قصیدہ بہاریہ

حضرت نانوتویؒ اور آپ کے رفقاء کار اور عقیدت مندوں کو جس درجہ اور جس قدر والہانہ عشق و محبت اور اخلاص و عقیدت جناب رسول اﷲﷺ کے ساتھ ہے۔ اس کا انکار بغیر کسی متعصب اور سوائے کسی معاند کے اور کوئی نہیں کر سکتا۔ رومانی افسانوں میں مجنوں بنی عامر کے عشق و محبت کے بڑے بڑے افسانے زبان زد خلائق ہیں۔ لیکن اگر مجنوں سگ کوچہ لیلیٰ پر فدا تھا تو حضرت نانوتویؒ اور ان کے رفقائے کار مدینہ طیبہ کی مبارک گلیوں کے ذرّات پر قربان و نثار تھے۔اگر مجنوں لیلیٰ کے عشق میں مجبور و مقہور تھا تو یہ حضرات عشق محمدﷺ میں بے چین و بے قرار تھے۔ اگر مجنوں لیلیٰ کی اداؤں پر فریفتہ تھا تو یہ حضرات اپنے آخر الزمان نبیﷺ کی پیاری سنتوں کے شیدائی تھے۔ اگر مجنون لیلیٰ کے اُنس واُلفت کے دام میں گرفتار تھا تو یہ حضرات آنحضرتﷺ سے تعلق و نسبت پر نثار تھے اور آپ کے لگاؤ اور آپ کی پسند کو جان ِعزیز سے بھی زیادہ قیمتی سمجھتے تھے۔ کیونکہ وہ یہ جانتے تھے اور دل سے مانتے تھے کہ دینی اور دنیوی تمام لذتوں کا سرچشمہ ہی اس برگزیدہ ہستی کے ساتھ مؤدت اور عقیدت ہے۔ جن کے ارشاد فرمودہ ایک جملہ کے مقابلہ میں دنیا بھر کے لعل و گوہر اور ہفت اقلیم کی دولت اور خزانے قطعا ًکوئی وقعت و حیثیت نہیں رکھتے۔اور جن کے پیارے اقوال و افعال اور اسوہ حسنہ کے مقابلہ میں کوئی لذیذ سے لذیذ اور خوش آئندسے خوش آئند چیز بھی ایک رتی بھر کا وزن نہیں رکھتی جن کا اسم گرامی دنیا کی تمام شیرینیوں اور شربتوں سے میٹھا اور جن کی ایک ادنیٰ سنت بھی جواہرات سے مرصع تاج شاہی سے زیادہ مرغوب و پسندیدہ ہے۔ کیا ہی خوش قسمت ہے وہ قوم جس کو جناب رسول کریمﷺ جیسا افضل المخلوقات نبی اور آپﷺ کی شریعت جیسی بیش بہا شریعت مل گئی۔ جس کے بعد کسی اور خوبی کی سرے سے کوئی حاجت ہی باقی نہیں رہتی۔

اکابر دیوبند میں حضرت حجة الاسلام ؒ نے نظم اور نثر میں آنحضرتﷺ کی جو مدح اور تعریف بیان کی ہے اور نبی کریم ﷺ کے فضائل ومناقب کو جس حکیمانہ پیرائے سے ثابت کیا ہے اور جس خلوص و عقیدت سے اس کا اظہار کیا ہے۔ ان کی کتابوں کو پڑھنے اور دیکھنے والا بجز کسی متعصب کے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ قصیدہ بہاریہ حضرت نانوتوی کا ایک ایسا ہی قصیدہ ہے جس میں نبی کریم کے فضائل ومناقب اور مدحت ومنقبت کو بڑے دلنشین ،ایمان افروز اور روح پرور انداز میں بیان کیا ہے۔یہ قصیدہ ۰۵۱سے زائد اشعار پر مشتمل ہے ۔ذیل میں اس قصیدے کے چند منتخب اشعار حسب ضرورت تشریح کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں کہ جب عام صلحاء کے تذکرے سے رحمت نازل ہوتی ہے تو ایک عاشق صادق کے قلم سے محبوب کونین ﷺ کے تذکرے پر کیسی کیسی رحمت وبرکات ملیں گی۔

نہوے نغمہ سراکس طرح سے بلبل زار
کہ آئی ہے نئے سر سے ،چمن چمن میں بہار
یہ اس قصیدے کا پہلا شعر ہے اس میں نہایت لطیف انداز سے شعری تشبیب بھی ہے اور نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری کے حالات وکیفیات کا بیان بھی ۔جس طرح موسم بہار کی آمد پر ہر چمنستان اور گلستان مہکنے اور لہلہانے لگتا ہے ،بلبل وطوطی نغمہ سرائی کر کے ایک عجیب پرکیف ماحول بنا دیتے ہیں اسی طرح آپ کی آمد تو ان بہاروں سے بھی بڑھ کر ہے اس لئے آپ کی آمد سے ہر طرف توحیدوسنت کے غلغلے بلند ہونے لگے اور اہل ایمان ہر طرف خوشی خوشی دعوت اسلام کے پیغام لے جانے لگے،گویا آپ کی آمد سے دنیا میں ایمان ویقین کی بہاریں آگئیں۔

الہی کس سے بیاں ہوسکے ثنا اُس کی
کہ جس پہ ایسا تری ذات خاص کا ہو پیار
جو تو اُسے نہ بناتا ، تو سارے عالم کو
نصیب ہوتی نہ دولت وجود کی زنہار
ان اشعار میں مولانا اپنے عجز کو بیان کر رہے ہیں کہ اے اللہ! نبی کریمﷺ کی مدح وثنا کا حق کون ادا کرسکتا ہے ؟خود آپ کو اپنے محبوب سے اس قدر پیار ہے کہ اگر آپ نے نبی کریم ﷺ کو پیدا نہ کرنا ہوتا تو کائنات میں کسی اور چیز کو ہرگز وجود نہ ملتا۔گویا نبی کریم ﷺ باعث وجود کائنات ہیں اور آپ کی برکت سے کائنات کو وجود ملا ہے۔

فلک پہ عیسیؑ و ادریسؑ ہیں تو خیر سہی
زمین پہ جلوہ نما ہیں محمد مختار
فلک پہ سب سہی ، پَر ہے نہ ثانی احمدﷺ
زمیں پر کچھ نہ ہو ، پَر ہے محمدی سرکار
ان اشعار میں حضرت نانوتوی نے ایک تو نبی کریمﷺ کی افضلیت کو بیان کیا ہے دوسرے عیسائیوں کے ایک مشہور اعتراض کا جواب ہے اور اسی میں عقیدہ ختم نبوت کا اثبات بھی ہے ۔حضرت کے دور میں تو ویسے بھی برطانوی حکومت کی سرپرستی میں باقاعدہ عیسائی مشنریاں مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے سرگرم تھیں اور حضرت نے شاہجہانپور کے دو مناظروں میں انہیں ایسی شکست دی جس نے ان کی کمر توڑ دی تھی۔ عیسائی ایک بات بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر ہیں تو وہ افضل ہوئے ،آپ جواب میں فرماتے ہیں کہ آسمان اور زمین کی افضلیت کو چھوڑئیے جب اللہ تعالیٰ نے کمالات کا منبع نبی کریم ﷺ کو بنایا ہے اور آپ اپنے روضہ اطہر میں زمین پر ہیں تو زمین کے لئے یہ ایک شرف ہی ایسا ہے جس سے آسمان بھی زمین کے آگے شرمندہ احساس کمتری ہیں کیوں کہ آسمان کو جتنے فضائل حاصل ہوجائیں لیکن وہاں نبی کریمﷺ کا ہم پلہ تو کوئی نہیں ہے۔اسی بات کو ایک دوسرے شعر میں یوں کہتے ہیں:

کرے ہے ذرہ کوئے محمدی سے خجل
فلک کے شمس و قمر کو زمینِ لیل و نہار
یعنی نبی کریم ﷺ کی برکت سے آپ کے قدموں کے ذرات کو وہ عظمت ملی ہے کہ زمین انہی ذرات کی نورانیت وبرکات کے بل بوتے فلک کے آفتاب وماہتاب کو بھی شرما دیتی ہے،تو اب اندازہ لگایا جائے کہ خود اس عظیم ہستی کا مقام ومرتبہ کیا ہوگا؟....اگلے اشعار میں اسی مقام نبوی کو سامنے رکھتے ہوئے محبوب کونین ﷺ کو محبانہ خطاب کرتے ہوئے یوں عرض گزار ہوتے ہیں:

تو فخرِ کون ومکاں ، زبدہ زمین وزماں
امیرِ لشکرِ پیغمبراں ، شہِ اَبرار
خدا تیرا ، تو خدا کا حبیب اور محبوب
خدا ہے آپ کا عاشق ، تم اُس کے عاشقِ زار
تو بوئے گل ہے ، اگر مثلِ گل ہیں اَور نبی
تو نورِ شمس ، گر اور انبیاء ہیں شمسِ نہار
حیاتِ جان ہے تو ، ہیں اگر وہ جانِ جہاں
تو نورِ دیدہ ہے گر ہیں وہ دیدہ بیدار
جہاں کے سارے کمالات ایک تجھ میں ہیں
ترے کمال کسی میں نہیں مگر دو چار
بجز خدائی نہیں چھوٹا تجھ سے کوئی کمال
بغیر بندگی کیا ہے لگے جو تجھ کو عار
یہ اشعار اپنے معانی ومطالب میں بالکل واضح ہیں اور ان سے جس طرح حضرت نانوتوی کی محبوب کونینﷺ سے عقیدت ومحبت اور اخلاص ومودت ظاہر ہورہی ہے محتاج بیان نہیں ہے۔ لیکن آخری شعر تو کمال ہے اس میں جہاں آپ کے مقام ومرتبے کا بیان ہے وہیں اُس حقیقت کا بھی مؤدبانہ اظہار ہے جو مقام مدح میں تجاوزِ حدود سے محفوظ رکھتی ہے۔ مقام محمدیت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مختص اوصاف وکمالات کو چھوڑ کر کوئی ایسا کمال نہیں ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو نصیب نہ فرمایا ہو۔گویا عبدیت کے لائق جتنے کمالات و اوصاف ہوسکتے تھے وہ سب آپ کو دیئے گئے ،اور آپ ”عبدِ کامل“ ہوئے ،اور آپ کی اس عبدیت کاملہ کا اِقرار قطعاً کوئی عار کی بات نہیں ہے ،جیسا کہ بعض کم فہم اس کا انکار کردیتے ہیں ۔اور حضرت کا کمال یہ ہے کہ مختلف مسائل کے اثبات کے لیے ایسے دلائل سے استدلال فرماتے ہیں بہت کم اس کی طرف کسی دھیان جاتا ہے ۔مثلاً آپﷺ کے حق میں اس اجتماع کمالات سے ”وحدت الوجود“کو بھی ثابت کیے چلتے ہیں اور فرماتے ہیں:
جو دیکھیں اتنے کمالوں پہ تیری یکتائی
رہے کسی کو نہ وحدتِ وجود کا انکار

نبی کریم ﷺ کے کمالات واوصاف پر عقیدت ومحبت کے پھول نچھاور کرتے کرتے جب اپنے اعمال پر نظر پڑتی ہے اور اپنی عاجزی وکم مائیگی کا احساس دامن سے لپٹ جاتا ہے تو عرض مدعا کے لئے یوں تمہید قائم کرتے ہیں:
تو بہترین خلائق ، میں بدترین جہاں
تو سرور دو جہاں ، میں کمینہ خدمت گار
بہت دنوں سے تمنا ہے کیجئے عرض حال
اگر ہو اپنا کسی طرح تیرے دَر تک بار

یہ آرزوئیں کیا ہیں جوایک عرصہ سے دل میں مچل کر جہان قلب ونظر کو زیر و زبر کیے ہوئے ہیں؟.... لیجئے یہی آرزوئیں ہم اپنی طرف سے بھی بارگاہ رسالت میں پیش کرتے ہیں اور اسی پر اپنا مضمون ختم کرتے ہیں:
امیدیں لاکھوں ہیں ، لیکن بڑی امید ہے یہ
کہ ہو سگانِ مدینہ میں میرا نام شمار
جیوں تو ساتھ سگانِ حرم کے تیرے پھروں
مروں تو کھائیں مدینہ کے مجھ کو مور و مار
جو یہ نصیب نہ ہو اور کہاں نصیب مِرے
کہ میں ہوں اور سگانِ حرم کے تِرے قطار
اُڑا کے باد مِری مشتِ خاک کو پسِ مرگ
کرے حضور کے روضہ کے آس پاس نثار
ولے یہ رتبہ کہاں مشتِ خاکِ قاسم کا
کہ جائے کوچہ اطہر میں تیرے بن کے غبار
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 343790 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.