، ان سے ملیے یہ ہیں مِس شہلا۔۔۔اور میری ساری فلمی امیجری دھری کی دھری رہ گئی۔۔۔۔ میں نے مُسکرا کر زبانی سلام سے کام لیا مگر اُس نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔۔۔۔اور مائل بہ شرارت نظرآئی ۔۔۔لیکن دایان نے بروقت بیچ میں پڑ کر گلوخلاصی کرادی۔۔ہم تینوں ایک بڑے سے ہال نما ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے جس کی دیواریں خوبصورت سینریوں سے سجی اور ڈرائنگ روم بہترین اور اعلیٰ قسم کے فرنیچر سے مزین ،صاف ستھرا تھا۔۔سامنے کی دیوار پر بڑے بڑے تہہ دار پردے لٹک رہے تھے جس کے پیچھے شاید وہ بڑا چمکدار شیشہ تھا جس میں باہر کی طرف سے دیکھنے والے کو صرف اپنی شبیہ نظر آتی ہے،اور اندر بیٹھنے والے کو آنے والا مہمان۔۔۔ شہلا مہمانوں کی طرح ہماری خاطر داری کرنے لگی ۔اور چندمنٹ کے بعدایک کمسن لڑکا چائے کی دوپیالیاں اور بینسن سگریٹ کی ایک ڈبی ہمارے سامنے رکھ کرچلا گیا۔۔۔شہلا ادھر اُدھر کی باتیں اور مذاق کرنے لگی۔۔۔اُس کی زبان دایان سے بھی زیادہ تیز، لہجہ پُر اعتماداور ادائیں بے باک تھیں۔۔۔وہ ہر رسم و رواج سے بے پرواہ،دُنیا سے بے نیاز اور مُسکراہٹوں کا مجموعہ تھی، اور اُس کی یہ مسکراہٹیں کاروباری بھی نہیں تھیں کیونکہ کاروباری مُسکراہٹ میں اتنی کشش نہیں ہوتی۔۔۔میں حیران تھا کہ اتنا اعتماد اور یہ سرشاری جانے کتنی ٹھوکریں اور دھوکے کھانے کے بعد نصیب ہوئی ہوگی؟۔۔۔شہلا کے بال کُھلے تھے اور اُس کے بالوں میں اُس کی پوری شخصیت پنہاں تھی کیونکہ یہ کمر کے حدود سے آگے بڑھ چکے تھے اور پانچ فٹ سے نکلتے ہوئے قد پر بہت جچ رہے تھے۔۔۔۔۔ہمارے صوبے میں جب کسی کو عزت دی جائے یا اُس کی بڑائی مقصود ہوتو، خان صاحب کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔ شہلا بھی مجھے میرے نام کے بجائے خان صاحب کہہ کر مخاطب کرر ہی تھی،جو میری سماعتوں کو گراں گزر رہا تھا، البتہ دایان کو بے تکلف دوست کی طرح اُس کے نام ،تم اور تو سے متوجہ کررہی تھی۔۔۔تھوڑی سی گپ شپ کے بعد شہلا نے دایان کے ہاتھ کو سہلایا۔۔۔آپ تو میرے ساتھ ہیں نا۔۔؟۔۔۔اور دایان نے ۔۔تو اور کیا۔۔کہہ کر بات ختم کردی۔۔۔شہلا نے میرے بارے میں اسفسار کیا تو ۔۔دایان نے عجیب سی بے فکری سے کہا۔۔۔۔ بچہ تو نہیں ہے خود دیکھ لے گا۔۔۔۔اوراس کے بعد وہ دونوں اُٹھ کر کسی اور کمرے میں چلے گئے۔۔۔پھریکدم سے سات لڑکیاں کمرے میں داخل ہوئیں جس سے کمرے میں شور اور شہد کی مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ پید اہوگئی۔۔۔۔۔سب لڑکیوں نے کافی نفیس میک اپ کیا تھا ۔۔اور قریب بیٹھنے پراُن سے کاسمیٹک کی دُکان کی سی خوشبو اُٹھ رہی تھی۔۔۔۔۔ بال سلیقے سے بنے اور سنوارےگئے تھے ،سب اچھی اور قیمتی پوشاکوں میں ملبوس تھیں ۔۔۔۔میرے سامنے والے صوفے کے کونے میں ایک متناسب جسم کی 22,20سالہ لڑکی دُبک کر بیٹھ گئی اور اپنے دوپٹے پر لگے پوم پوم کے ساتھ اپنی انگلیوں سے کھیلنے لگی۔باقی چھ لڑکیوں کے مقابلے میں کافی سے زیادہ شرمیلی اور غیر محفوظ ہونے کے احساس سے بھری ہوئی تھی۔۔باقی لڑکیوں نے پاس بیٹھ کر بات چیت شروع کر دی ۔۔جس میں زیادہ تر باتیں جان پہچان کے متعلق تھیں البتہ چند ایک نے ۔۔۔مُجھ پہ یہ رنگ سوٹ کر رہا ہے نا۔۔۔لپ سٹک زیادہ پھیلی تو نہیں قسم کے سوالات بھی بے تکلفی پیدا کرنے کے لیے کیے۔۔۔ اور میں نے بہت اچھا کمبی نیشن ہے کہہ اُنکا دل رکھا۔۔ ایک نے بینسن کی ڈبی سے سگریٹ نکال کر ایک ہلکا سا پف لیااورباقی کی مُجھے پیشکش کی لیکن ۔۔۔میں نے شکریہ کے ساتھ واپس کردیا۔۔۔اور پھر کسی انجانی اکساہٹ پر خودہی ایک سگریٹ نکال کر سلگائی اور فوک میوزک کی طرح مدہم مدہم سے کش لگا کر دھویں کے چھلے اُڑانے لگا۔۔۔فضا اُس شرمیلی کی خاموش موجودگی سے معطر ہو رہی تھی ۔۔۔شاید اُس کا ،،،اورہ،،،مجھے اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔۔۔جس میں باقی چھ لڑکیوں کی کھی کھی بے محل اور سماعت پر بوجھ بن رہی تھی۔۔۔ شہلا کمرے میں داخل ہوئی اور سیچوئیشن کو سمجھ کر باقیوں کوپتہ نہیں کیا اشارہ کیا، کہ وہ سب کی سب ایک ایک کرکے اُٹھنے لگیں،اجازت چاہی اور چلی گئیں۔۔۔۔لیکن وہ شرمیلی وہیں پرنظریں جُھکائے بیٹھی رہی،دُنیا ومافیہا سے بے خبر۔۔۔شہلا نے اُسے آواز دی ۔۔۔سرمدی!۔۔۔۔سرمدی نے خیالات کے تسلسل کو توڑا ۔۔اور جی آپی۔۔کہہ کراپنے ہونے کا احساس دلایا۔۔۔۔۔سرمدی!۔۔۔۔۔ خان صاحب ہمارے مہمان ہیں! ۔۔۔خیال رکھنا!۔۔۔۔اور ۔۔جی آپی ۔۔۔کےوہی مدہم الفاظ ایک مرتبہ پھر سماعتوں سے ٹکرائے۔۔۔۔شہلا چلی گئی۔۔اور۔۔۔سرمدی اُٹھ کر میرے پہلو میں بیٹھ گئی۔۔۔سرمدی میں یونانی دیویوں کا سا حُسن اور قمری کی سی نزاکت اور نفاست تھی۔۔۔انتہائی ترشی تراشی مورت ۔۔۔جو اپنے کاریگر کی صناعی کا مُنہ بولتا ثبوت تھی۔۔۔نرم پولیسٹر سے بنی ہوئی مرمریں اُنگلیاں بے داغ ریشم جیسے ملائم ہاتھ اور اُس میں ہلکے زمرد کی لہریں رگوں کی صورت میں نمایاں تھیں۔۔۔مراقبے میں غرق صوفیوں کا سا مدہم بے نیاز لہجہ ۔۔۔اور الفاظ میں ادب آداب کی چاشنی۔۔۔ میری طرف رُخ پھیرکر گویا ہوئی ۔۔۔آپ روز پیتے ہیں یا اِدھر آنے کے بعد من کیا؟۔۔۔۔میں حیرت سے منہ تکنے لگا۔۔۔کیوں۔۔۔؟ ۔۔کیونکہ سارا دھواں نمائشی پینے والوں کی طرح باہر جا رہا تھا۔۔۔جو منہ میں بھر کر پھونک دیتے ہیں۔۔۔ اند رلیجا کر پھیپھڑوں کو خراب نہیں کرتے!۔۔۔ میں ہنس دیا۔۔۔ مُجھے اُس کی قوتِ مشاہدہ پر اور بھی حیرت ہوئی۔۔۔۔ وہ ذہانت کے ساتھ ساتھ صاف گوئی کی صفت سے بھی متصف تھی۔۔۔۔۔اُسکی جھجھک ،شرم ،اور نیچی نظریں تو مجھے پسند تھیں ہی ،لیکن اُس پر ذہانت اور صاف گوئی نے سہاگے کا کام کردیا ۔۔۔ ان سب باتوں نے مل کر مجھ پر ایک طلسم سا ڈال کر اپنے بس میں کر لیا،ٹھیک اُسی طرح، جس طرح چلے کا جِن انتالیس دن آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ہاتھ پیر مارتا ہے لیکن چالیسویں روز اپنی گردن عامِل کے گردگول دائرے پر رکھ کر خود کو اُس کےحوالے کردیتا ہے۔۔۔وہ اورقریب سرک آئی۔۔۔اُس نے اپنے ملبوس اور جسم پر جو عِطر چھڑکا تھا،شاید ہزاروں لوگ وہی استعمال کرتے ہوں گے۔۔۔لیکن عطر اُس کے جسم سے چھو کر جتنی مہک رہی تھی ۔۔۔وہ صرف سرمدی کی خوشبو تھی۔۔۔

وسیم خان عابدؔ
دسمبر 2018
نوٹ: کہانی کے سارے کردارفرضی ہیں کسی قسم کی مطابقت محض اتفاقی ہوگی۔
 

Wasim Khan Abid
About the Author: Wasim Khan Abid Read More Articles by Wasim Khan Abid: 27 Articles with 35836 views I am a realistic and open minded person. .. View More